احتساب کا عمل


پاکستان میں ریاستی، حکومتی یا ادارہ جاتی سطح پر بہت سے اداروں کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان ہی میں ایک بڑا ادارہ ”قومی احتساب بیورو“ یعنی نیب بھی ہے۔ اس ادارے پر دو سطحوں سے تواتر کے ساتھ الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اول ملک میں موجود سیاست سے جڑے افراد یا سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں اس ادارے کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول یہ ادارہ عملی طور پر احتساب کم اور سیاسی انجینیئرنگ کے طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف زیادہ استعمال ہوتا ہے۔

دوم ملک میں موجود کاروباری طبقہ یہ منطق دیتا ہے کہ اگر ریاست نے معیشت یا معاشی صورتحال کی بہتری کو یقینی بنانا ہے تو اسے ہر صورت میں نیب کو سیاسی لگام دینی ہو گی۔ اس طبقہ کے بقول نیب اور معاشی ترقی کا عمل یکجا بنیادوں پر نہیں چل سکتا۔ اسی طرح میڈیا اور عدالتی سطح پر بھی تواتر کے ساتھ نیب پر تنقید کا عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔

پاکستان میں بدقسمتی سے ہمیشہ سے احتساب کا سیاسی، انتظامی اور قانونی نظام کمزور رہا ہے یا اسے جان بوجھ کر اپنے اپنے سیاسی مفادات کی بنیاد پر کمزور رکھا گیا یا اس پر سیاسی سمجھوتوں سمیت سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہ کہانی محض نیب سے نہیں جڑی بلکہ نیب کے بننے سے قبل بھی احتساب کا کوئی جاندار نظام نہیں تھا۔ اس لیے جو لوگ نیب پر تنقید کرتے ہیں ، وہ نیب سے قبل احتساب کے نظام کی شفافیت کا کون سا نظام پیش کر سکتے ہیں؟

یہ منطق کہ اگر ہم نے سیاست، جمہوریت اور میعشت کو ترقی دینی ہے تو اس کے لیے نیب کو ختم کرنا یا ان کے اختیارات کو محدود کرنا یا اسے کمزور رکھنے تک محدود ہونا چاہیے، غلط ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی سیاسی اور معاشی نظام احتساب یا کسی بھی سطح پر جوابدہی کے نظام کے بغیر چل سکتا ہے، یقینی طور پر جواب نفی میں ہو گا۔ جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نیب کو ہی ختم کر دیں تو مراد یہی کہی جاتی ہے کہ احتساب کو چھوڑیں اور ترقی کو بنیاد بنائیں۔ یہ سوچ اور فکر بنیادی طور پر ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کو فروغ دینے یا اسے قبول کرنے کی طرف مائل کرتی ہے۔

یہ ہمارا ایک عمومی مزاج بن گیا ہے کہ ہم اداروں کو مستحکم، شفاف اور جوابدہ بنانے کی بجائے اس پر مختلف انداز میں طعنہ زنی کر کے انہیں متنازعہ بنانے کے کھیل کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہ کام شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر ہوتا ہے۔ نیب کے ادارے میں مسائل ہیں اور ان مسائل کا حل شفافیت کے ساتھ سیاسی نظام، حکومت نے ادارہ جاتی استحکام کی بنیاد پر کرنا ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت عملی طور پر اداروں میں موجود خامیوں کی بنیاد پر انہیں مضبوط بنانے، نئی پالیسیوں یا قانون سازی یا بجٹ کی منصفانہ تقسیم اور نگرانی کے مربوط نظام قائم کرنے کی بجائے انہیں کمزور رکھنے یا متنازعہ بنانے کو ہی اپنے مفاد میں سمجھتی ہے۔ اسی طرح ان برے اور نامساعد حالات میں بھی اگر یہ ادارے کسی نہ کسی سطح پر فعالیت دکھا رہے ہیں تو ہم ان کی پذیرائی کرنے کی بجائے ان کو تنقید کا نشانہ بنا کر اپنے اپنے سیاسی مفادات پر مبنی ایجنڈے کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔

یہاں میں نیب کی مجموعی کارکردگی اور بالخصوص پنجاب نیب کے حوالے سے دو مثالیں دینا چاہتا ہوں جو ثابت کرتی ہیں کہ نیب کی کارکردگی اتنی بھی بری نہیں جتنی ہم میڈیا میں اس کی تشہیر کرتے ہیں۔ اول نیب نے بالواسطہ یا بلاواسطہ دونوں طریقوں سے 2017 تک کل ریکوری کی مد میں 40.75 بلین رقم وصول کی جو سالانہ 2.4 بیلن بنتی ہے۔ لیکن اسی ادارے نے 2017۔ 2020 یعنی محض تین برسوں میں ریکارڈ ریکوری کرتے ہوئے 75.16 بلین رقم وصول کی جو سالانہ 21.5 بلین بنتی ہے۔یہ واقعی اس ادارے کی غیر معمولی ریکوری بنتی ہے۔ اسی طرح آخری تین برسوں میں 5.6 بلین رقم مختلف کیسز کی مدد میں ریکور کروا کر دی ہے۔

دوم، ایک بڑا مسئلہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں لوگوں کی رقوم کا معاملہ تھا۔ نیب کے سربراہ نے یہ کام پنجاب نیب اور ان کے سربراہ کو دیا کہ وہ ان معاملات میں لوگوں کی داد رسی کریں۔ 2018 سے تاحال ایسی بے شمار غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں نیب لاہور کے زیر عتاب آئیں جنہوں نے معصوم عوام کو زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کر رکھا تھا۔ جب ان کے گرد نیب نے گھیرا تنگ کیا تو اس کے نتیجے میں صرف تین برسوں میں نیب نے 75 بلین رقم ساٹھ ہزار سے زیادہ متاثرین میں ریکور کر کے تقسیم کی۔ جبکہ پچھلے سترہ برسوں میں یہ رقم محض 41.7 بلین بنتی تھی۔

ڈی جی میجر (ر) سلیم شہزاد اور ان کے ادارے نے ان معاملات میں واقعی غیر معمولی کارکردگی دکھائی جو واقعی قابل داد ہے۔ اسی طرح دیگر احتساب کے اداروں کے مقابلے میں مجموعی طور پر نیب میں جو بھی مقدمات آتے ہیں ، ان میں سزا پانے والے افراد کی تعداد 68 فیصد ہے جو واقعی غیر معمولی ہے جبکہ نیب لاہور کی یہ شرح 70 فیصد ہے۔

اصل میں ایک خاص سیاسی اور معاشی مقصد کے حصول کے لیے ایک طاقت ور طبقہ کا نیب کے خلاف بیانیہ درست نہیں۔ یقینی طور پر نیب کے طریقہ کار یا پالیسی میں سقم ہو سکتا ہے اور اسے دور کرنا چاہیے۔ لیکن نیب کو ختم کرنے کا مقصد عملی طور پر کرپشن کو سیاسی تحفظ فراہم کرنا ہے اور یہ درست حکمت عملی نہیں۔ کیونکہ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ نیب کو ختم کر دیا جائے تو ان کے پاس احتساب کے تناظر میں کیا متبادل نظام ہے۔ کیونکہ جو پہلے سے رائج نظام چل رہا تھا اس نے کون سا یہاں احتساب کے نظام کو شفاف بنایا تھا۔

احتساب کے تناظر میں ہمیں پانچ پہلوؤں پر نیب کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور یہی چیلنجز نیب کو مختلف حوالوں سے درپیش بھی ہیں۔

اول: سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہمیں جو 125 نئی نیب عدالتیں تشکیل دینی تھیں ، اسے حکومتی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بہت جلد 25 کورٹس بنا دی جائیں گی مگر ابھی تک ان کی تشکیل بھی ممکن نہیں ہو سکی۔

دوم: نیب کے جو افسران ہیں ، ان کے عالمی سطح پر بالخصوص وائٹ کالر کرائم سے نمٹنے کے تناظر میں تربیتی نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ واقعی وائٹ کالر کرائمز سے نمٹنا آسان نہیں اور ہمیں عالمی تجربات اور ان کی صلاحیتوں سے ضرور سیکھنا چاہیے۔

سوم: بیورو کریسی کے طرزعمل میں بہتری لانی ہو گی کیونکہ ان کا عدم تعاون اور ریکارڈ کی فراہمی کا نظام مؤثر اور شفاف نہیں ہے۔

چہارم: عدالتوں میں جن لوگوں پر الزامات ہوتے ہیں ، وہ عمومی طور پر ان عدالتوں کو سہارا بنا کر تاخیری حربے اختیار کرتے ہیں اور ملزم سمیت گواہان کا پہنچنا، عدم تعاون اور تاخیر خود رکاوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔

پنجم: میڈیا اور سیاسی سطح پر اس بحث کو مضبوط بنانا چاہیے کہ ہمیں احتساب کے نظام کو مؤثر اور شفاف بنانا چاہیے اور نیب کے معاملات پر تنقید ضرور ہو لیکن جو کام وہ بہتر طور پر کر رہے ہیں، اس کی بھی تعریف ہونی چاہیے۔ کیونکہ بلاوجہ کی تنقید بھی نیب سمیت احتساب کے عمل کو مضبوط بنانے کی بجائے کمزور کرنے کا سبب بنتی ہے۔ احتساب کی شفافیت، بے لاگ اور تمام تر سیاسی مصلحتوں کے بغیر احتساب کا نظام بنا کر ہی ہم شفافیت پر مبنی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments