ضیا شاہد المعروف”چیف صاحب”



خاکسار ان دنوں مختلف اخبارات و رسائل میں اپنے بغیر لگی لپٹی رکھے لکھے جانے والی تحریروں کی وجہ سے کافی نام بنا چکا تھا۔ 90 کی دہائی میں روزنامہ کائنات، اساس، اوصاف، جنگ اور دیگر جگہوں پر شائع ہونا معمول کی بات تھی، روزنامہ خبریں لاہور میں حسن نثار کے کالم ”چوراہا“ میں خاکسار کے متعدد ایسے خطوط شائع ہوئے کہ پڑھنے والے بھی چونک سے گئے، یاد آ رہا ہے کہ جب حامد میر روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر تھے تو اس میں میرا ایک آرٹیکل ”جنرل صاحب!پولیس کو بھی جلاوطن کر دیجیے“ شائع ہوا جس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی رانوں میں ڈرل مشینوں سے سوراخ کرنے پر پولیس کے خلاف جنرل مشرف کو سخت ایکشن لینے کو کہا گیا تھا۔

پتا نہیں کس طرح خاکسار کا یہ آرٹیکل لندن بیٹھے الطاف بھائی کی نظروں میں آ گیا اور انہوں نے نائن زیرو والوں کو خاکسار کے پیچھے لگا دیا اور وہ دن رات ٹیلی فون کالز کر کر کے مجبور کرنے لگے کہ میں پارلیمنٹ ہاؤس کے چیمبرز میں جا کر اس وقت کے متحدہ کے وفاقی وزرا بابر غوری، صفوان اللہ اور عامر لیاقت وغیرہ سے ملوں جو کہ کمرہ نمبر 206 میں خاکسار کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہوں گے۔

جب خاکسار نے انکار کیا تو جنوبی پنجاب کے متحدہ کے ایک رہنما غلام علی بخاری کو متحدہ کے لوگوں سے ملنے ملانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی لیکن خاکسار پھر بھی ملاقات پر آماہ نہ ہوا کہ شاید وہ متحدہ کا ہمدرد سمجھ کر متحدہ میں شامل کرنے کی سوچ پالے پھر رہے تھے اور ایک لکھنے والے کا کسی سیاسی جماعت سے کیا لینا دینا؟

خیر یہ واقعہ تو یونہی برسبیل تذکرہ یہاں لکھ دیا گیا ہے ، اصل بات یہ بتانی تھی کہ لکھنے والے اپنی تحریروں کی وجہ سے ایسے معاملات فیس کرتے رہتے ہیں، جناب ضیاء شاہد بھی کافی عرصہ سے خاکسار کے دوٹوک انداز کو پسند کرتے چلے آ رہے تھے اور پھر ایک روز جب ”خبریں کی خبریں ہی خبریں ہوتی ہیں“ کے عنوان سے تحریر لکھی تو ضیا شاہد صاحب کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے گھر کے نمبر پر دھڑا دھڑ پہلے تو کئی کالز کیں اور جب رابطہ نہ ہو سکا تو ایک خط لکھ مارا جس میں فوراً سے پہلے رابطہ کرنے کو کہا گیا تھا۔

خاکسار نے فون کیا تو انہوں نے فوراً لاہور آنے کو کہا۔ جب خاکسار ان کے پاس پہنچا تو ان کے خوبصورت کمرے میں فلم سٹار افضال احمد، عجب گل اور فلم پروڈیوسر حسنین (یہ وہی حسنین ہیں جن کی اہلیہ اداکارہ چاندنی ان دنوں ممتاز سٹیج اداکار نسیم وکی کی اہلیہ ہیں) ہیں، ضیا شاہد نے خاکسار کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ان سب لوگوں سے کہا:

”میرا جھنگ سے مہمان آ گیا ہے، اب آپ لوگ تشریف لے جائیں“

سچی بات ہے کہ اتنے بڑے فنکاروں کے ساتھ ضیا شاہد صاحب کا ایسا انداز خاکسار کو اس وقت بھی نہ بھایا تھا، خیر افضال احمد نے کہا:

”ضیا صاب! مینوں اک سگریٹ پی لین دیو“

لیکن ضیا صاحب نہ مانے اور ان تینوں کو وہاں سے جانا ہی پڑا تھا، پھر ضیا صاحب سے گفتگو شروع ہو گئی اور پہلے ہی روز خاکسار کو کاغذ و قلم پکڑا کر ضیا صاحب کے انٹرویو پینل میں شامل کر دیا گیا۔ وہ سوالات شاید ممتاز شفیع (شفیع جنہیں سب، م ش ”کہا کرتے تھے ) تھے اور اطہر عارف نے مل کر تیار کیے تھے؟ لیکن ان سوالات کے جواب خاکسار نے پورا دن اور، رات کا کافی حصہ لگا کر نوٹ کیے اور، اگلے روز رنگین ایڈیشن میں “رپورٹ ”بھی خاکسار کے نام سے ہوئے جس پر خاکسار کو بہت خوشی اس لیے بھی ہوئی کہ مبارک بادیں رکنے ہی میں نہ آ رہی تھیں۔

اصل میں خبریں اخبار ان دنوں میڈیا انڈسٹری میں کمال انقلاب لا چکا تھا اور سچی بات ہے کہ اگر اسے ٹرینڈ سیٹر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنا اس کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ تھا، غریب اور مظلوم لوگوں کی جرأت مندانہ آواز بن چکا تھا اور اس سارے کے پیچھے واحد ضیا شاہد کی ذات تھی۔

لوگ انہیں بلیک میلر بھی کہتے تھے لیکن خدا گواہ ہے کہ اس بات بارے کبھی کوئی چیز نہ دیکھی نہ سنی اور خاص طور پر ضیا شاہد کی سطح پر ایسا سوچنا بھی شاید عجیب سا ہو گا کہ وہ ایک خاصے سخت مزاج سے منتظم تھے اور ان سے بے تکلفی سے بات کرنے کے لیے ان کی اہلیہ یاسمین شاہد ہی آسانی محسوس کرتی تھیں اور کسی کو عام سی بات کا حوصلہ نہ پڑتا تھا اور ایسی ویسی بات کرنا تو خاصے دل گردے کا معاملہ ہوا کرتا ہے، وہ اپنے کارکنوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور اگر کوئی کسی دھمکی کی بات کرتا تھا دھمکی دینے والے کو پھر پتا چلتا تھا کہ اس نے کس ادارے کے بندے کو للکارا ہے۔

ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ کسی کو ان دنوں خاطر میں نہ لاتے تھے اور اس کی وجہ خبریں کی بے پناہ مقبولیت تھی، ان کے کارکنان مظلوموں کے گھر پہنچ جاتے تھے اور پھر کیمرے اور قلم کے کمال سے اس زیادتی کرنے والے کو ایسا بے نقاب کیا جاتا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے اپنی گرفت میں لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔

بااثر لوگوں کو للکارنے کی ریت پرنٹ میڈیا میں یوں ڈالنے کا کریڈٹ بھی ضیا شاہد کو جاتا ہے۔ وہ بادشاہ گر آدمی تھے، ممتاز، شاعر خالد مسعود خان پچھلے دنوں ایک کالم لکھ کر اعتراف کر چکے کہ انہیں کالم نگار ضیا شاہد نے بنایا ہے اور جاوید چودھری کی اٹھان بھی اسی اخبار سے ہوئی تھی اور اگر آپ حسن نثار کی طرف دیکھیں تو جب تک وہ ’مساوات‘ میں تھے تو انہیں شاید پیپلز پارٹی کے چند لوگ ہی جانتے ہوں گے لیکن روزنامہ خبریں میں“ چوراہا ”شائع ہوا تو حسن نثار ایک بڑا نام بن کر سامنے آ گیا اور وہ خود بھی مانتے ہیں کہ خبریں سے میں نے دوسرا جنم لیا۔

اب اتفاق دیکھیں کہ اسی حسن نثار سے بعد میں پولیس افسر دوست طاہر عالم کی وجہ سے ضیا شاہد کی ان بن ہوئی اور اس معاملے کے باوجود ضیا شاہد کے بیٹے عدنان شاہد حسن نثار کو بڑے احترام سے ”انکل انکل“ کہتے ہوئے ملتے تھے، یہ عدبان شاہد ضیا شاید کو بہت عزیز تھے اور ان کی موت نے ضیا شاہد کو توڑ کر رکھ دیا تھا ورنہ وہ کسی چٹان سے کم نہ تھے، دکھ کی بات یہ ہے کہ عدنان والد ضیا شاہد کا علاج کروانے امریکہ لے گئے اور وہاں اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے تھے۔

اب پیچھے امتننان شاہد اور بیٹی ڈاکٹر نوشین عمران کے علاوہ بیگم یاسمین شاہد ہیں، امتنان شاہد بھی بڑے بھائی کی طرح میڈیا انڈسٹری سے اب مکمل طور پر واقف ہو چکے ہیں لیکن ضیا شاہد کا مضبوط سہارا، سائبان، اعتماد اور حوصلہ افزائی اب ان کے پاس نہ رہے ہیں، اب انہیں ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہو گا کہ کبھی جو ضیا شاہد کی وجہ سے اس گروپ کی طرف میلی نظروں سے دیکھ نہ پاتے تھے ، اب وہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے ناپاک قدم بڑھا سکتے ہیں۔

بہرحال ضیا شاہد ایک نام تھا پرنٹ انڈسٹری کا اور اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ اللہ کرے کہ ان کا لگایا پودا اسی طرح پھلتا پھولتا رہے جس طرح کہ ان کی زندگی میں پھلتا پھولتا رہا تھا۔ اولاد باپ کی وراثت کو اچھے طریقے سے اگلی نسلوں تک منتقل کرے تو باپ کی روح کو سکون ملتا ہے اور امید ہے کہ امتنان شاہد یہ فریضہ بھی بطریق احسن انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔

آخری بات یہ کہ چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں جناب ضیا شاہد کا انتقال کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، پرنٹ میڈیا میں کبھی ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ سے ان کے اخبار  نے ایک دنیا کو لرزا دیا تھا اور کرپٹ عناصر اس اخبار کا نام سن کر ہی گھبرانے لگ جاتے تھے اور ان دنوں خالد مسعود، خان، جاوید چودھری، ہارون الرشید، حسن نثار وغیرہ اس اخبار کے ماتھے کا جھومر ہوا کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں ”مولانا ڈیزل“ کے عنوان سے خالد سلطان کے نام سے لکھے جانے والے قسط وار کالم (باؤنسر) کا ”اصلی تے وڈا“ حوالہ میجر (ر) عامر تھے اور اسی اخبار میں ان کے بیٹے عدنان شاہد بھی کالم لکھتے تھے جن پر اخباری صنعت کی ایک میٹنگ میں یہ الزام تک لگا تھا کہ

”آپ کے کالم آپ کو آپ کے والد لکھ کر دیتے ہیں“

اور عدنان شاہد کی آنکھوں میں یہ الزام سن کر آنسو آ گئے تھے۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی جباب ضیا شاید جنہیں ان کے بیٹے اور ہم سب ”چیف صاحب“ کہا کرتے تھے کو جنت الفردوس میں جگہ دے کہ لفظ کی حرمت کے پاسبان اب بہت کم ملتے ہیں اور قلم کو کسی مظلوم کے حق میں تلوار بنانے والے بھی ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments