”صحافت کا دھندہ تو اب ڈیجٹل مارکیٹ میں ہی چلے گا“


میڈیا کے دھندے کا مندہ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ صحافی بے روزگار، میڈیا ہاؤسز بند جب کہ اخبارات کی سرکولیشن گرتی جا رہی ہے اشتہارات کی کمی نے میڈیا مالکان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ نت نئے ہتھکنڈے آزما کر بھی ڈوبتی نیا بچانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ روایتی میڈیا کا ایسا عروج اور ایسا زوال کہ باعث عبرت ٹھہرے! ذرا سوچئے نیوز میڈیا انڈسٹری کا زوال اس کے مفقود ہونے کا مژدہ ہے یا اس مردہ ہوتے روایتی میڈیا ماڈل پر ایک نئے اور پہلے سے بہتر سفر کا آغاز؟

تیز رفتار سائنسی ترقی نے میڈیا کو بھی نئے امکانات اور چلینجز سے دوچار کیا ہے۔ آراستہ اور پیراستہ بند کمروں میں قیمتی سوٹ بوٹ میں ملبوس میڈیا ”گرو“ ہزار جتن کے باوجود مٹھی سے ریت کی صورت پھسلتی ویوئر شپ کو جوڑے رکھنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ روز و شب برپا کیے جانے والے سرکس کے باوجود بزنس ٹھپ اور مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے دیوار پر لکھا پڑھیں اور سمجھ کر بہتری کی تدبیر کریں۔

پاکستان جیسے ممالک میں میڈیا انڈسٹری کی حالت زار میں دیگر کئی عوامل کار فرما ہیں۔ جن میں ریاستی دباؤ کے تحت تیزی سے سکڑتی آزادیٔ اظہار کی گنجائش، شدت پسندی، عدم برداشت، سماجی یک رنگی کی خواہش، طاقتور گروہوں کی جانب سے پر تشدد ردعمل اور عوامی بیزاری و عدم اعتماد شامل ہیں۔ سائنسی ترقی نے چونکہ اظہار کے متبادل ذرائع تک رسائی کو نہایت سہل اور پسندیدہ بنا دیا ہے۔ گھسے پٹے آمرانہ صحافتی تجربے کو روند کر نئے اور کھلے وچاروں سے لیس نہایت فعال و متحرک میڈیا انگڑائی لے رہا ہے۔ ریاستی سنسرشپ اور قدغنوں سے نڈھال، سیٹھ کے مالی مفادات کا مارا ’بابو میڈیا ”دم توڑ رہا ہے، اس کا اعتبار بھسم ہو چکا ہے اور جس کی ذمہ داری خود اسی پر عائد ہوتی ہے۔

ٹیکنالوجی نے ”کنٹرول بٹن“ کو مخصوص ہاتھوں سے چھین کر اجارہ داری کو رد کر دیا ہے۔ میڈیا کے اس انقلاب میں تجربہ کار، سکہ بند صحافی اور لکھاری نوخیز و نو سکھیوں سے مات کھا رہے ہیں۔ میڈیا کا نیا ماڈل زیادہ دلچسپ، تیر بہدف، ہمہ رنگ ایڈیشن کی صورت مارکیٹ میں امڈ آیا ہے اور دھڑا دھڑ بک رہا ہے۔ کیمرے اور مائیک نے ہر خاص و عام، شہری دیہاتی، تعلیم یافتہ اور ان پڑھ، مرد و زن کو بلا تخصیص اظہار رائے کا موقع فراہم کیا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز ہمہ جہتی اور ہمہ فکری کی آماجگاہ بن کر سامنے آرہے ہیں۔ ہمیشہ سے زیادہ جمہوری، آزاد، عوامی مسائل اور روزمرہ معمولات سے جڑے پروگرام بلا روک ٹوک چوبیس گھنٹے ساتوں دن ایک کلک پر میسر ہیں۔ ایڈیٹر کی کٹ کٹ ہے نہ ہی میڈیا ہاؤسز کی مالی مجبوریوں کا ماتم اور نہ ہی ریاستی جکڑ بندیوں کی پرواہ۔ مخالف اور متنوع فکر کے اظہار کو ڈیجیٹل میڈیا نے دو آتشہ بنا دیا ہے۔

پاکستان میں ریاستی و حکومتی سیم پیج نے داخلی طور پر صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے جہاں مثبت رپورٹنگ جیسی پر فریب اصطلاح متعارف کی ہے وہیں نکتہ چیں صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی آوازیں بند کردی گئیں ہیں۔ میڈیا پر بڑھتی پابندیوں کو ٹیکنالوجی کے بہاؤ نے کافی حد تک بے اثر کر کے رکھ دیا ہے میڈیا انڈسٹری کھلی منڈی کے اصولوں کے تحت چھوٹے بڑے وسیلہ بے وسیلہ کے لئے دھندے کا موقع فراہم کر رہی ہے پوری دنیا نے ڈیجٹلائزیشن کا خیر مقدم کیا ہے اور صحافت بھی نئے رجحانات اور تقاضوں کو اپنانے پر مجبور ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا نے جس طرح ریاستی اور سیٹھ میڈیا کو پچھاڑا ہے اس نے صحافت کے مستقبل کی نئی جہتیں متعارف کروائی ہیں وہیں اس کے چیلنجز کی نوعیت بھی ہمیشہ سے مختلف اور غیر روایتی ہیں۔ فیک اور غیر مستند خبروں اور معلومات کا کبھی نہ رکنے والا بہاؤ اس کا سب سے مشکل امتحان ہے جس سے مقابلہ کیے اور اس کا توڑ نکالے بنا با اعتماد اور بامقصد صحافتی معیار کا خواب ادھورا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی تیز ترین رفتار اور ہمہ وقت تبدیل ہوتے زاویے اپنی ندرت اور پرکشش پیشکش کی بدولت جہاں پڑھنے اور دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں وہیں اٹینشن سپین محدود ہونے کی وجہ سے جلد بور ہو جانے کے امکان سے بھی مسلسل نبرد رہتا ہے۔ نا معقول سنسنی خیزیت اور من گھڑت مواد کے طوفان میں اپنی جگہ بنانا اور بنائے رکھنا تنی ہوئی رسی پر چلنے جیسا ہے۔

پاکستان میں صحافت کو ریاست اور سماج کی جانب سے سخت دباؤ اور مزاحمت کا سامنا ہے، مذہبی شدت پسندی، روایتی و ثقافتی اڑچنوں، دقیانوسی انداز فکر نے صحافیوں کے لئے کام کی گنجائش تنگ کی ہے وہیں ریاستی سرپرستی و ایما پر سنسر شپ اور ڈیجیٹل میڈیا کو قابو کرنے و زیر نگیں رکھنے کے لئے سخت قوانین کی تلوار بھی سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ بدلتے وقت اور ٹرینڈز کو بہترین انداز میں اپنائے بنا صحافت اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ یوں خود کو تبدیل و ہم آہنگ کرو یا مٹنے کو تیار ہو جاؤ کیونکہ صحافت کا دھندا تو اب ڈیجٹل مارکیٹ میں ہی چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments