وہ صورت گر کچھ خوابوں کے


کتاب شائع کر کے اسے قاری تک پہنچانے کی اہمیت کتاب لکھنے سے کسی طور کم نہیں۔ برصغیر میں فورٹ ولیم کالج نے جس روایت کا آغاز کیا اسے اوج کمال تک منشی نول کشور نے پہنچایا۔ ہندوستان کے ثقافتی ورثے خصوصاً اردو کتابوں کی نشر و اشاعت میں منشی نول کشور نے جو خدمات انجام دیں اس کے لیے محبان اردو آج تک ان کے لیے احترام سے سر جھکاتے ہیں۔ مرزا غالب کی منشی نول کشور سے خاصی دوستی تھی۔ نول کشور پریس کے بارے میں انھوں نے ایک خط میں لکھا۔ ”اس چھاپا خانے نے جس کا بھی دیوان چھاپا، اس کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔“

تقسیم ہند سے پہلے اور اس کے بعد بھی پاکستان میں کئی چھوٹے بڑے اشاعتی ادارے قائم ہوئے۔ یہ ادارے زیادہ تر بڑے شہروں خصوصاً کراچی اور لاہور میں تھے۔ بے پناہ وسائل اور بے کنار رسوخ والے اداروں کی موجودگی میں جہلم جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں پبلشنگ کا کام شروع کرنا بظاہر کار جنوں لگتا ہے اور نہ صرف کتاب چھاپنا بلکہ ایسے بڑے بڑے اداروں کے درمیان اپنی جگہ بنا کر اسے مستحکم کرلینا تو خواب و خیال و محال۔ مگر اس محال کو ممکن کرنے والے کا نام ہے شاہد حمید۔ ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند۔

1970 ء میں آنہ طرز کی ایک چھوٹی سی لائبریری سے سفر آغاز کرنے والے شاہد حمید کے دل میں بچپن ہی سے کتاب کی محبت نے گوشہ بنا لیا تھا۔ 1973 ء میں جیسے ہی انھیں ایک مناسب اور موزوں جگہ ملی انھوں نے ”بک کارنر“ کے نام سے اپنے خوابوں کے محل کی پہلی اینٹ رکھ دی تھی۔ چند ہی سال بعد 1980 ء میں کتابوں کی اشاعت کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ شاہد حمید اوروں کی طرح محض ناشر نہیں تھے بلکہ اردو زبان و ادب کے شناور، سخن شناس، حرف آشنا تھے۔ کتابوں کی اشاعت ان کے لیے قلبی آسودگی اور روحانی طمانیت کا باعث تھی۔ اسی جذبے نے انھیں کتابوں کی تزئین و آرائش کے نئے نئے پہلوؤں کی طرف متوجہ کیا اور یوں شاہد حمید کے ہاتھوں کتاب کی صوری خوبصورتی نئی بلندیوں کو چھونے لگی۔

ان کے دوست احباب ان سے اکثر کہتے کہ کتابوں کے بزنس میں کیا رکھا ہے۔ کتاب کا قاری روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی ڈھنگ کا کاروبار شروع کرو۔ مگر کتاب تو شاہد حمید کا عشق تھی۔ بھلا عشق میں سود و زیاں کی سوچ کیسی۔ وہ اپنی پوری محبت، لگن اور شوق کے ساتھ کتابیں چھاپتے رہے، علم بانٹتے رہے۔ اور اپنے عشق پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔ آہستہ آہستہ کتابوں کی اشاعت بڑھنے لگی اور ”بک کارنر“ کے نام کا اعتبار قائم ہو گیا۔

سنہ 1992 ء کی برسات آئی تو دریائے جہلم بپھر گیا۔ جہلم شہر کا بہت بڑا حصہ زیرآب آ گیا۔ سیلاب سب کچھ بہا لے گیا۔ بک کارنر کی پرنٹنگ مشین بھی سیلاب کی نذر ہو گئی۔ مگر چٹان جیسے حوصلے کے مالک شاہد حمید کے چہرے پر تفکر کے آثار تک نہ تھے۔ انہوں نے بکھرے تنکے جمع کیے اور ایک نئے عزم کے ساتھ عشق کی نئی منزلوں کو سر کرنے کی ٹھان لی۔ اور پھر کبھی انھوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ایک چھوٹے سے شہر میں بیٹھ کر انہوں نے کتاب کی اشاعت کے فن کو ان بلندیوں تک پہنچا دیا کہ بڑے شہروں کے بڑے بڑے اشاعتی ادارے حیران رہ گئے۔ پبلشنگ کے معیار کو بام عروج تک پہنچانے میں ان کے دو ہونہار فرزندگان گگن شاہد اور امر شاہد نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان دو نوجوانوں نے اپنے والد کے اس عظیم کام کو نئی منزلوں سے روشناس کرایا۔ ڈیجیٹل دور کے جدید طور طریقے استعمال کر کے آن لائن بک سیلنگ کے پیش رو بنے۔ آج فیس بک پر بک کارنر شو روم کا پیج فالو کرنے والوں کی تعداد ساڑھے چھے لاکھ کے قریب ہے۔ دوردراز کے شہروں اور ملکوں میں کتابوں کی تیزرفتار ترسیل ان کے ادارے کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ بک کارنر سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد کتب اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔

پچھلے کئی برسوں سے میرا معمول ہے کہ جب بھی چھٹیوں میں برطانیہ سے منڈی بہا الدین جانا ہوا، جہلم جا کر گگن شاہد اور امر شاہد سے ضرور ملاقات کی۔ نئی نئی کتابیں اور وہ بھی اس قدر خوبصورت چھپی ہوئی دیکھ کر دل خوش ہوجاتا۔ دونوں بھائیوں کی کتابوں سے محبت ان کے چہروں سے چھلک رہی ہوتی ہے۔ کتابوں سے دور ہوتے ہوئے پاکستانی معاشرے میں بک کارنر کا وجود ایک نعمت ہے۔

سب رنگ ڈائجسٹ کی کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا خواب میں نے کئی برس پہلے دیکھا تھا۔ شکیل بھائی (جناب شکیل عادل زادہ) نے اس سلسلے میں تمام تر ترتیب، تیاری اور اشاعت کے اہتمام سمیت جملہ امور میں مجھے کلی اختیار دے دیا۔ میں نے کہانیوں کی ترتیب فائنل کر رکھی تھی۔ اب اشاعت کا مرحلہ تھا۔ کراچی لاہور اور دوسرے شہروں کے کئی پبلشر میری نظر میں تھے۔ ان میں سے کئی ادارے اس پراجیکٹ میں دلچسپی لے رہے تھے۔ مگر ان کی شائع شدہ کتابوں کا معیار دل کو نہ بھا سکا۔ بک کارنر کی کتاب بلا شبہ سب سے خوبصورت ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا، سب رنگ کی کہانیاں اگر کوئی ادارہ سب رنگ کے معیار کے مطابق چھاپ سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف شاہد حمید کا بک کارنر ہے۔

شاہد حمید

سال گزشتہ پاکستان پہنچتے ہی میں بک کارنر گیا اور گگن شاہد اور امر شاہد سے اپنے ”سب رنگ کہانیاں“ پراجیکٹ کا ذکر کیا تو دونوں بھائیوں نے کہا کہ سب رنگ کہانیاں چھاپنا ہمارے ادارے کے لیے اعزاز ہو گا۔ جناب شکیل عادل زادہ اور سب رنگ کے چاہنے والے شاہد حمید بے حد خوش تھے۔ انہوں نے اس پروجیکٹ میں خصوصی دلچسپی لی اور ان کی رہنمائی و ہدایات نے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔ اور جب 21 جون 2020 ء کو ”سب رنگ کہانیاں“ کی پہلی جلد منظر عام پر آئی تو ہر طرف دھوم مچ گئی۔ ملک اور بیرون ملک سے شائقین نے جس پسندیدگی کا اظہار کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ گگن شاہد اور امر شاہد نے کہا کہ یہ ہمارے ادارے کی اب تک کی سب سے خوبصورت کتاب ہے۔ شکیل بھائی نے کتاب دیکھی تو بے ساختہ کہا ”بھئی واہ“ ۔ تین دہائیوں تک سب رنگ کے شعبۂ طباعت کے نگران رہنے والے افضال بھائی کا تبصرہ کچھ یوں تھا ”اگر میں یہ کتاب چھاپتا تو اتنی خوب صورت نہ چھاپ سکتا“ ۔ یہ جملے بک کارنر اور شاہد حمید کی مساعی کے لیے ہدیۂ تحسین ہیں۔

کتاب کی اشاعت کے فوراً بعد بہت عجلت میں مجھے برطانیہ واپس آنا پڑا۔ چند دن بعد عیدالاضحیٰ تھی۔ عید کے دوسرے روز مجھے گگن بھائی کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ سب احباب کو عید مبارک کے فون کرنے لگے ہیں تو والد صاحب نے کہا ہے کہ سب سے پہلے برطانیہ میں حسن رضا سے میری بات کرواؤ۔ اور پھر ان سے میری طویل گفتگو ہوئی۔ انھوں نے عید کی مبارکباد دی۔ ”سب رنگ کہانیاں“ کی مبارکباد دی۔ اور کہا ”بک کارنر آپ کا شکر گزار ہے کہ آپ نے اس پراجیکٹ کے لیے ہمارا انتخاب کیا۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”سب رنگ کہانیاں“ کی اشاعت سے بک کارنر کا وقار اور اعتبار مزید بڑھا ہے۔ ”مگر واقعہ یہ ہے کہ بک کارنر نے کتاب کی تزئین و آرائش، کاغذ کی کوالٹی، پرنٹنگ اور پبلشنگ میں جو معیار قائم کیا ہے ترقی یافتہ ممالک میں تو اس کی مثالیں مل جاتی ہیں مگر پاکستان میں شاید و باید۔ بک کارنر سے شائع ہونے والی ہر کتاب آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ ایک پیس آف آرنامنٹ ہے۔ سب رنگ کہانیاں چھپنے کے دوسرے ہی روز مجھے کراچی کے ایک بڑے پبلشر کا پیغام آیا کہ پہلی کتاب کے بعد اگر اور کتابیں بھی چھاپنے کا پروگرام ہے تو ہماری خدمات حاضر ہیں۔ میں نے اس پیغام پر ان کا شکریہ ادا کر دیا۔ جو تجھ کو دیکھ چکا ہو وہ اور کیا دیکھے۔

گگن شاہد اور امر شاہد اپنے والد صاحب کے لگائے ہوئے پودے کو خون جگر سے سینچ رہے ہیں۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ کتابوں کی اشاعت کے فن کو وہ نئی رفعتوں سے ہم کنار کر رہے ہیں۔ ڈیڑھ سو سال پہلے جو جملہ غالب نے منشی نول کشور کے لئے کہا تھا وہ آج ”بک کارنر“ پر بھی پوری طرح صادق آتا ہے۔

مرحوم و مغفور شاہد حمید اس دن کتنی ہی دیر مجھ سے محو گفتگو رہے۔ ان کی شفقت بھری باتیں، محبت سے لبریز لہجہ میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا۔ کتنی ہی بار انھوں نے مجھ سے پاکستان آنے کا پوچھا۔ ”تم میرے لیے گگن اور امر کی طرح ہو۔ اپنے بچوں کو لے کر پاکستان ہمارے گھر ضرور آنا“ ۔ میں نے وعدہ کیا کہ ان شاء اللہ جلد بچوں کے ساتھ جہلم آؤں گا۔ مگر کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے وعدے کی تکمیل میں تاخیر ہوتی گئی اور وہ شفیق ہستی، محبت کرنے والی، علم دوست شخصیت چلی گئی۔ سوچتا ہوں اب بک کارنر جاؤں گا تو شاہد حمید نہیں ہوں گے۔ ان سے ملاقات کا وعدہ پورا نہ ہو سکا۔ مگر نہیں۔ شاہد حمید کہیں نہیں گئے۔ وہ گگن شاہد اور امر شاہد کے روپ میں موجود ہیں۔ وہ بک کارنر سے چھپنے والی ہر کتاب میں موجود ہیں۔ ہر کتاب کے ٹائٹل کے پس منظر میں ان کا ہنستا مسکراتا پررونق چہرہ دکھائی دے گا۔ جب بھی کوئی کتاب کھولوں گا ان سے ملاقات ہو جائے گی۔ جب تک بک کارنر موجود ہے، جب تک کتاب موجود ہے، شاہد حمید موجود رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments