حکومت اور کالعدم تحریک لبیک میں ’مذاکرات‘: صورتحال بیان کرنے کے لیے سوشل میڈیا صارفین کو اشعار کا سہارا لینا پڑا


پولیس

اگر آپ ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف ہیں تو یقیناً لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر گذشتہ ایک ہفتے سے جاری کشیدہ صورتحال پر تبصرے پڑھتے رہے ہوں گے۔

گذشتہ ہفتے سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اپنے رہنما سعد رضوی کی گرفتاری کے بعد احتجاجی مظاہرے کرتی رہی اور پولیس کو حکومت کے حکم پر ان کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔ اس دوران درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے علاوہ چند ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

مگر آخر کار حکومت اور ٹی ایل پی میں ’کامیاب‘ مذاکرات کا اعلان کیا گیا۔

تاہم سڑکوں پر بگڑتی سنبھلتی صورتحال کا احاطہ کرتے وقت اکثر افراد کھلے عام اس متنازع موضوع کے بارے میں تبصرے نہیں کر پاتے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں اپنے الفاظ کم پڑ رہے ہوں وہاں اشعار کا سہارا لیا جا رہا ہے اور مبہم انداز میں اپنی دل کی بات کہی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شیخ رشید: فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی قرارداد پیش ہوگی، تحریک لبیک دھرنے ختم کرے گی

’بھائی چوک یتیم خانہ، داروغہ والا اور سمن آباد جاؤ تو حالات کا پتا چلے گا‘

تحریک لبیک کی وائرل ویڈیو اور فوجی اہلکار: مشتعل ہجوم کے سامنے کیسا رویہ رکھنا چاہیے؟

یہ موضوع بھی کچھ ایسا ہے کہ جس پر لوگوں کے جذبات میں حرارت پیدا ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ذو معنی جملوں یا اشعار سے کم از کم تبصرے متنازع نہیں لگتے یا یوں سمجھ لیجیے کہ یہ کسی اور کے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی بندوق کے جیسا ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی گذشتہ روز کی جانے والی ٹویٹ کو ہی لے لیجیے۔ انھوں نے اختر عثمان کا شعر ٹویٹ کرتے ہوئے شاید پاکستان میں اس حوالے سے ماضی کی پالیسیوں پرتنقید کی اور لکھا:

کہاں گئے مرے اجداد آئیں اور کاٹیں

سر آ گئی ہے اندھیروں کی فصل بوئی ہوئی

ان کی ٹویٹ کے نیچے اکثر افراد نے ان کی بات کا جواب بھی اشعار سے دیا اور کچھ نے تو حکومت کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے منصوبے پر اشعار کے ذریعے تنقید بھی کی۔

تاہم یہ بحث خاصے مہذب انداز میں، بغیر کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے چلتی رہی جو عام طور پر سوشل میڈیا پر استعمال ہونے والی زبان کی نسبت ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔

گلوکار علی آفتاب سعید جو اس سے قبل ٹی ایل پی سے متعلق ایک طنزیہ گانا بھی گا چکے ہیں نے اپنی بات کہنے کے لیے منیر نیازی کے اس شعر کا سہارا لیا:

تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط

اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

اسی طرح گذشتہ روز ٹوئٹر ‘سپیسز’ پر ہونے والی ایک بحث ایک صارف نے موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے راحت اندوری کی ایک نظم پڑھ ڈالی جس ایک شعر کچھ یوں ہے:

گنگا مَیّا ڈوبنے والے اپنے تھے

ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے، سچ بولو

بات یہاں نہیں رکی، جن افراد کو شاید شعر و شاعری زیادہ پسند نہیں وہ معروف شخصیات کے اقوال کے ذریعے اپنی بات کہہ گئے۔

معاشی امور کے ماہر فرخ سلیم نے گذشتہ روز عمران خان کی جانب سے کی گئی تقریر کا حوالے دیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنا پاکستان کے مفاد میں نہیں’۔

اور پھر اگلے ہی روز شیخ رشید کا اس متضاد اعلان سے اس کا موازنہ کیا جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ‘فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے لیے آج قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جائے گی’۔ انھوں نے معروف سائنسدان ایلبرٹ آئین سٹائین کے قول سے متضاد حکومتی بیانات کا احاطہ کیا۔

https://twitter.com/SaleemFarrukh/status/1384376400438824960

تاہم کچھ لوگ عمران خان کی تقریر کے مندرجات پر بات کرتے کرتے خوف سے رُک گئے۔

لمز یونیورسٹی کی پروفیسر ندا کرمانی نے گذشتہ روز عمران خان کی جانب سے اس تجویز پر تبصرہ کیا جس میں انھوں نے دنیا بھر میں توہین رسالت کے قوانین متعارف کروانے کے بارے میں بات کی تھی۔

انھوں نے لکھا کہ میں اس بارے میں ایک انتہائی اہم بات کرنا چاہتی ہوں لیکن کیونکہ یہ توہین رسالت جیسے متنازع موضوع سے متعلق ہے اس مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے مجھے مار نہ دیا جائے۔

ان کی اس بات کی تائید کرتے ہوئے مینا نامی صارف نے لکھا کہ ’میں خاصی مضطرب ہوں کہ کوئی اس حوالے سے بات کیوں نہیں کر رہا۔‘

انھوں نے امید ظاہر کی کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی جنھیں ایک معقول بحث کا آغاز کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، وہ اسے جلد شروع کریں گے۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کی توثیق وفاقی کابینہ نے بھی کر دی تھی۔

تاہم گذشتہ روز سے حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد آج شیخ رشید نے اس فیصلے کو واپس لے لیا ہے۔

اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سماجی کارکن جبران ناصر نے لکھا کہ ‘اس طرح کے متضاد فیصلے کرنے سے ریاست انسداد دہشتگردی کے قوانین کا مذاق اُڑا رہی ہے اور کسی بھی جماعت کو کالعدم قرار دینے کو بے معنی کر رہی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اس کا مطلب یہ ہے کہ جماعتوں کو کالعدم قرار دینے کا تعلق ان کی مجرمانہ روش سے نہیں بلکہ ان کے سیاسی اثر و رسوخ پر ہے۔’

تاہم اس حوالے سے اتوار کے روز لاہور میں ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے اکثر صارفین کسی بھی قسم کی کشیدگی اور جانی نقصان کی مذمت کرتے دکھائی دیے۔

عروج نام ایک صارف نے لکھا کہ ‘اگر آپ تحریک لبیک پاکستان کے خلاف قوت کے استعمال کی بات کرتے ہیں تو آپ بھی مسئلے کا حصہ ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘یہ سچ ہے کہ ٹی ایل پی ایک انتہا پسند نظریات کی حامل جماعت ہے لیکن اسے 2018 میں 22 لاکھ ووٹ بھی پڑے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ آپ مزید کتنے افراد ہلاک کر سکتے ہیں؟’

اس تمام بحث میں صارفین گذشتہ صبح عمران خان کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران تقریر اور پھر قوم سے خطاب میں تضادات کی جانب اشارہ بھی کرتے دکھائی دیے۔

اکثر افراد نے عمران خان کی جانب سے 1988 میں چھپنے والی ایک متنازع کتاب کی پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب مذمت نہ کرنے کی بات کی بھی تصحیح کی۔

ایک صارف نے لکھا کہ اس وقت تو نواز شریف کی حکومت تھی ہی نہیں یہ تو بینظیر بھٹو کی حکومت کا واقعہ ہے۔

اسی طرح ایک صارف نے لکھا ‘عمران خان صاحب تو اس وقت مغرب میں ہی مقیم تھے، انھوں نے اس بارے میں کچھ کیوں نہیں کہا تھا۔’

بشریٰ گوہر نےعمران خان کے بیانات اور پھر حکومت کی جانب سے اس سے برعکس اقدامات کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے۔’

https://twitter.com/norbalm/status/1384379145271009281

عقیل شاہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ملٹری ایم کیو ایم جیسی طاقت ور جماعت کو توڑ سکتی ہے، تو ٹی ایل پی ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ یہاں مسئلہ نیت کا ہے صلاحیت کا نہیں۔’

فی الحال تو سب کی نظریں آج قومی اسمبلی کے سیشن پر ہیں لیکن سوشل میڈیا ہر اشعار کے استعمال کے ذریعے بحث کرنے کا طریقہ ایسے موقعوں کے لیے خاصا معقول لگتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp