اب بچے شرارتیں کیوں نہیں کرتے؟


میں جب چھوٹا تھا تو دادا کے ساتھ نماز تراویح میں شرکت کے لیے مسجد جاتا تھا۔ روزانہ وہاں جا کر پچھلی صف کے ایک کونے میں سو جاتا تھا۔ محلے کی مسجد میں نماز کے لیے آئے لڑکے اٹھا کر گھر لاتے اور اماں کے حوالے کر جاتے تھے۔ یہی روٹین تھی۔ جب تک جاگتا رہتا ان لڑکوں کی شرارتوں سے محظوظ ہوتا۔

پچھلی صف تو انہی لڑکوں کے لیے خاص تھی جن کو محلے کے بزرگ شیطان کہہ کر بلاتے تھے۔ ”یہ انسان نہیں شیطان ہیں شیطان۔ مجال کہ انہیں پتا ہو آگے نماز ہو رہی۔ پچھلی صفوں میں اودھم مچا رکھا ہوتا ہے۔“ میں ان بزرگوں کی جھاڑ سن کر سہم جاتا تھا۔ تب پچھلی صف میں بیٹھے لڑکوں کے چہروں پر شرافت رقص کر رہی ہوتی تھی۔ مگر پھر کیا امام کا اللہ اکبر کہنا اور حس مذاق کا پھڑک اٹھنا۔ ایک لڑکا دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کرتا اور پھر یہ لوگ اپنے کام میں لگ جاتے تھے۔

ان کی نظریں اگلی صفوں میں شکار تلاشتے کسی ہم عمر پر ٹھہر جاتیں جس کو اس کے ابا تربیت کے ارادے اور ان لفنگوں سے بچاؤ کے بہانے اپنے پاس کھڑا کر دیتے تھے۔ اس کے پائنچے تہہ کرتے کرتے اس کے گھٹنوں تک پہنچا دیتے۔ خود نو دو گیارہ۔ نماز کے بعد پھر شور اٹھتا ، پچھلی صف آدھی غائب ہوتی اور جو باقی بچتے ان کے چہروں پر وہی شرافت اور لاعلمی کا رقص ہوتا۔ ”پتا نہیں۔ ہم تو نماز پڑھ رہے تھے ؛ نہیں دیکھا کس نے کیا۔“

پھر امام نیت باندھتے اور پیچھے شیطانی جال بکھر جاتا۔تمام لوگ سجدے میں جاتے تو کوئی پانی کا بھرا لوٹا کسی کی ٹانگوں کے وسط میں رکھ کر غائب ہو جاتا۔ کوئی بزرگ زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے یا شرارتوں سے چڑتے ان کی چپل، عصا کا غائب ہونا فطری امر تھا۔ اگر کسی بزرگ نے ساتھ کھڑے کسی نمازی کا ساتھ دیا تو اگلی رکعت میں دونوں کی قمیص کو گرہ لگ چکی ہوتی تھی۔ اور یہ تمام شرارتیں وہ لڑکے اس مہارت سے کرتے تھے کہ کانوں کان خبر ہی نہ ہوتی تھی۔

آپس میں سب کا اتفاق دیکھنے لائق ہوتا تھا۔ شرارت سب کر کے ایک پھنستا تھا نہ ایک کر کے سب پھنستے تھے۔ تراویح پڑھانے والے کے لیے آیا قہوہ غائب کر دیتے ، اس کی جگہ پانی کیتلی میں بھر کر رکھ دیتے تھے۔ اگر ان کے خلاف گرینڈ آپریشن ہوتا کہ بڑوں میں سے ایک آدھ نگرانی کرے یہ شرارت کون کرتا ہے تو سب کی جوتیاں بدل دی جاتی تھیں۔ عین وتر کے اوقات میں بجلی بجھ جاتی اور جب نمازی گھروں کو پہنچتے تو داہنی چپل اپنی تو بائیں کسی اور کی، بائیں پاؤں پر داہنی چپل اور دائیں پر بائیں۔

پھر نماز فجر میں بزرگ اپنی چپلیں تلاشتے اور ڈھونڈ کر واپس درستی کرتے۔ عشاء میں وہی بزرگ اگلی صفوں میں اور پچھلی بھری ہوئی صفیں پھر انہی لڑکوں کی مگر رات گئی بات گئی کے مصداق کل والی بات کو کم ہی کوئی چھیڑتا تھا۔ بعض اوقات پچھلی صف میں کھڑا کوئی لڑکا اگلی صف والے کے کان پر ایسی بجاتا کہ وہ ہل کر رہ جاتا۔ یا کان کی لو پر چٹکی کاٹ کر غائب۔

ٹولیوں پر مشتمل یہ لڑکے بھوک کا انتظام بھی کر لیتے تھے۔ امام مسجد کے کمرے میں گھستے اور افطاری کا بچا ہوا یا قاری صاحب کے لیے آیا کسی گھر سے وظیفہ اٹھا کر پچھلی صف کے تمام لڑکوں میں خوردہ کہہ کر تقسیم کر دیا جاتا۔ کسی کے حصے میں پکوڑے آتے تو کوئی سیب کی ایک قاش پر گزارا کرتا۔ ایک ڈکار لیتا تو کھسیانی ہنسی ہنستا، ایک کھانس لیتا تو پوری صف پر کھانسی کس دورہ پڑ جاتا۔

رمضان بھر یہ کھیل چلتا رہتا مگر بات بڑوں کے جھگڑے تک گئی نہ ہی تو تکار ہوئی۔ بس شرارت کو شرارت کے طور لیا جاتا اور ہنسی خوشی اس تہوار کو منا لیا جاتا تھا۔ میں نے سونا چھوڑا نہ بڑے لڑکوں نے شرارتیں چھوڑیں اور نہ ہی بزرگوں نے تراویح۔ ختم قرآن کے دن گرینڈ افطاری میں پورا محلہ شریک ہوتا اور رات نعرے بازی میں شیرینی کی تقسیم میں کرپشن کے بعد سب ہنسی خوشی گھروں کا رخ کرتے تھے۔

اب بھی وہی مسجدیں، وہی تہوار، وہی تراویح ہیں مگر وہ شرارتی لڑکے ”بڑے“ بن گئے۔ بزرگ اگلا جہاں سدھار گئے اور اس عہد کے بچے قبل از وقت بڑے ہو گئے۔ بچپن میں ہی پچپن کے لگنے لگے ہیں۔ اب نماز تراویح میں پچھلی صفوں میں سکوت ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی ہے ہی نہیں۔

اب بچے سوتے ہیں نہ شور مچاتے ہیں۔ زندگی کا احساس ہے نہ مزے۔ بچوں کے چہروں پر معصومیت تو ہے مگر لاعلمی، بے کیفی، سادگی نہیں، کرختگی ہے جیسے سمجھ دار ہوں۔ان کا بچپن کوئی کھا گیا ہے۔ ڈرے سہمے ہوئے بچے آتے ہیں۔ اوپر نیچے ہو کر واپس چل دیتے ہیں۔

شاید زیادہ پڑھ لکھ گئے یا شاید بزرگوں کی برکتیں ختم۔ شاید اب مائیں بچوں کو سمجھا بجھا کر بھیجتی ہیں کہ شرارتیں مت کرنا۔ شاید ابھی کے بزرگ تقوی کے اوپر والے درجے پر ہیں اور بچوں پر ان کے تقویٰ کا گہرا اثر ہے یا شاید اگلی صف میں کھڑے متقین کے پاس رکھی لٹھ پر بچوں کی نظر پڑ گئی ہے اور وہ سہم گئے ہیں۔ بچے تو شرارتی ہی اچھے لگتے ہیں۔ ان کی شرارتوں سے محظوظ ہونا چاہیے۔ وہ معصوم فرشتے ہیں۔ اور جب فرشتے آپس میں شرارتیں کریں تو وہ دور آسمانوں پر بیٹھی رحیم ذات بھی مسکراتی ہو گی۔

میں بھی مسکرانا چاہتا ہوں۔ میں اب بھی تراویح ادا کرنے جاؤں تو میرے کانوں کو شرارت کی بھلی آوازوں کا انتظار رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پچھلی صفوں میں بچوں کے کِھچ کِچ کِھچ ہنسنے کی آوازیں ہوں۔ کوئی کسی کے پائنچے چڑھا کر غائب ہو جائے۔ کوئی صف کے ایک کونے سے دھکا دے تو دوسرے کونے تک سب گر جائیں۔

میں چاہتا ہوں ہماری جوتیاں کوئی بدل دے۔ ہر دوسری رکعت کے سلام کے بعد ”مت کرو، کون شور مچا رہا تھا“ کی آوازیں ہوں ، مگر نہیں۔ ایسی معصوم شرارتیں کرنے والوں کے بچپن ہم ہی کھا گئے۔ اب ایسی آوازیں نہیں سنائی دیتیں۔ کان ترس گئے مگر اب محبتوں کے دور چل دیے اور کان بھلی آوازوں سے محروم ہو گئے۔ سب اپنی تراویح ادا کر کے چل دیتے ہیں اور میرے دل پر بوجھ بڑھتا ہی ہے کہ اب لڑکے شرارتیں کیوں نہیں کرتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments