میرا رہبر مشرف عالم ذوقی


یہ آج سے کئی برسوں پہلے کی بات ہے، شاید 2012 ء، ابھی میری پہلی کتاب پہلا ناول ہی منظر عام پہ آیا تھا اور افسانے ادبی جرائد میں چھپ رہے تھے میں نے حسب معمول اپنے شائع شدہ افسانے ”حرف اک منظر“ کی تصاویر فیس بک پہ پوسٹ کیں اور مشرف عالم ذوقی صاحب نے کمنٹ کیا کہ کیا یہ افسانہ آپ مجھے ای میل کر سکتی ہیں۔ نہ میں انھیں جانتی تھی اور نہ وہ مجھ سے واقف۔ میری تو کم علمی کا اعتراف یہ کہ میں اتنے بڑے نام سے ناآشنا تھی جبکہ مجھے جاننا کوئی ضروری نہیں تھا۔

ادبی دنیا میں یہ آغاز کا زمانہ تھا اور میری یہ نئی پہچان بہت سے مسائل کو جنم دے رہی تھی سو پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی بلکہ یوں کہیے محتاط پسندی میرا مزاج ہے، میں نے سادہ سا جواب دیا ”میں ہاتھ سے لکھتی ہوں، کمپوزنگ کی سہولت نہیں ہے میرے پاس“ ۔ دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔ اب مرحوم حامد سراج بھائی نے مجھے فون کیا ”سیمیں بہن مشرف عالم ذوقی انڈیا کے بہت بڑے ادیب ہیں، وہاں کے تارڑ سمجھیے، آپ کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے آپ کے افسانے پہ توجہ دی ہے، آپ کسی بھی طرح انہیں افسانہ بھیج دیجیے“ ۔ اس طرح ان کو فیس بک پر سرچ کر کے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی اور یوں ان سے آشنائی کا پہلا زینہ طے ہوا۔

اپنا مختصر سا تعارف کرایا اور بتایا کہ میرا ایک ناول آ چکا ہے، میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے مجھے کہا میں آپ کو پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ اپنا ناول بھیج دیجیے۔ میرے پبلشر کی مہربانی سے میرے پاس ناول کی سافٹ کاپی ہی نہیں تھی، بھلا زمانہ تھا، ڈاک چلی جاتی تھی اور ناول سپرد ڈاک کر دیا۔ ناول پہ حوصلہ افزائی جو انہوں نے فرمائی وہ الگ داستاں ہے اور یہ اس کا موقع نہیں۔ اس کے بعد میرے ایک افسانے پہ انہوں نے آن لائن مجھے کافی ڈانٹا مگر مجھے یہ سمجھ آ چکی تھی کہ اس دروازے سے مجھے بہت کچھ مل سکتا ہے۔

میں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ تعلقات میں اس وقت بہتری آ گئی جب ان کی عزیز از جان بیوی تبسم فاطمہ سے میری خوب دوستی ہو گئی اور ایک دوسرے سے بہت لمبے چوڑے رابطے نہ رکھ کر بھی میں اور تبسم ذہنی طور پہ ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئیں۔ افسانے پہ مختلف پہلوؤں سے ان سے گفتگو رہتی۔ اس گفتگو نے مجھ پہ یک تاثری افسانے سے جدید افسانے کے کینوس کے بھید کھولے۔ ان سے گفتگو نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ قدم قدم پہ میری رہنمائی کی۔

نہ صرف رہنمائی کی بلکہ انھوں نے مجھے اپنے خانوادے کا ایک حصہ ہی بنا لیا۔ اس وقت تک ذوقی صاحب کے چند ایک افسانے ہی پڑھے تھے اور بے ساختہ ان کو پڑھ کر یہ جانا کہ ایک قدیم دانش یہاں بہتی ہے مگر دل میں ان کو تفصیل سے پڑھنے کی شدید للک پیدا ہو چکی تھی۔ یہاں پھر مرحوم حامد سراج کام آئے، انہوں نے انڈیا سے مجھے ان کے تین ناول ”لے سانس بھی آہستہ، پوکے مان کی دنیا اور آتش رفتہ کا سراغ“ منگوا دیا۔ تینوں ناول موضوع کے اعتبار سے ایک الگ جہاں تھے مگر ان کے ناولوں میں ایک تکون ایک اشتراک میں نے دریافت کیا؛ ایک بچہ، ایک ڈھال جیسی مضبوط بیوی گویا تبسم فاطمہ جو ان کا عشق تھی اور وہ مصنف۔

اس گھرانے سے اتنی بے پایاں محبت ملی کہ وہ برملا حامد سراج بھائی کو کہتے تھے کہ سیمیں ہمارے گھر کا چوتھا فرد ہے اور مجھے یوں لگتا تھا کہ انڈیا میں بھی میرا ایک گھر بن گیا ہے۔ مجھے ایک اور اعتراف کر لینے دیجیے کہ ذوقی کی کائنات ادب و اخلاق کو سمیٹنے کے لیے ایک تحریر بہت ناکافی ہے، ایک ایسا شخص جس کا اوڑھنا بچھونا ادب تھا عشق تھا اور جو لکھے حرف سے عشق کرتا تھا، نئے لوگوں کی خود آگے بڑھ کر پذیرائی کرتا تھا اور ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ اچھی تحریر چاہے وہ کسی نو آموز کی ہی کیوں نہ ہو اسے کھل کر سراہتے بلکہ نئے ادیبوں اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش کسی عبادت کی طرح کرتے اور نئے لکھاریوں کی رہنمائی از خود کرتے، یہ ادا بھی بڑے ناموں سے یکسر مختلف تھی۔ ایک ایسا ادیب جسے غرور چھو کر نہیں گزرا، جو ادب کی پرخار وادی سے آشنا ہو کر بھی مصلحتوں اور منافقت سے دور تھا۔

پاکستان آنے کے شائق بھی تھے اور کئی فورمز کی جانب سے مدعو بھی تھے اور دونوں میاں بیوی نے مجھ سے ملنے کا وعدہ خصوصی کر رکھا تھا، میں بے یقین ہو کر کہتی سر! آپ اتنے بڑے ادیب ہیں، کیا مجھے ملنے آئیں گے اور ان کا جواب ہوتا ”بالکل سیمیں بس تم ہمیں ایک دعوت نامہ نما خط بھیجو جو ایمبیسی کو دکھایا جا سکے“ مگر یہ دورہ پاکستان ہندوستان کے تعلقات کی خرابی نذر ہو گیا۔

میرا دوسرا افسانوی مجموعہ ”شجر ممنوعہ کے تین پتے“ پہ میرے دونوں اساتذہ مرحوم علامہ ضیا حسین ضیا اور محترم مشرف عالم ذوقی نے جیسے میری رہنمائی کی وہ ناقابل فراموش ہے۔ ذوقی صاحب نے مسودہ پڑھ کر نہ صرف بغیر کہے اس کا فلیپ لکھا بلکہ ابتدائی لے آؤٹ بنا کر کہا لو اسے فیس بک پہ شیئر کر دو۔ میری حیرت بار بار مجھ سے سوال کیا کرتی تھی کہ کیا بڑے ادیب ایسے بھی ہوا کرتے ہیں؟ پھر جب میں نے ان کا تعارف علامہ ضیا حسین ضیا مرحوم سے کرایا اور ان کی تاکید پہ ان کی کتب ان کو انڈیا بھجوائیں تو انہوں نے تبسم فاطمہ کی ادارت میں نکلنے والے پرچے میں ان پہ گوشہ چھاپنے کا فیصلہ کر لیا۔

وہ شخص ایسا ہی مہربان و مہان تھا، بے لاگ صاف گو ادبی گروہ بندیوں سے دور اور ہر اہل شخص کو عزت مان دینے والا۔ اور جب ”ادب سلسلہ“ کے کچھ جرائد مجھے بھجوائے تو اپنے ناول ”نالۂ شب گیر“ سے بھی نوازا۔ تانیثیت پہ یہ ناول بلاشبہ بہت منفرد اور بڑا ناول ہے۔ جس پہ مجھے ان سے انٹرویو کی شکل میں سیر حاصل گفتگو کا موقع ملا۔ حسین یادیں ہیں کہ بکھری پڑی ہیں، اپنے حالات سے گھبرا کر شاید میں ادب کو تیاگ دیتی مگر میری روح نے جو ایک روزن خود کے لیے کھولا تھا، اسے ذوقی صاحب نے بند نہیں ہونے دیا۔

میرے لکھے حرف کو جو اعتبار و مان انہوں نے بخشا، اسی اعتبار نے مجھے قلم تھامے رکھنے پہ مجبور کیا۔ میرے دوسرے ناول کے لیے دی تحریک انھیں کی تھی۔ کس قدر اصرار تھا کہ اب دوسرے ناول پہ توجہ دو اور جو میں لکھ پائی تو اس میں ان کے حکم کا ہی پاس تھا اور اب جو اس راہبر کو کھو دیا ہے تو کون ہے جو فکر سے پوچھے گا کہ سیمیں کیوں نہیں لکھ رہی۔

میرے ناول کے لیے مجھے بار بار کہتے رہے کہ اس کی جلد کمپوزنگ کروا کر مجھے بھیجو۔ دل میں ہمیشہ ملال رہ جائے گا کہ وہ اسے پڑھ ہی نہ سکے۔ آخری دو برسوں میں انہوں نے جس برق رفتاری سے جنوں کی طرح لکھا، ان کی یہ رفتار مجھے حیران و پریشان کرتی تھی مگر میں انجان تھی کہ یہ اجل ہے جو ان سے لکھوا رہی ہے۔

”مرگ انبوہ“ پر میری رائے تنقیدی تھی جس کو انہوں نے جس خندہ پیشانی سے برداشت کیا، یہ ان کی ذات کا ایک اور مثبت پہلو میرے سامنے لایا کہ ایک اتنا بڑا ادیب میری تنقیدی رائے کو بڑی بسر و چشم قبول کر سکتا ہے۔

ان سے آخری گفتگو ان کے ناول ”مردہ خانے میں عورت“ کے حوالے سے ہوئی۔ پہلے کچھ جوابات دیے اور پھر اگلے سوال کے جواب میں بتایا سیمیں میں بہت بیمار ہوں اور پریشان ہوں، شہر سے باہر جن لوگوں سے ملا تھا وہ کووڈ پوزیٹو تھے۔ میں نے حسب معمول دعائیں دیں مگر مجھے خبر نہیں تھی کہ دعاؤں کی مستجابی کا وقت تمام ہو چکا ہے۔

دو دن بعد فیس بک پہ ان کے ابدی سفر کی منحوس خبر پڑھ لی۔ دل ابھی بے یقین تھا، میں پاگلوں کی طرح تبسم کا نمبر ڈائل کرتی رہی مگر رابطہ نہیں ہو سکا اور اس سے اگلے دن تبسم فاطمہ کے بھی اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی اطلاع آ گئی۔ عشق کی سب قسمیں ان دونوں نے نبھا دیں مگر ہم جیسے جو ان سے عقیدت و محبت کا دعویٰ رکھتے تھے خالی ہاتھوں میں حیرت لیے کھڑے ہیں اور ایک ہی سوال سامنے ہے کہ ذوقی ادب، اخلاق اور انسانیت کی جس منزل پہ کھڑا تھا، کیا کوئی اس خلاء کو پر کر سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments