داور اور محلے کی شیرنی


بیچ رات میں وہ پھر وہی خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھا۔ گھپ اندھیرے میں اس نے نظریں دوڑائیں، ماں باپ اور بھائی تینوں گہری نیند سو رہے تھے۔ اس نے کلمہ پڑھا، سانس درست ہوئی تو پھر سونے کے لئے لیٹ گیا۔

ہر بچے کی ماں کی طرح داور کی ماں نے بھی اسے ایک بلا سے ڈرایا ہوا تھا۔ جن بابا۔ کھانا کھاو ورنہ جن بابا آ جائے گا۔ سو جاو ورنہ جن بابا آ جائے گا۔ کہنا مانو ورنہ جن بابا آ جائے گا۔ یہ سب سن سن کر جن بابا کا خیال اس کے ذہن میں مستقل پنجے گاڑ چکا تھا۔ پہلے وہ خواب میں اس کی کوئی واضح شکل نہیں دیکھ پاتا تھا۔ مگر آج جن بابا ایک شکل اختیار کر گیا تھا۔ بھلا کس کی شکل؟ اس کے کلاس فیلو راشد کی۔

راشد ایک سانولا سا گھنگریالے بالوں والا لڑکا تھا جس کے اوپر کے سارے دانت ذرا باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ہر وقت ہنس رہا ہے۔ جب وہ واقعی ہنستا تھا تو اوپر کا پورا مسوڑا باہر کو نکل آتا۔ عجیب لسوڑا قسم لڑکا تھا۔ دوستی کرنے کے شوق کی وجہ سے ہر ایک میں گھستا تھا۔ داور کو اس کی موجودگی، کوفت میں مبتلا کیے رکھتی تھی۔ جن بابا کی شکل اختیار کرنے کے بعد تو وہ داور کو اور بھی برا لگنے لگا تھا۔

گھر سے تیسری گلی میں داور کا سکول تھا۔ اس کا بھائی ذوالقرنین بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا۔ محلے کے زیادہ تر بچوں کا سکول یہی تھا۔ چونکہ کسی پرانے گھر کے اندر سکول قائم تھا اس لیے مین دروازہ دو حصوں والے کواڑ پر مشتمل تھا۔ پھر ڈیوڑھی سے گزر کر برآمدہ جہاں اسمبلی ہوتی اور اس کے تین اطراف میں کلاسوں کے کمرے۔ داور نے اسمبلی کے دوران قومی ترانہ پڑھتے ہوئے دیکھا تو دائیں جانب راشد کھڑا تھا اور زور شور سے ترانہ پڑھ رہا تھا۔ اس کے منہ سے تھوک نکل نکل کر آگے کھڑے جواد کی گلابی قمیص کو گہرا گلابی رنگ دیے جا رہا تھا۔ داور نے ایک جھرجھری لی۔ اسے سخت کوفت ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے بھائی ذوالقرنین کو اپنے خواب کے بارے میں بتانے کا سوچا مگر پھر یہ ارادہ ملتوی کر کے دوستوں سے بات کرنا بہتر سمجھا۔

گھر سے دوسری گلی میں اگر سیدھا نکلتے جائیں تو الٹے ہاتھ ایک دکان آتی جہاں سے کریانہ کا سامان ملتا تھا۔ ایک دکان داور کے گھر کی گلی میں بھی تھی مگر چیزوں کی زیادہ ورائٹی اس کریانہ سٹور میں تھی۔ داور کو بسکٹ کھانے کا بہت شوق تھا۔ خاص کر چاکلیٹ بسکٹ۔ اس کا بس چلتا تو وہ پورا کمرہ بسکٹوں سے بھر دیتا۔ کریانہ سٹور پر بہت رش ہوتا تھا۔ داور کی باری بہت دیر سے آتی اور دکاندار بھی زیادہ توجہ بڑے لڑکوں کو دیتا جس سے داور کو کوفت ہوتی۔ خاص طور پر اگر اس کی باری پر کوئی اور لڑکا جلدی سے آگے بڑھ کر کوئی چیز خریدنے لگ جاتا۔

کریانہ کی دکان تک پہنچنے سے پہلے شاہد کا گھر آتا تھا۔ شاہد اور اس کے بھائی سارا دن بے کار گلیوں میں گھومتے تھے۔ معلوم نہیں ان میں سے کوئی سکول بھی جاتا تھا یا نہی۔ ایک تو بے چارہ ان میں سے پاگل بھی تھا۔ ایک روز شاہد کے ہاتھ نہ جانے کہاں سے ایک چاقو آ گیا۔ اور وہ جیسے ہی لے کر گلی میں نکلا تو داور کریانہ سٹور کی طرف جاتے ہوئے اسے مل گیا۔ شاہد نے چاقو گھما گھما کر داور کو اتنا ڈرایا کہ وہ کریانہ سٹور جانے کے بجائے گھر بھاگ گیا۔ اس نے اپنی ماں کو بتایا جس نے اسے کریانہ سٹور نہ جانے کا مشورہ دیا۔ داور کئی روز کریانہ سٹور نہیں گیا اور گلی والی دکان سے بسکٹ لے کر کھاتا رہا۔ اسے سخت کوفت ہوئی۔

داور نے اپنے دوستوں جواد اور محسن سے اس بارے میں بات کی۔ دونوں بچوں نے اسے خوب دلاسے دیے کہ وہ فکر نہ کرے۔ راشد یا شاہد نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو ان کو مل کر دیکھ لیں گے مگر محسن نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اللہ میاں سے دعا کرے۔ اس کی امی نے کہا ہے کہ آج بارہ ربیع الاول کی رات ہے۔ اللہ میاں دعا ضرور سنتے ہیں کیونکہ کیا معلوم شاہد چاقو سے کہاں وار کر دے اور راشد اگر واقعی میں جن ہوا تو؟ داور کو یہ بات زیادہ بہتر لگی اور اس نے رات کو سچے دل سے دعا مانگی۔

سکول کی گلی میں مڑنے سے پہلے سیدھے ہاتھ پر فارسٹ مینیجر ظفریاب خان کی کوٹھی تھی۔ اس نے گھر کو چڑیا گھر بنایا ہوا تھا۔ قسم قسم کے جانوروں اور پرندوں کے علاوہ ایک پنجرے میں شیرنی بھی بند تھی۔ اس کی دہاڑ سردیوں کی رات کی خاموشی میں اکثر سنائی دیتی تھی۔

بارہ ربیع الاول، دن دو بجے سکول میں میلاد تھا۔ سب بچے رنگ برنگی کپڑے پہنے سکول اور گلی میں گھوم رہے تھے۔ داور نے اس دن نیلا شلوار قمیص پہنا تھا۔ کچھ بچوں نے آج تقریریں کرنی تھیں اور کچھ نے نعتیں پڑھنی تھیں۔ داور کو اس کی استانی نے ایک نعتیہ شعر یاد کرنے کو دیا ہوا تھا جس کو وہ سکول کی گلی میں ٹہل ٹہل کر یاد کر رہا تھا۔ ظفریاب خان کی کوٹھی کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس کا ملازم شیرنی کو گوشت ڈال رہا تھا۔

بچوں کے لیے یہ بڑی تفریح تھی۔ کسی ایک نے شرارت کی اور شیرنی کی طرف پتھر دے مارا۔ کھانے کے وقت شیرنی کو ایسا مذاق بالکل پسند نہیں آیا۔ پنجرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ جو دروازے کی طرف لپکی تو جھٹکے سے ملازم کے ہاتھ سے زنجیر چھوٹ گئی اور شیرنی ایک ہی جست میں دروازے کے ساتھ والی دیوار پر چڑھ گئی۔ بچے چیخیں مارتے ہوئے سکول کے اندر بھاگ گئے اور کواڑ بند کر لیا۔

داور کا منہ دوسری طرف تھا اور وہ گلی کے آخر میں کھڑا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ ایک دم خاموشی ہو گئی ہے۔ وہ پلٹنے ہی والا تھا کہ اس کو زنجیر کی چھنک سنائی دی۔ وہ ایک دم مڑا اور اپنی جگہ سن ہو کر رہ گیا۔ شیر سامنے دیکھ کر تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ وہ تو پھر بچہ تھا۔ شیرنی اس کی طرف بڑھتی آ رہی تھی اور اس کے گلے کی زنجیر زمین سے رگڑ کھاتی جا رہی تھی۔ فطری تقاضے کے عین مطابق داور نے بھاگنا شروع کر دیا مگر شیرنی نے اسے پکڑنے کر لیے جو پنجہ مارا وہ اس کی نیلی قمیص پھاڑتا ہوا کمر پر نشان ثبت کر گیا۔ داور زمین پر گر پڑا۔ اس کا چہرہ زمین پر لگا اور مٹی اس کے ناک اور منہ میں چلی گئی۔ اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ اٹھا اور پھر بھاگنے کی کوشش کی۔ شیرنی نے دوسرا پنجہ مارا مگر اسی وقت ملازم زنجیر پکڑ کر کھینچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ دوسرا پنجہ زیادہ گہرا نشان چھوڑ گیا تھا۔

شیرنی کا پنجرہ بند ہو گیا۔ بچے سکول سے باہر نکلے۔ داور کو اٹھایا اور ہجوم کی صورت میں اس کے گھر پہنچ گئے۔ سہارا دے کر بچے جب اسے برآمدے سے کمرے میں منتقل کر رہے تھے تو سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس کی ماں نے دیکھ لیا۔ ہاتھ سے کپڑے دھونے والا ٹب چھوٹ کر اچھلتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے گر گیا۔ کمال صاحب کو فون کیا گیا۔ ریلوے میں افسر تھے۔ جلد گھر پہنچ گئے۔ ذوالقرنین کو کسی نے بتایا تمھارے بھائی کی شیر کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے۔ وہ بھاگتا ہوا گھر پہنچا۔ داور کو الٹا لٹا کر کمر پر دوائی لگائی جا رہی تھی۔ اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ ذوالقرنین کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پریشانی داور کو صاف دکھائی دے رہی تھی۔ پھر ذوالقرنین دیوار کے ساتھ کھڑے کھڑے پھسلتا ہوا نیچے آ گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

اس سارے واقعے کے بعد داور محلے میں شیر والا بچہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ شاہد نے پھر کبھی اس کا راستہ نہ روکا۔ کریانہ سٹور پر دکاندار سب سے پہلے داور کی بات سنتا اور دوسروں کو بھی فخر سے بتاتا جیسے داور نے واقعی شیر کو پچھاڑ کر رکھ دیا ہو۔ راشد بھی اس سے خوامخواہ گھلنے ملنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ وہ خواب میں جن بابا بھی بن کر پھر کبھی نہیں آیا۔ بچوں پر جیسے اس کی دھاک سی بیٹھ گئی تھی۔ داور نے سوچا محسن کی امی صحیح کہتی ہیں۔ اللہ میاں نے میری دعا سن لی ہو گی۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments