وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک: قومے فروختند


پی ٹی ائی سڑکوں پر احتجاج کناں تھی تو جناب اسد عمر اس کے معاشی آدم آسمتھ بتائے جاتے تھے۔ پاکستان کا ایک لائق سپوت اور معاشی منتظم جس نے پچاس لاکھ روپے ماہانہ اجرت پر ایک کمپنی کے مالی امور سرانجام دیے۔ ان کی معاشی استعداد کار کے نتیجے میں مذکورہ کمپنی چند سال میں ترقی کے آسمان کو چھونے لگی تھی، پھر جناب اسد عمر 2018ء کے بعد ملک کے وزیر خزانہ بنے تو پچھلی حکومت کی مالی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے جو خزانہ خالی کر گئے تھے انہوں نے درپیش چیلنج سے نبردآزما ہونے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنے میں کم وبیش ایک سال گزار دیا، مگر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ مالی بحران کے حل یا ادائیگیوں کے توازن بہتر بنانے کے لئے آئی ایم ایف سے مدد لی جائے یا نہیں۔

فیصلہ سازی کے فقدان سے ملک کے تجارتی حلقوں میں گو مگو کی کیفیت پروان چڑھتی رہی تب اچانک فیصلہ ہوا کہ جناب اسد عمر اپنے فرائض احسن طور پر انجام دینے میں ناکام رہے ہیں وہ اس ذمہ داری کے اہل ثابت نہیں ہوئے لہذا ان سے خزانہ کا قلمدان واپس لے لیا گیا کوئی دوسری وزارت قبول کرنے سے اسد عمر نے بوجوہ معذرت کرلی، یہ انداز ناکام قرار دیے جانے کے خلاف ان کا ٹوکن احتجاج تھا (وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔) چنانچہ چند ماہ حجلہ اقتدار سے دور رہنے کے بعد کابینہ میں واپس لوٹ آئے اور وزیر منصوبہ بندی بن گئے۔ چونکہ جناب حفیظ شیخ اس اثنا میں مشیر خزانہ کا مبصب سنبھال چکے تھے اور انہیں وفاقی وزیر کا رتبہ حاصل تھا، واضح رہے اس دوران محکمہ خزانہ کی وزارت جناب عمران خان نیازی کے پاس رہی جو بقول خود آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات کے فارغ التحصیل ہیں۔ اسد عمر صاحب کے وزیر خزانہ بننے کی تمام امیدیں دم توڑ چکی تھیں۔

جناب حفیظ شیخ جو خود عالمی مالیاتی اداروں کے ملازم ہیں نے وزارت خزانہ سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ پیکیج کے زیر التوا عمل کو تیز تر کر کے اسے منظور کرا لیا جو شرائط قبول کی گئیں وہ رفتہ رفتہ سامبے آتی رہیں دراصل پیکج کی فوری منظوری کا کریڈٹ جناب حفظ شیخ کو جاتا ہے کہ پیکج کے معاملات طے کرتے لمحوں مذاکرات کی دونوں جانب آئی ایم ایف ہی براجمان تھی۔ خیر پاکستان کو چھ ارب ڈالر قرضہ کا قسط وار پیکیج مل گیا۔ جناب شیخ کے ساتھ ہی محٹرم رضا باقر صاحب کو سٹیٹ بینک پاکستان کا گورنر بنایا گیا موصوف گزشتہ ایک دہائی سے آئی ایم ایف و عالمی بینک کے کارندے کی حیثیت میں مصر میں معاشی امور کی انجام دے رہے تھے۔ ان کی معاشی مہارت کا ثبوت مصر کی متزلزل اور قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبی معیشت ہے لیکن وہ ایک الگ موضوع بحث ہے۔

سپریم کورٹ نے جناب شیخ حفیظ کو بطور مشیر مختلف آئینی اداروں کے اجلاسوں کی صدارت ( سربراہی) سے روک دیا تو جناب عمران خان نے انہیں مکمل وزیر بنا دیا، آئینی طور پر اس عہدے پر وہ پارلیمان کا رکن بنے بغیر چھ ماہ تک کام کر سکتے تھے سینیٹ کے انتخابات قریب تھے تو حکومت نے چھ ماہ کی مقررہ مدت میں انہیں سینیٹر بنانے کی پالیسی اپنا لی، مگر شومئی قسمت کہ وہ سینٹر بننے کی بجائے پی ڈی ایم کے نامزد امیدوار کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔

اس صورتحال میں جناب حفیظ شیخ نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی جسے عمران خان صاحب نے رد کر دیا اور انہیں اپنے فرائض کی انجام دہی جاری رکھنے کا کہا جس کا سلیس مطلب ان کی کارکردگی کی توصیف و توثیق کرنا تھا۔ مگر ہفتہ عشرہ گزرا کہ انہی شیخ صاحب کی معاشی پالیسیوں کو مہنگائی اور اقتصادی گراوٹ کا ذمہ دار قرار دے کر انہیں وزارت سے محروم کر دیا گیا۔ یاد رہے اس عرصہ میں آئی ایم ایف نے قرضوں کے اجرا اور سود سمیت واپسی کو یقینی بنانے کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی داخلی خود مختاری کا ایک نیا شرائط نامہ تسلیم کرا لیا تھا، جو بظاہر سٹیٹ تو بینک کو حکومتی کنٹرول سے نکال کر اسے ایک بااختیار ادارہ بنانا بتایا جاتا ہے لیکن اس کے درپردہ مقاصد جو اب راز بھی نہیں رہے دراصل سٹیٹ بینک کو مملکت پاکستان کے دائرہ اختیار سے نکال کر براہ راست عالمی مالیاتی شکنجے کی گرفت میں دینا ہے اسی تناظر میں میرا استدلال یہ رہا ہے کہ اول تو حفیظ شیخ ا صاحب بطور انچارج امور خزانہ اپنا یہ ایجنڈا مکمل کر چکے تھے لہذا اب وہ آئی ایم ایف کے لئے اسلام آباد میں غیر ضروری ہو چکے تھے شاید پاکستان کی مقتدرہ کا بھی فیصلہ یہی تھا اب انہیں واپس اپنے اصلی ادارے اور ملک بجھوا دیا جائے چنانچہ انہیں پنجاب یا کے پی کے کے محفوظ نیابتی حلقے سے سینیٹر بنانے سے گریز کیا گیا۔

ثانوی طور پر ہائی برڈ سیاسی بست و کشاد کے نگران حلقے نے بھی انہیں سینیٹر منتخب کرانے کی تگ و دو نہیں کی۔ اس کا ایک مقصد پی ڈی ایم کی بڑھتی تندو تلخ تنقید کی دھار کو کند کرنا اور شاید تحریک میں شکست و ریخت کا کھلا کھلا آغاز کرنا بھی تھا۔ جناب گیلانی کی کامیابی (برائے سینیٹر) پر ہر طرف سے جناب زرداری کی سیاسی دانشمندی اور پارلیمان (ہائی بررڈ نظام میں) رہتے ہوئے جدوجہد کرنے کی پالیسی کو سراہا گیا ان کی توصیف ہوئی لیکن جناب گیلانی پھر بھی چیئرمین سینیٹ نہ بن پائے۔

کیا یہ شکست جناب زرداری کی حکمت عملی کی ناکامی نہیں تھی؟ اس پر ثنا خوان حلقے تاحال چپ ہے۔ مستزاد یہ باپ سے مستعار لیے (جناب چیئرمین سینٹ جناب سنجرانی کے عطیہ کردہ) چار ووٹوں کے ساتھ سینٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہو گئے یوں پی ڈی ایم منتقسم ہو گئی۔ یہ بھی جناب زرداری کی بصیرت مند حکمت عملی کا حاصل تھا۔ یہ کہانی دہرانے کا مقصد جناب حفیظ شیخ کی رخصتی کے پس منظر کو واضح کرنا تھا۔ جن کی علیحدگی کے بعد جناب حماد اظہر کو خزانہ کا قلمدان سونپاگیا تو ساتھ ہی خبر لیک ہو گئی کہ حکومت نے جناب شوکت ترین سے وزیر خزانہ بننے کے لئے رابطہ کر لیا ہے۔

ترین صاحب نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے خلاف قائم زیر سماعت مقدمات سے سرخروئی تک وزیر بننے سے معذرت چاہی لیکن عمران حکومت کی معاشی حکمت پر اسی وقت کڑی تقنید کرتے ہوئے اسے بے سمیت بے بصیرت اور معیشت کے لئے تباہی کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ پھر واقعات کے پس پردہ کیا کیا کچھ رونما ہوا ہے۔ ابھی اس بارے لب کشائی مناسب نہیں۔ 17 اپریل کو جناب شوکت ترین نے جو رکن پارلیمان نہیں، وفاقی وزیر خزانہ کا حلف لے لیا ہے یہ معلوم نہیں کہ ان دس دنوں میں وہ ان مقدمات میں سرخرو ہو گئے ہیں یا مقدمات ان کی چوکھٹ پر سر بسجود ہوئے ہیں۔ وہ کب تک اس عہدے پر برقرار رہیں گے؟ کیونکہ مستقل وزیر خزانہ رہنے کے لئے انہیں پارلیمان کا رکن بنایا جانا ضروری ہوگا۔ ورنہ چھ ماہ بعد یا تو وہ گھر جائیں گے یا وزیر سے مشیر کے عہدے کی جانب پلٹیں گے۔ ان کی حلف برداری کے روز جناب اسد عمر نے ٹی وی ٹاک شو میں ان کی جانب سے حکومت کی معاشی پالیسیوں (متذکرہ بالا) پر تنقید کو ناقص قرار دے کر یکسر رد کیا بلکہ کہا تھا کہ کابینہ کے اجلاس میں وہ ان سے اس بابت مباحثہ بھی کریں گے؟

کیا اسد عمر صاحب اور شوکت ترین کابینہ میں ایک دوسرے کے حریف ثابت ہوں گے؟ اسد عمر کی گفتگو اس امکان کو اجاگر کر رہی تھی مگر پھر اقتدار کی ایسی ہوا چلی کہ جناب شوکت ترین حلف برداری کے اگلے ہی روز وزیراعظم سے ملاقات میں جہاں دیگر ماہرین بھی موجود تھے اپنی تنقید سے رجوع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کی تنقید کا ہدف دراصل سابقہ ادوار حکومت تھے چنانچہ اب کابینہ میں اسد عمر و شوکت ترین مخاصمت کے امکانات کم ہو گئے ہیں۔ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اسد عمر صاحب شوکت ترین صاحب کو جہانگیر ترین کا بھائی سمجھتے رہے ہوں۔

حکومت نے وزارت اطلاعات کے لئے بھی تین بار اپنے وزیر تبدیل کیے ہیں۔ جناب فواد چوہدری سے محترمہ فردوس عاشق اعوان نے چارج لیا تھا جنہیں جناب سید شبلی احمد کے ذریعے رخصت کیا گیا اور اب جناب شبلی کو ہٹا کر جناب فواد چوہدری کو دوبارہ وزارت اطلاعات و نشریات کا وزیر بنا دیا گیا ہے۔ کابینہ میں رودوبدل وزیراعظم یا وزراے اعلیٰ کا استحقاق ہے تاہم تبدیلی بنا جواز ہو تو سوال کا روپ دھار لیتی ہے اگر کارکردگی میں نقائص تبدیلی کا موجب بنے ہوں تو پھر کابینہ کے ارکان کے قلمدان ہی نہیں بدلے جاتے بلکہ پارٹی سے نئے اور اہل افراد کو کابینہ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جرابوں سے بدبو آنے لگے تو جرابیں تبدیل کی جاتی ہیں دائیں پاؤں والی کو بائیں پاؤں میں پہن لنے سے نہ تبدیلی آتی ہے نہ بد بو جاتی ہے۔

مذکورہ بالا واقعات سے یہ منطقی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی، جو اقتدار میں آنے سے قبل مختلف شعبوں کے دو سو ماہرین پر مشتمل ٹیم اور اپنا ہوم ورک مکمل کرنے کی دعویدار تھی، برسراقتدار آ کر خالی الذہن ثابت ہوئی ہے اس کے پاس ملک کے معاشی مسائل کے حل کا کوئی نظریہ، تصور یا پروگرام ہے نہ ہی کوئی ایک ماہر معاشی رکن اسمبلی ہے نہ ہی پارٹی رکن۔

اسی طرح وزارت اطلاعات کے لئے بھی کوئی معقول فرد نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وزیر اطلاعات کی موجودگی میں بے حساب معاونین خصوصی اور میڈیا مینجرز کی ٹیم بنانی پڑی ہے مگر نتائج صفر جمع صفر۔ برابر صفر۔

اسٹیٹ بینک کو حکومت کے دائرہ اثر یا سیاسی مداخلت سے آزاد کرنے کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سنجیدہ سوالات کا ایسا مجموعہ ہے جن کا تسلی بخش جواب تاحال سامنے نہیں آیا۔ گورنر سٹیٹ بینک کے عہدے کی مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی جس کا اطلاق موجودہ گورنر پر بھی ہوگا اب رضا باقر صاحب مزید پانچ برس تک بینک دولت پاکستان کے گورنر بلکہ ”گورنر جنرل“ یا ”وائسرائے بینک دولت پاکستان“ رہیں گے۔ وفاقی سیکریٹری خزانہ کو بھی بینک کی گورننگ باڈی سے نکال دیا گیا ہے اب بینک دولت پاکستان کے وائسرائے سال میں ایک بار حکومت کو اپنی کارکردگی رپورٹ پیش کیا کریں گے قبل ازیں ہر تین ماہ بعد رپورٹ دینا لازم تھا اب وہ اپنی رپورٹ پر کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہوں گے ۔ ڈپٹی گورنر اور دیگر عہدوں پر تقرری کا اختیار بھی انہیں حاصل ہوگا۔

قبل ازیں صدر مملکت فرائض منصبی میں کوتاہی پر گورنر سٹیٹ بینک کو معزول کرنے کا اختیار رکھتے تھے جو ختم ہو گیا ہے۔ ترمیم کے بعد کسی انتہائی سنگین غلطی پر صدر مملکت انہیں معزول تو کر سکتے ہیں مگر معزولی کا حتمی فیصلہ عدالت کے فیصلے پر منحصر ہوگا۔ انتہائی سنگین غلطی کی توضیح تاحال سامنے نہیں آئی۔ گورنر سٹیٹ بینک کے مقرر کردہ ڈپٹی گورنرز کو گورنر معزول کر سکے گا بشرطیکہ اس کی توثیق بورڈ آف گورنر بھی کرے۔ اس بابت بھی حتمی فیصلہ عدلیہ کا ہوگا اب تک بینک کے ڈپٹی گورنر کی تعداد طے شدہ نہیں تھی مجوزہ ترمیم میں تین ڈپٹی گورنر مقرر کیے جاسکیں گے ان کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی جس میں مزید پانچ سال کی توسیع ممکن ہو گی۔ بورڈ میں نان ایگزیکٹو ارکان کا تقرر حکومت نہیں کرے گی۔

حکومت پاکستان دیہی قرضہ جات، صنعتی قرضے، برآمدی قرضے اور مکانات کی تعمیر کے لئے قرضہ جات کے تسلسل کی لئے نگرانی کا منظور شدہ اہتمام کرتی ہے۔ ترمیم کے ذریعے حکومت نگرانی کے اختیار سے محروم ہو جائے گی تاہم سٹیٹ بینک چند صنعتوں کو ری فنانسنگ کا سلسلہ بحال رکھے گا۔

سٹیٹ بینک کے قوانین میں تبدیلی کا ایک اہم پہلو سٹیٹ بینک سے محدود قرضے لینے کا حکومتی استحقاق ختم ہو جائے گا۔ تو حکومت بوقت ضرورت کمرشل بینکوں سے قرضے لے گی جس کا منفی اثر بینکوں کے تجارتی قرضوں کے حجم پر پڑے گا۔ تاہم اگر بینک دولت پاکستان اپنی خود مختارانہ پالیسیوں کے ہاتھوں سرمائے اور زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا شکار ہو جائے تو اس صورت میں حکومت سٹیٹ بینک کو مطلوبہ رقوم مہیا کرنے کی پابند ہوگی۔ حکومت ایسی صورت میں رقومات کا بندوبست کیسے اور کہاں سے کرے گی؟ یہ اقلیدس کا مشکل سوال ہے۔

حکومت پاکستان بین الملکتی یا عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ براہ راست معاملات طے کرنے کی مجاز رہے گی یا یہ فرائض خود مختار سٹیٹ بینک ادا کر ے گا؟ سٹیٹ بینک کے طے کردہ مالی معاملات قرضہ جات کی گارنٹی کو ن دے گا؟ حکومت پاکستان یا خود سٹیٹ بینک؟ بینک قرضوں کے لئے گارنٹی کے طور پر مارٹ گیج کرنے کے لئے کون سی املاک و جائیداد پر حق ملکیت کا حامل ہوگا؟ اور اگرحکومت پاکستان کسی دوست ملک کے ساتھ باہمی تعاون پر مبنی منصوبہ شروع جریے تو کیا سٹیٹ بینک منصوبے کے لئے مالی وسائل مہیا کر نے کا پابند ہو گا یا آزاد؟ ترمیم کے نتیجے میں پاکستان کا زرمبادلہ کس کی دسترس میں ہو گا؟ دریں صورت دوست یا شریک معاہدہ ملک شراکتی تعاون کے لئے کس پر انحصار کر ے گا۔ بینک پر یا ریاست پاکستان کی حکومت پر؟

ترامیم کے لئے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے جس کی توثیق تو بہر طور پارلیمان نے کرنی ہے۔ کیا موجودہ پارلیمان کے ارکان اس بل کی توثیق کے منفی اثرات کا سیاسی بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں؟ جبکہ مذکورہ بل کی عدم توثیق آئی ایم ایف پیکیج کی معطلی کا سبب بن سکتی ہے تو پھر بجٹ کیسے بنے گا؟ قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ مذکورہ صورتحال میں جناب جہانگیر ترین اپنے ہم خیال پی ٹی آئی اراکین کی بڑی تعداد کے ساتھ اپنا حتمی رد عمل جلد سامنے لاسکتے ہیں جو سیاسی کشیدگی کی صف بندیاں بدل سکتا ہے۔ ترین صاحب کا سبک خرام احتجاج ہلکی آنچ سے آگے بڑھے گا۔ نئے اتحادیوں کی ہمراہی میں نئی تبدیلی کا سکتا ہے لیکن اسے سیاسی تبدیلی کہنا درست نہیں ہوگا کہ نئی صف بندی ہائی برڈ نظام کا حصہ ہوگی جو سیاست میں غیر سیاسی غیر آئینی مداخلت کا سدباب کرنے سے مکمل قاصر ہوگی۔ کیا ایسی صورتحال میں پی ڈی ایم کی تحریک اور اس کے اغراض قصہ پارینہ بن پائیں گے؟ میرا جواب نفی میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments