شدید مڈل کلاس کے سنبھالے ڈبے اور فالتو سامان


ہمارے بزرگوں کی اکثریت نے بہت مشکل حالات میں، بہت کم اشیاء کے ساتھ گزارہ کیا ہے۔ انھیں چھوٹی سے چھوٹی چیز کی قدر بھی ہے اور پرانی یا خراب ہونے کے بعد اس کا متبادل استعمال بھی سوچ لیتے ہیں، کیونکہ جو حالات انھوں نے دیکھے ہیں اس میں چیز بڑی مشکل سے بنتی تھی۔

یہی وجہ ہے ہمارے ہر مڈل کلاس گھر میں، جہاں بزرگ حیات ہیں، سٹور ایسی چیزوں سے بھرے ہیں جو صرف امکانی استعمال کے لئے سنبھالی ہوتی ہیں۔ یہ الگ بات کے ان کے استعمال کی نوبت کبھی نہ آئے پر وہ چیزوں کو سنبھالنے والا خوبصورت مائنڈ سیٹ اب بھی ویسا ہی ہے۔

آج سٹور کی صفائی کرواتے ہوئے دادی اور پوتے کے درمیان ایک بہت دلچسپ مکالمہ ہوا، جو میں ساتھ کے کمرے میں بیٹھا سن رہا تھا۔ تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ من و عن پیش خدمت ہے :

بیٹا: دادو! یہ سٹور میں اتنی ساری خالی پلاسٹک کی بوتلیں کیوں پڑی ہیں؟
ماں جی: پتر! یہ اماں نصرت ہے ناں، اس کے لئے اکٹھا کرتی ہوں۔ تم لوگ تو پانی پی کر پھینک دیتے ہو، یہ کباڑی کو بیچ کر دو پیسے بنا لیتی ہے، تیرا کیا جاتا ہے۔

بیٹا: چلو ٹھیک ہے دادو مگر یہ آب زم زم کے بڑے بڑے کین ابھی تک سنبھالے ہیں آپ نے۔ حج سے آئے بھی کئی سال ہو گئے آپ کو۔
ماں جی: پتر! متبرک پانی آیا تھا اس میں، پھینکنے کو جی نہیں کرتا، جب تم لوگ کسی پکنک پر جاؤ گے تو اسی میں پانی بھر کے لے جانا، کام آ جائے گی۔ پھینک دیا تو پھر سے بازار سے خرید کر پیسے ضائع کرو گے۔

بیٹا: (مجبوراً متفق ہوتے ہوئے ) چلیں وہ سب ٹھیک ہے پر یہ کھجوروں کی گٹھلیوں کا کیا کام ہے؟
ماں جی: پتر! تیرے دادا کی وفات پر جمع کی تھیں، لوگ آیت کریمہ پڑھ کر گئے۔ میں نے سنبھال چھوڑیں چلو میری باری دوبارہ اکٹھی نہیں کرنی پڑیں گی۔

بیٹا: (جذباتی ہوتے ہوئے ) ایسے نہ بولیں دادو! اللہ آپ کی لمبی عمر کرے۔ اچھا چھوڑیں انھیں، یہ بتائیں یہ ریڈی میڈ سوٹوں کے خالی ڈبے پھینک دوں؟

اماں جی: نہیں پتر! تیرا باپ ہر عید پر ملازموں کو سوٹ لا کر دیتا ہے۔ میں ان ڈبوں میں ڈال کر انھیں دیتی ہوں تاکہ انھیں لگے ان کی عزت افزائی ہوئی ہے کوئی احسان نہیں۔ انھیں نام پڑھنا تو آتا نہیں، ڈبے میں ڈال کر دیتی ہوں تو خوش ہو جاتے ہیں۔

بیٹا: دادو! وہ سب ٹھیک ہے پر یہ فریج، ٹی وی اور واشنگ مشین کے گتے کے کارٹن تہہ کیے کیوں پڑے ہیں؟ انھیں تو پھینکیں۔

ماں جی: پتر! بڑے مضبوط ڈبے ہیں۔ میں نے سوچا اس میں سردیوں کے بعد کمبل اور رضائیاں ڈال کے پیک کرا دوں گی۔ میرے پرانے ٹرنک اور پیٹی اوپر پر چھتی میں پڑے ہیں، پر مجھ سے اب سیڑھیاں نہیں چڑھا جاتا۔ یہ نزدیک ہیں، مجھے آرام رہے گا۔

بیٹا: اچھا اس بڑے شاپر کا کیا کروں جس میں بجلی کا فالتو سامان پڑا ہے؟

اماں جی: فالتو کیوں، سب کام کا ہے۔ جب گھر بنا تھا تو میں نے سب زائد سامان یہاں رکھوا دیا۔ اب بھی جب گھر کا کوئی بلب یا سوئچ خراب ہوتا ہے تو میں الیکٹریشن کو کہتی ہوں، پہلے یہ ڈبہ دیکھے پھر بازار جائے۔ اکثر چیزیں یہیں سے نکل آتی ہیں۔

بیٹا: (لاجواب ہوتے ہوئے ) دادو! مگر یہ جیم کی خالی شیشیاں۔
اماں جی: (بات کاٹتے ہوئے ) تو پہلے اے دس توں سٹور وچ کی کر ریاں ایں۔ تیرا موبائل تے نہیں گواچ گیا؟ (پہلے تو یہ بتا کہ تو سٹور میں کیا کر رہا ہے، تیرا موبائل تو نہیں گم گیا؟)

بیٹا: نہیں دادو! وہ پاپا نے کہا تھا سٹور سے سب کاٹھ کباڑ اٹھا کر خالی کر دو، پاؤں دھرنے کی جگہ نہیں۔
اماں جی: خبردار اگر کسے شے نوں ہلایا۔ تیرا پیو ہے کتھے ایہنوں تے میں پچھنی آن میری چیزاں دے ویر کیوں پیا اے۔ (خبردار اگر کسی شے کو ہلایا۔ تیرا باپ ہے کہاں اسے تو میں پوچھتی ہوں کہ میری چیزوں سے دشمنی کیوں پڑی ہے۔)

آپ کیا سوچ رہے ہیں، میں اب بھی ساتھ والے کمرے میں بیٹھا ہوں۔ بھولے بادشاہو! یہ آخری جملہ میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں، مجھے پتا ہے آگے کیا ہونا ہے۔ اب بچے کے سامنے لتر کھاتا بندہ اچھا تو نہیں لگتا ناں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments