سلطنت عثمانیہ کی تقسیم: فرانس اور برطانیہ نے سو سال قبل کیسے مشرق وسطیٰ کے خطے اور تیل کا بندربانٹ کیا

نوربیرتو پیریدیس - نمائندہ بی بی سی


 

سان ریمو کانفرنس کے شرکا

سان ریمو کانفرنس کے شرکا

یہ واقعہ اپریل سنہ 1920 کا ہے جب فرانس اور برطانیہ نے ایک صبح اٹلی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک کانفرنس کا آغاز کیا۔ کانفرنس کا ایجنڈا مشرق وسطی میں سلطنت عثمانیہ کی تقسیم کو حتمی شکل دینا تھا۔

ٹھیک 101 سال پہلے 19 سے 26 اپریل تک جاری رہنے والی اس سان ریمو کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ لبنان اور شام فرانس کے ماتحت ہوں گے اور عراق اور فلسطین پر برطانیہ کا تسلط ہوگا۔

دنیا کی دو بڑی نوآبادیاتی طاقتوں کے مابین اس تقسیم پر چار سال پہلے ہی ایک خفیہ میٹنگ میں اتفاق کیا گیا تھا اور روس نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

سائکس- پکوٹ کے نام سے معروف اس معاہدے میں فرانس کی جانب سے فرانسوا جارجز پکوٹ اور برطانیہ کے سر مارک سائکس نے شرکت کی تھی۔

نہ صرف مشرق وسطی کے موجودہ نقشے بلکہ اس پیدا ہونے والے بہت سارے مسائل جو آج تک جاری ہیں ان کی بنیاد اسی موسم بہار میں رکھی گئی تھی۔

مشرق وسطی کے امور کے ماہر اور یونیورسٹی آف سرجی-پونٹوئز میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ژاں پال چینگنولاڈ کہتے ہیں: ‘سان ریمو میں جو کچھ ہوا اس کے نتائج بہت ہی ڈرامائی تھے۔ سالوں تک فرانس اور برطانیہ فیصلے کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ایسے ممالک وجود میں آئے جو خود کو ملک نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ وہ خودمختار نہیں تھے۔

‘اس میں کوئی شک نہیں کہ جو مسئلہ آج ہم فلسطین، لبنان، عراق اور شام میں دیکھ رہے ہیں وہ سنہ 1920 کی دہائی اور بعد کے سالوں کے واقعات سے وابستہ ہیں۔’

سنہ 2016 میں جب سائکس-پیکوٹ معاہدے کا سو سال مکمل ہوا تو میڈیا میں اس کے تعلق سے کافی دلچسپی نظر آئی، لیکن سان ریمو کانفرنس کے سو سال یونہی گزر گئے، گویا کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔

شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ سائکس-پیکوٹ معاہدے کو راز رکھا گیا تھا اور جب اس کی معلومات عام کی گئیں تو اسے ایک تاریخی واقعہ کے طور پر دیکھا گیا۔ برطانیہ اور فرانس دونوں ممالک کے سفارت کاروں کا خیال تھا کہ یورپ کے نظام کے تحت مشرق وسطی بہتر رہے گا۔

فلسطین

فلسطینی علاقوں میں بیلفور اعلامیے کو فلسطینیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا جاتا ہے

برطانیہ کے وعدے

عرب دنیا اس بات سے برسوں تک بے خبر رہی کہ برطانیہ اور فرانس کے مابین ہونے والے معاہدے میں ان وعدوں کو دفن کردیا گیا جو انگریزوں نے ان سے کیے تھے۔

برطانیہ نے عربوں کو یقین دلایا تھا کہ اگر وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرتے ہیں تو اس سے ان کے تسلط کا خاتمہ ہوجائے گا اور وہ خود مختار ملک کا درجہ حاصل کرلیں گے۔

کہا جاتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادیوں کی فتح وہ اہم موڑ ہے جہاں سے سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد کے منصوبے کے مطابق شام پر فرانس اور عراق اور فلسطین پر برطانیہ کا تسلط قائم ہوا۔

اور یہ سب کچھ لیگ آف نیشن (اقوام متحدہ سے پہلے ایک بین الاقوامی ادارہ) کی نگرانی میں ہوا۔

سٹین فورڈ یونیورسٹی میں برطانوی سلطنت کی ماہر تاریخ دان اور پروفیسر پریا سیتیا کا کہنا ہے کہ ‘برطانیہ نے مشرق وسطی میں عثمانی حکمرانی کے خلاف عرب ممالک کی بغاوت میں مدد کی۔ لیکن جنگ کے دوران برطانیہ نے علیحدہ علیحدہ قوتوں سے بہت سارے وعدے کیے۔

‘برطانیہ نے عربوں سے کہا کہ وہ فلسطین پر آزادانہ طور پر حکمرانی کرسکتے ہیں۔ انھوں نے فرانسیسیوں سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے درمیان کچھ علاقوں کو تقسیم کرلیں گے۔ اور پھر بالفور کے اعلامیہ میں انھوں نے فلسطین میں یہودیوں کو ایک وطن فراہم کرنے کا وعدہ کر لیا۔’

‘وہ آزادی کے لیے تیار نہیں’

لیکن سان ریمو کانفرنس میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ لایڈ جارج فرانسیسی حکومت کے سابق سربراہ الیگزینڈر ملرینڈ، اس وقت کے اطالوی وزیر اعظم فرانسسکو نِٹٹی اور جاپانی سفیر کشیرو ماتسوئی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مشرق وسطی کا علاقہ مکمل آزادی کے حصول کے لیے تیار نہیں ہے۔

پروفیسر چینگنولاڈ کا کہنا ہے کہ ‘فرانس اور برطانیہ نے پہلے ہی مشرق وسطی کی تقسیم کردی تھی۔ سان ریمو میں ہونے والی بات چیت ان علاقوں میں انتظامیہ کے حقوق کے فیصلے پر مرکوز تھی۔ فلسطین اور بالفور اعلامیہ کے بارے میں ایک طویل بحث ہوئی جو کئی گھنٹے جاری رہی۔’

بالفور اعلامیہ پر دو نومبر سنہ 1917 کو پہلی عالمی جنگ کے دوران ہی دستخط کر دیے گئے تھے۔ اس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کو گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔

برطانیہ اور فرانس نے لیوانٹ کے علاقے کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ لیوانٹ کا علاقہ شام، اردن، اسرائیل، لبنان، فلسطین اور ترکی کے بیشتر حصوں پر مشتمل ہے۔

لبنان کو عیسائیوں اور ڈروز افراد کی پناہ گاہ کے طور پر دیکھا گیا۔ فلسطین کا انتخاب یہودی برادری کے لیے کیا گیا تھا۔ جبکہ لبنان اور شام سے متصل وادی بیکا کو شیعہ مسلمانوں کا علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ شام سنی مسلمانوں کےلیے مختص کیا گیا۔

سان ریمو کانفرنس کے شرکا

پنسل اور سکیل سے تیار نقشے

جب دنیا کے اس علاقے کے نقشے کو دیکھا جاتا ہے تو اس بات کی بہت حد تک تصدیق ہو جاتی ہے۔

بہت سارے ماہرین اس بات سے متفق ہیں کہ مشرق وسطی کے ممالک کی سرحدوں کو اس خطے کی معلومات کے بغیر پنسل اور سکیل کی مدد سے نقشے پر کھینچا گیا تھا۔

فرانس اور برطانیہ نے اس خطے میں آباد لوگوں کی نسل، برادری اور زبان کے اختلافات کو نظرانداز کردیا۔

سان ریمو کانفرنس میں کچھ چیزوں پر اختلافات تھے۔ فرانس اور برطانیہ کے مابین بہت سے معاملات پر مکمل اتفاق رائے نہیں تھا۔

پروفیسر ژاں پال چینگنولاڈ کا کہنا ہے کہ ‘فرانس نے بالفور اعلامیہ کی حمایت کی تھی لیکن وہ فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق کی ضمانت دینا بھی چاہتے تھے۔ دونوں ممالک کے مابین اس معاملے پر سخت بحث ہوئی۔’

اس سے پہلے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ امریکیوں کے زیر قبضہ علاقے میں برطانوی مینڈیٹ نافذ ہوگا یا نہیں، لیکن مہینوں تک جاری رہنے والے سفارتی مذاکرات کے بعد برطانیہ فرانس کو اس علاقے کی تنظیم نو میں شامل کرنے پر راضی ہوگیا۔

لیو ایمرے

بالفور معاہدے کا مسودہ طیار کرنے والے لیو ایمرے

امریکہ کا کردار

کالج ڈے فرانس میں عرب دنیا کی معاصر تاریخ کے پروفیسر ہنری لارنس کا کہنا ہے کہ ‘فرانس کو اپنے منصوبے میں شامل کرنے پر برطانیہ اس لیے راضی ہوگیا کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ پورے مشرق وسطی کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں۔’

امریکہ اس مذاکرات سے وارسا کے معاہدے کی سینیٹ سے منظوری کے بعد پیچھے ہٹ گیا۔ وارسا معاہدہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا۔

سان ریمو کانفرنس میں آرمینیا اور کردوں کے لیے علیحدہ ریاست کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکہ نے آرمینیا کے لیے مینڈیٹ جاری کرنے سے انکار کردیا۔ کانفرنس میں سلطنت عثمانیہ کے کچھ علاقوں کی تقدیر پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

چار ماہ بعد اگست سنہ 1920 میں سیوریس معاہدہ ہوا جس میں عثمانی حکمرانوں نے ہارے جانے والے علاقوں پر برطانیہ اور فرانس کے تسلط کو قبول کر لیا۔

یہیں سے سلطنت عثمانیہ کے زوال اور ترکی کے قیام کی بنیاد پڑی اور تین سال بعد ترکی معرض وجود میں آیا۔

سیوریس معاہدے کو باقاعدہ طور پر سان ریمو کانفرنس میں ہی عملی جامہ پہنایا گیا۔

سائس پیکٹو

تقسیم کے تین اصول

ابتدا میں سائکس- پیکوٹ معاہدے کے تحت یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ مشرق وسطی کو آزاد ممالک میں تقسیم کیا جائے گا اور عراق میں کنٹرول والے علاقوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔

لیکن سنہ 1919 کے آغاز کے ساتھ ہی یہ منصوبہ ترک کردیا گیا۔ جب یہ طے ہو گیا کہ صرف ایک کام کرنا باقی ہے اور وہ تھا ان کے زیر نگیں علاقوں کی حدود کا تعین۔

سان ریمو کانفرنس میں نوآبادیاتی قوتوں نے اس کے لیے تین رہنما اصولوں کو بنیاد بنایا۔ پہلے اصول کے تحت فلسطین کو بائبل سے منسلک کیا گیا۔

پروفیسر ہنری لارنس کا کہنا ہے کہ ‘دوسرا اصول یہ اپنایا گیا کہ فرانس اپنے زیر اقتدار علاقوں میں یہودی آباد کاری نہیں چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے لبنان اور شام کے درمیان ایک چھوٹا سا علاقہ گیلالی فرانسیسی زیر کنٹرول شام کی بجائے فلسطین میں قائم برطانوی راج میں شامل کیا گیا کیونکہ وہاں یہودی آبادیاں تھیں۔’

اور آخری یہ کہ برطانیہ چاہتا تھا کہ فلسطین اور عراق اس کے زیرنگیں رہیں۔

پروفیسر ہنری لارنس کا کہنا ہے کہ ‘اگر ہم نقشے پر نظر ڈالیں تو عراق سے اردن تک کا علاقہ ایک راہداری کی طرح محسوس ہوتا ہے اور شام کی سرحد سعودی عرب کے ساتھ نہیں ملتی ہے۔’

سان ریمو کانفرنس کا ایک منظر

فرانس اور برطانیہ نے صرف نقشہ کھینچا

پروفیسر ہنری لارنس کا کہنا ہے کہ اگرچہ فرانس اور برطانیہ نے مشرق وسطی کا نقشہ کھینچا تھا لیکن زمین پر موجود بااثر افراد نے آہستہ آہستہ اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

وہ کہتے ہیں: ‘یروشلم کے بااثر افراد نے فلسطین، بیروت کے سیاسی خاندانوں نے لبنان کو اپنے قبضہ میں لیا اور جن لوگوں کا دمشق اور بغداد میں اثر و رسوخ تھا انھوں نے شام اور عراق کی کمان سنبھالی۔’

تاہم ایسا ہونے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔

اس میں زیادہ وقت نہیں لگا جب مشرق وسطی کے ایک خطے سے دوسرے خطے میں جانے والے لوگوں کو غیر ملکی کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

پروفیسر ہنری لارنس کا کہنا ہے کہ ‘سنہ 1930 کی دہائی تک عراق میں پیدا ہونے والا ایک شامی شخص غیر ملکی سمجھا جانے لگا۔ سنہ 1948 میں جب ایک فلسطینی مہاجر شام، لبنان یا اردن میں داخل ہوا تو اسے غیر ملکی کہا گیا۔

ٹوٹل

ٹوٹل دنیا کی بڑی تیل کمپنی میں شمار ہے لیکن اس کی پیدائش سان ریو میں ہونے والی میٹنگ میں مضمر ہے

ایک اور سان ریمو کانفرنس

اسی ہفتے سان ریمو میں ایک اور کانفرنس ہورہی تھی جس کے ایجنڈے میں مشرق وسطی میں تیل کے وسائل کی تقسیم تھی۔

پہلی جنگ عظیم کے دوران ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ عظیم طاقتوں کے لیے توانائی کے اپنے وسائل رکھنا کتنا اہم ہے۔

ہنری لارنس نے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ایک بار جب علاقوں پر کس کا تسلط ہوگا اس بات کا تعین ہو گیا اس کے بعد برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کے ‘بلیک گولڈ’ یعنی تیل کے لیے بات چیت کا آغاز کر دیا۔

اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فرانس کو ترکی کی پٹرولیم کمپنی کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ بعد میں یہ کمپنی عراق پیٹرولیم کمپنی بن گئی۔

ہنری لارنس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ‘بعد میں تکنیکی وجوہات کی بنا پر فرانس کا حصہ کم کر دیا گيا۔ لیکن تیل کی کان کنی اور شیئرنگ پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp