بھارت: گھر گھر کرونا وائرس کے وار، دہلی میں خوف اور وحشت کا راج


اس وقت ملک کا ایک بڑا حصہ کرونا کی دوسری لہر کی شدید گرفت میں ہے سیکڑوں اموات ہو رہی ہیں اور نظیر اکبر آبادی کے بقول “قزاق اجل نقارہ بجا بجا کر انسانی جانوں کی پونجی لوٹ رہا ہے۔”

دارالحکومت دہلی سمیت نصف درجن سے زائد ریاستوں میں عوام میں زبردست خوف و دہشت ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کون کب کرونا کی گرفت میں آ جائے۔

خوف و دہشت کی وجہ کرونا کیسز اور کرونا سے ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ ہے۔

دہلی حکومت کی جانب سے پیر کی صبح تک چھ روزہ لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی وجہ سے بازار بند ہیں اور گلیوں میں سناٹا ہے۔ البتہ کبھی کبھی کسی ایمبولینس یا پولیس گاڑی کے ہارن اس سناٹے کو تھوڑی دیر کے لیے توڑ دیتے ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں میں تین لاکھ 14 ہزار 853 افراد میں کرونا کی تشخیص ہوئی ہے اور 2104 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر ایک دن میں کرونا کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔

اس سے قبل جنوری میں امریکہ میں ایک روز میں سب سے زیادہ دو لاکھ 97 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو کہ ایک ریکارڈ تھا۔ لیکن اب بھارت نے اس ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

بھارت میں کرونا سے اموات کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بھارت میں کرونا سے اموات کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دہلی میں کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جو کرونا کی گرفت سے آزاد ہو۔ نزلہ، زکام کی مانند کرونا نے گھر گھر پر دستک دے دی ہے۔ اگر کسی گھر میں ایک شخص اس کی زد میں آیا ہے تو پھر رفتہ رفتہ پورا گھر اس کی گرفت میں آ جاتا ہے۔

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے وابستہ ایک اہل کار نے اپنا نام راز میں رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی بہو کرونا کا شکار ہو کر 15 روز سے اسپتال میں داخل ہیں۔

ان کی اہلیہ اور بیٹے کو بھی انفیکشن ہو گیا ہے۔ وہ خود کینسر کے مریض ہیں اس لیے اس خوف سے کہ انہیں بھی کرونا نہ ہو جائے وہ اپنے ایک عزیز کے گھر چلے گئے ہیں جو کہ ابھی کرونا کی زد میں نہیں آیا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ایک استاد اقبال احمد نے بتایا کہ ان کے برادرِ نسبتی جو کہ لکھنؤ میں قیام پذیر تھے کرونا سے ہلاک ہو گئے ہیں اور اب ان کے گھر کے کئی افراد میں بھی کرونا کی علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔

اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کا بھی سامنا ہے۔
اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

جنوبی دہلی کے جامعہ نگر علاقے کی معروف مسلم کالونی شاہین باغ میں میتیں لانے کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں کے چھوٹے سے قبرستان میں 20 اپریل کو 11 میتیں دفن کی گئیں جن میں سے نصف کی موت کرونا سے ہوئی تھی۔

دہلی کے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے اور اسی طرح شمشان گھاٹوں پر بھی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔

رات کو بھی شمشان گھاٹوں میں رش

ہندو مذہب کے مطابق رات میں آخری رسوم کی ادائیگی ممنوع ہے لیکن دہلی کے سب سے بڑے مرگھٹ نگم بودھ گھاٹ پر 24 گھنٹے چتائیں جلائی جا رہی ہیں۔ وہاں کے ایک ذمے دار نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا سے اموات کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔

اس کے مطابق اسپتالوں میں مردے رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ کرونا سے مرنے والے کو گھروں میں بھی زیادہ دیر تک نہیں رکھا جا سکتا اس لیے لوگ جلد از جلد آخری رسوم ادا کر دینا چاہیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب کی روایات کے برعکس رات میں بھی آخری رسوم اد کی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود کئی کئی گھنٹے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق بھوپال اور دیگر کئی شہروں میں چتاؤں کے مسلسل جلنے کی وجہ سے وہاں کی چمنیاں پگھل گئی ہیں۔

ایک سینئر صحافی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم سید منصور آغا نے بتایا کہ 21 اپریل کو مسلم یونیورسٹی سے وابستہ پانچ شخصیات کا انتقال ہوا جن میں پروفیسر ہمایوں مراد، پروفیسر مولیٰ بخش، پروفیسر احسان اللہ فہد، پروفیسر سید اقبال علی، پروفیسر سعید الظفر، ڈاکٹر سعید الزماں اور حافظ محمد شمس الزماں شامل ہیں۔

پروفیسر ہمایوں مراد بہت پہلے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے تھے باقی سب حاضر سروس تھے۔

کئی اہم شخصیات کا انتقال

اپریل کا مہینہ علمی حلقوں کے لیے اموات کا مہینہ ثابت ہو رہا ہے۔

سولہ اپریل کو جامعہ ہمدرد، نئی دہلی میں استاد پروفیسر اشتیاق دانش اور پٹنہ کے بزرگ صحافی ریاض عظیم آبادی، 19 اپریل کو معروف فکشن رائٹر مشرف عالم ذوقی اور 20 اپریل کو معروف افسانہ نگار اور دور درشن کے سابق پروڈیوسر انجم عثمانی، جماعت اہلِ حدیث کے ایک بڑے عالم مولانا خالد حنیف صدیقی، اسکرپٹ رائٹر ڈاکٹر تبسم فاطمہ زوجہ مشرف عالم ذوقی سمیت کئی صاحبِ علم افراد کا انتقال ہوا۔

عالمِ اسلام کی ایک معروف علمی شخصیت مولانا وحید الدین خان کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کی عمر 96 سال تھی۔ وہ کئی دنوں سے ایک نجی اسپتال میں داخل تھے۔

اس وقت دہلی کے اسپتالوں میں بیڈ، آکسیجن اور ادویات کی قلت ہے۔ کئی اسپتالوں نے نئے مریضوں کو داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ گھروں میں قرنطینہ میں ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت کرونا کے 40 ہزار مریض ہوم آئسولیشن میں ہیں اور ڈاکٹروں کے مشورے پر گھر پر ہی علاج کروا رہے ہیں۔ نومبر میں ہوم آئسولیشن مریضوں کی تعداد 25 ہزار تھی۔

رہائشی کالونیوں میں کام کرنے والی متعدد نجی تنظیمیں کرونا مریضوں کی مدد کے لیے سرگرم ہو گئی ہیں۔ جگہ جگہ طبی کیمپ کھولے جا رہے ہیں اور مریضوں کو مشورے اور ادویات دی جا رہی ہیں۔

صحتِ عامہ کے ایک ماہر ڈاکٹر ستیش نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن کی قلت اور اموات کی خبروں سے بہت سے لوگوں میں خوف و دہشت پیدا ہو گئی ہے۔

متعدد اضلاع میں صحت کے کارکنوں کی جانب سے بھی کرونا مریضوں کو ہر ممکن مدد دی جا رہی ہے۔

دہلی کے 15 اضلاع کے ڈپٹی پولیس کمشنرز میں سے چار اور چھ جوائنٹ کمشنر آف پولیس گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کرونا کا شکار ہوئے۔ اس وقت دہلی پولیس کے 450 اہل کار کرونا کا شکار ہیں جن میں سے 15 کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

جب سابق آرمی چیف کو بیڈ کے لیے اپیل کرنا پڑی

اسپتالوں میں بحرانی کیفیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو روز قبل مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کو اپنے بھائی کے لیے ایک بیڈ حاصل کرنے کی غرض سے ٹوئٹر پر اپیل کرنا پڑی۔

وی کے سنگھ اتر پردیش میں غازی آباد سے رکنِ پارلیمنٹ ہیں۔ انہوں نے غازی آباد کے ضلع مجسٹریٹ سے بذریعہ ٹوئٹر بیڈ کے لیے اپیل کی۔ ان کی اس اپیل پر سوشل میڈیا پر ان پر شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ جب ایک وزیر اس قدر مجبور ہے تو عام آدمی کی کیا حالت ہوگی۔ تنقید کے بعد انھوں نے اپنی پوسٹ ہٹا دی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کئی ارکان پارلیمنٹ اور پارٹی عہدے داروں نے اخبار انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ گزشتہ کئی دنوں سے ان لوگوں کے پاس اسپتالوں میں بیڈ اور آکسیجن کے لیے متعدد فون کالز آرہی ہیں اور ان کے لیے جواب دینا مشکل ہو رہا ہے۔

بی جے پی کے ایک عہدے دار نے کہا کہ جب بھی فون کی گھنٹی بجتی ہے تو اس خیال سے دل دہل جاتا ہے کہ کہیں کوئی شخص بیڈ اور آکسیجن کے لیے مدد تو نہیں مانگ رہا ہے۔ اںہوں نے بتایا کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ سیاسی اثر و رسوخ سے بھی کام نہیں چل رہا ہے۔

ممبئی کی ایک 51 سالہ ڈاکٹر منیشا جادھو نے ہفتے کے روز اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ شاید یہ ان کی زندگی کا آخری گڈ مارننگ ہو۔ اس پوسٹ کے 36 گھنٹے بعد کرونا سے ان کی موت ہو گئی۔ وہ سیوری ممبئی کے ٹی بی ہاسپٹل میں چیف میڈیکل آفیسر تھیں۔

متعدد ڈاکٹروں اور صحت کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پیغامات پوسٹ کیے جا رہے ہیں اور موجودہ صورت حال پر اظہار تشویش کے ساتھ ساتھ اپنی بے بسی بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments