لولی پاپ کی سوچوں سے باہر نکلنا ہو گا


پاکستانی سیاست میں جب بھی اپوزیشن اور حکومت اس صورت آمنے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں کہ بہر لحاظ اپوزیشن طاقتور اور حکومت کمزور نظر آنے لگتی ہے یا صورت حال کچھ یوں ہو جاتی ہے کہ اگر حکومت کوئی سمجھوتہ کرنے کی بجائے سخت تادیبی کارروائی پر کمر کس لے تو بجائے حکومتی مشکلات کم ہونے کے معاملات مزید الجھ جاتے ہیں، سلجھا نہیں سکتے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت پسپائی اختیار کر کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے اور کسی نہ کسی طرح بڑھتے چڑھتے طوفان کا رخ موڑ دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف جنگ ہی کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن بنا جنگ کسی فریق کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا بھی نہیں جا سکتا ، اس لئے کہ ہر زور آور پر جب تک اپنے دم خم کا سکہ نہ بٹھا دیا جائے وہ جھکنے کے لئے کبھی آمادہ نہیں ہوا کرتا۔

بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں ہمیشہ مذاکرات کے نتیجے میں جب بھی اپوزیشن یا چند حکومت مخالف جماعتوں کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوا ہے وہ ہمیشہ وقتی بحران کو ٹال دینے کے نقطۂ نظر سے ہوا ہے اور ہمیشہ یہ بات دیکھنے میں آئی کہ مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدات ہوئے، وہ سب کے سب دھوکے کی ٹٹی ہی ثابت ہوئے اور اس ساری مشق کے دوران جو بھی یک طرفہ یا دو طرفہ قربانیاں دی گئیں ، وہ رائیگاں ہی گئیں۔

چڑھے ہوئے سیلاب بلاخیز کا رخ موڑ دینے کے لیے یہ ہوتا آیا ہے کہ ”ضمانتیوں“ کا سہارا  لے کر حکومت، مخالف سیاسی جماعتوں سے کچھ معاہدات کر لیا کرتی ہے اور ان کو الٹے قدموں واپس بھیج کر اس بات کو بالکل ہی فراموش کر دیتی ہے کہ اس نے اپنے مخالفین کے ساتھ کچھ باتیں طے کر لی ہیں اور ان طے شدہ معاہدوں کے مطابق آگے کی جانب پیش قدمی جاری رکھنی چاہیے۔

حال ہی میں جو معاہدہ چند ماہ قبل تحریک لبیک سے کیا تھا،  اس کی کھلی خلاف ورزی سامنے آئی جس پر تحریک لبیک کی جانب سے بھی شدید ردعمل آیا۔ تحریک لبیک نے معاہدے میں درج شدہ باتوں پر مقررہ مدت میں کسی بھی قسم کی پیش قدمی نہ دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اسلام آباد کی جانب پیش قدمی اور حکومتی حساس مقامات کا گھیراؤ کر کے حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ کیے گئے معاہدے کے مطابق سلسلے کو آ گے بڑھائے،  لیکن ہوا یوں کہ پہلے ہی دن سے حکومت نے اس سلسلے میں غیر سنجیدگی سے کام لیا اور جب پانی سر سے اونچا ہونے کے خطرات پیدا ہونا شروع ہونے لگے تو سخت رویے کا مظاہرہ کیا گیا جس سے کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ دو طرفہ تشدد ہوا جس کے نتیجے میں بھاری جانی اور مالی نقصانات دیکھنے میں آئے۔

جس طرح سے کہا گیا ہے کہ حکومت ایسی صورت حال سے وقتی نجات حاصل کرنے کے لئے فوراً مذاکراتی ٹیم تشکیل دیتی ہے اور نہایت عجلت کے ساتھ معاہدہ کر کے سر سے اونچا ہو جانے والے پانی کا رخ موڑ دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پی پی کے دور میں طاہر القادری کا اسلام آباد کا گھیراؤ، تحریک لبیک کا نواز دور میں فیض آباد کا دھرنا، تحریک لبیک ہی کے ساتھ پی ٹی آئی کا کیا گیا معاہدہ یا پھر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ حکومتی معاہدہ، اسی قسم کے سارے معاہدات حکومتی لولی پاپ سے زیادہ کبھی ثابت نہ ہو سکے ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان سخت ٹکراؤ ہوا اور پر تشدد واقعات کے بعد تحریک لبیک سے ایک اور معاہدہ کیا گیا جس پر آج کل گرما گرم بحث جاری ہے ، لیکن لگتا ہے کہ ماضی میں جتنے بھی سیاسی لولی پاپ معاہدوں کی صورت میں دیے جاتے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں یہ نیا لولی پاپ پہلے سے کہیں بڑا اور شیریں ہے۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے تحریک لبیک سے واقعی کوئی معاہدہ کیا ہے تو وہ ہے کیا، اس کو اب تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا اور نہ ہی کوئی ایسی مشترکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں فریقین میڈیا کے سامنے آ کر معاہدے کی تفصیلات بیان کرتے۔ یہ یک طرفہ معاہدہ نہ صرف از خود ایک معما ہے بلکہ اس ابہام کا سبب بھی ہے کہ کیا واقعی حکومتی بیانات کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے بھی پایا ہے یا صرف ہوائی ہے۔

آج کی تازہ ترین خبر اس معاہدے کے مشکوک ہونے کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔ بقول حکومت اس معاہدے کا اہم ترین نقطہ یہ تھا کی فرانسیسی سفیر کو دیس نکالا دیا جائے اور اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جائے جسے منتخب اراکین اسمبلی سے منظور کرا کے قانونی شکل دی جائے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ کل ہونے والے اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے میں اس قرارداد کو شامل ہی نہیں کیا گیا جو حکومتی دعوؤں کے برعکس دو طرفہ معاہدے کو مشکوک بنانے کے لئے کافی ہے اور اس جانب ایک واضح اشارہ ہے بھی ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی اہمیت کسی لولی پاپ سے زیادہ ہوا ہی نہیں کرتی۔

اول تو حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان جو بھی معاہدہ ہوا ہے ، اس کی تفصیل عوام کے سامنے آنی چاہیے اور دوئم یہ کہ اگر حکومت کے معاہدات محض لولی پاپوں جیسے ہو جائیں گے تو حکومت عوام کا اعتماد کھو دے گی جس کا نتیجہ انارکی کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

اگر خدا نخواستہ یہ سلسلہ دراز ہو گیا تو حکومت مخالف جماعتیں مذاکرات کی میز پر آنے سے انکاری ہو جائیں گی۔ لہٰذا اس سے قبل کہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ سلسلہ سیاسی ابتری کی جانب چل نکلے، اگر واقعی حکومت نے تحریک لبیک سے کوئی معاہدہ کیا ہے تو اس کو وقتی بلا ٹالنے کے بطور استعمال نہ کریں بلکہ معاہدے کی ایک ایک طے شدہ شق پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کو کوشش کریں۔ اسی میں پاکستان کی بہتری ہے ورنہ آتش فشاں آج نہیں تو کسی بھی آنے والے کل، اپنا لاوہ اگل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments