آئی اے رحمان: ایک چراغ اور بجھا



اٹھتے جاتے ہیں اس بزم سے ارباب نظر
گھٹتے جاتے ہیں میرے دل کے بڑھانے والے

آئی اے رحمان  (ابن عبدالرحمن) کیا کمال کے فرد تھے۔ ایک فرد جو اپنی ذات میں ایک بڑ ے ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ روشنی کا ایک ایسا مینار تھے جو لوگوں کو فلاح اور رواداری سمیت جمہوری معاشرے کا درس دینے میں پیش پیش ہوتے تھے۔ معروف دانشور، مصنف، صحافی، تجزیہ نگار، ایڈیٹر اور انسانی حقوق کی جدوجہد سے جڑا ایک بڑا معتبر نام آئی اے رحمان 90 برس کی عمر میں اللہ تعالی کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔ یہ دنیا عارضی ہے اور مجھ سمیت جو بھی دنیا میں آیا ہے ، اسے ایک دن اللہ تعالی کی عدالت میں جانا ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ آئی اے رحمان جو عملی زندگی میں جدوجہد کا استعارہ تھے ، وہ نیک نامی کے ساتھ ایک بڑی بھرپور زندگی گزار کر رب کے حضور پیش ہوئے ہیں۔

آئی اے رحمان بنیادی طور پر صحافی تھے۔ مگر ان کا راستہ روایتی صحافی یا حکمرانوں سے تعلقات جوڑنا اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنے والوں کا نہیں تھا۔ وہ ایک نظریاتی صحافی تھے اور ایسے لوگ عمومی طور پر آسان کی بجائے مشکل راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سفر میں مصائب بھی ہیں اور بے روزگاری سمیت مالی بدحالی بھی۔ لیکن کیونکہ کچھ لوگ عملاً اپنے خیالات و افکار یا سوچ یا فکر میں روایتی افراد سے مختلف ہوتے ہیں۔

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہی لوگ معاشرے کا حقیقی حسن اور سرمایہ ہوتے ہیں اور انہی افرادکی بنیاد پر معاشروں کی سیاسی، علمی و فکری ساکھ قائم ہوتی ہے۔ آئی اے رحمان نے ایک اخباری کارکن سے عملی طور پر ایڈیٹر کا سفر بڑی شان و شوکت سے کیا جس میں دیانت، محنت، جدوجہد، مستقل مزاجی، بردباری، استقامت، جرأت، انکساری ہر سطح پر غالب نظر آتی تھی۔

آئی اے رحمان کے لیے صحافت محض روزگار نہیں تھا بلکہ صحافت اور قلم کو وسیلہ بنا کر انہوں نے معاشرے میں محروم اور کمزور طبقات سمیت جمہوریت، قانون کی حکمرانی، بنیادی انسانی حقوق، ادارہ جاتی استحکام، پارلیمانی اور سیاسی نظام کی مضبوطی، مزدور سیاست، آزادی اظہار، میڈیا کے محاذ پر موجودہ ریاستی پابندیوں، لاپتا یا گمشدہ افراد، اقلیتوں اور خواجہ سراؤں کے مسائل، بچوں اور عورتوں کے حقوق کے لیے جد وجہد سمیت سول سوسائٹی کی مضبوطی کی جنگ بڑی جرأت سے لڑی۔

اس جنگ میں ان کی حیثیت ایک سپاہی سے قائد تک کی تھی۔ ملنساری اور عاجزی ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ اپنے حامیوں سمیت اپنے فکری مخالفین میں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ انہوں نے عملاً پاکستان میں فوجی یا سیاسی نظام کی سطح پر موجود آمریت کے خلاف ایک بڑی جنگ میں نہ صرف خود حصہ لیا بلکہ اپنے قلم کی مدد سے بہت سے لوگوں کو جدوجہد کے سفر میں روشنی اور امید کا راستہ بھی دکھایا۔

70 برسوں پر محیط آئی اے رحمان کا صحافتی سفر ایک نظریاتی صحافی کا تھا اور عمرکے آخری حصے میں بھی وہ تواتر سے انگریزی اخبارات میں اپنا سیاسی مقدمہ بڑے مدلل انداز میں پیش کرتے تھے۔ انگریزی کے معروف اخبار ”پاکستان ٹائمز“ کے ایڈیٹر ہونے کا اعزاز بھی ان کو حاصل تھا۔ وہ سیاست، ادب، جمہوریت، انسانی حقوق اور محروم طبقات پر خوب لکھتے اور مختلف پہلوؤں سے معاملات کا جذباتیت کی بجائے عقلی اور فکری بنیادوں پر پوسٹ مارٹم کرتے تھے۔

ان کا تجزیہ محض تنقیدی نقطۂ نظر تک محدود نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ مسئلے کا حل بھی پیش کرتے اور بلاوجہ ماتم کرنا بھی ان کی ذات کا شیوہ نہیں تھا۔ وہ ماضی اور حال کا تجزیہ کر کے مستقبل کی طرف پیش قدمی کرتے اور لوگوں میں یہ احساس اجاگر کرتے کہ ہمیں پر امن اور علمی و فکری بنیاد پر اپنی جنگ لڑنی ہے اور نتائج سے ہٹ کر جدوجہد کو اپنا راستہ بنانا ہے۔

وہ ان چند لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے 1971 میں سابق مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں ان کی قلمی جدوجہد کو یقینی طور پر تاریخی حروف میں لکھا جائے گا۔ اس تحریک میں وہ پابند سلاسل بھی ہوئے اور ملازمت سے برطرفی کا بھی سامنا کیا، لیکن اپنے اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ پاکستان کے واحد صحافی اور انسانی حقوق کے رہنما تھے جو مدبر وکیل کے طور پر اپنی شاخت رکھتے تھے اور بلاتفریق ہر محاذ پر انہوں نے پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے بڑھنے کو ترجیح دی۔ میں نے انہیں کبھی بھی مایوس نہیں دیکھا ، وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ جب فرد مکمل طور پر مایوس ہو جائے تو اسے اپنا کام ختم کر دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے آخری سانس تک اپنے فکری نظریات کی بنیاد پر جنگ لڑتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔

وہ پاکستان میں انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس کمیشن سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہے۔ اسی طرح ملکی اور علاقائی سیاست میں امن کی بحالی کے لیے پاک انڈیا فورم سمیت کئی فورمز کا حصہ رہے۔ ان کی خدمات پر ان کو نیورمبرگ سٹیز انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ جبکہ 2004 میں میگسے ایوارڈ فار پیس سے نوازا گیا۔ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے بڑے داعی تھے اور وہ دونوں ملکوں کے لوگوں کے باہمی رابطوں کے سفیر تھے۔

ان کے بقول دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی کنجی لوگوں کے باہمی رابطوں سے جڑی ہوئی ہے اور یہی رابطے اس خطہ کو امن، ترقی و خوشحالی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ آئی اے رحمان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنی بات کا اظہار کرتے ہوئے تنقید اور تضحیک کے بنیادی فرق کو سمجھتے تھے اور ایسے لفظوں سے گریز کرتے تھے جو کسی کی تضحیک یا دل آزاری کا سبب بنیں۔

وہ بنیادی طور پر مکالمہ کے آدمی تھے۔ شخصیات سے الجھنے کی بجائے وہ ایشوز کی بنیاد پر اپنا مقدمہ پیش کرتے اور مباحث کو ایک نئی جہت دیتے تھے۔ 1990 سے میرا آئی اے رحمان سے تعلق تھا اور آخری سانس تک رہا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا جو عملی زندگی میں بہت کام آیا۔

آئی اے رحمان کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی گفتگو میں سے ہمیشہ کوئی ایسا نیا نکتہ بیان کرتے جو بحث کا نکتہ آغاز بنتا اور اہم بات یہ کہ وہ مکالمے سے گھبرانے کی بجائے اسے اپنی طاقت سمجھتے تھے۔ ہر طبقۂ فکر کے لوگ ان کے اردگرد موجود ہوتے اور ان سے ملنا بہت آسان ہوتا تھا۔ وہ وقت دینے میں بخل کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ کئی فورمز پر ان کے ساتھ بات چیت کا موقع ملتا تو یہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ اپنی بات پیش کرتے اور جذباتیت کی بجائے علمی و فکری بنیاد پر مقدمہ پیش کرتے تھے۔

دلچسپ بات یہ کہ وہ کبھی بھی اپنی بات دوسروں پر مسلط نہیں کرتے تھے۔ وہ واقعی جمہوریت اور انسانی حقوق کی ایک توانا آواز تھے اور ان جیسے حقیقی دانشور کا جانا جمہوری جدوجہد کے لیے بھی اچھا شگون نہیں۔

آئی اے رحمان نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مقدمہ بڑی جرأت سے لڑا۔ تعلقات کو نبھانا، دوستی کرنا اور اسے لے کر چلنے کا فن بھی رحمان صاحب کو خوب تھا۔ وسیع المطالعہ آئی اے رحمان دنیا میں ہونے والی سیاسی، سماجی تبدیلیوں اور دنیا میں جاری تحریکوں کا خلاصہ خوب پیش کرتے تھے۔ بات کرنے کا سلیقہ بھی خوب آتا اور کڑوی سے کڑوی بات اس انداز سے کرتے کہ دوسرے اس پر نالاں نہ ہوتے۔

ان کے بڑے بیٹے اشعر رحمان خود صحافتی دنیا کا اہم نام ہے اور جس انداز سے انہوں نے اپنے والد کے صحافتی اثاثہ کو برقرار رکھا ہوا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ بہرحال آئی اے رحمان کا خلاء مشکل سے پورا ہو گا اور ان کے چاہنے والوں کے سامنے اب ان کا فکری اثاثہ ہے اور یہ ہی ہم سب کا سرمایہ بھی ہے۔

اب تو یاد رفتگان کی بھی ہمت نہیں رہی
پیاروں نے بہت دور بسائی ہیں بستیاں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments