سیاسی تماشا اور جمہوریت


مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ (جان کی امان پاؤں تو) موجودہ دور میں دل کے ساتھ ساتھ سیاست میں سے شرم، حیاء اور اخلاقیات کا بھی جنازہ اٹھ گیا ہے۔ دوسری طرف سیاسی پختگی کی دیوار میں بھی شگاف پڑنا شروع ہو چکا ہے۔

جب سیاسی انتقام کی ہوس گھر کی چار دیواری کو روند ڈالے۔ جب سیاسی مقاصد کے لیے صنف نازک کی چادر کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔ جب گالم گلوچ سیاسی ثقافت بن جائے۔ جب کارکردگی کی بجائے وزراء اپوزیشن کو بدنام کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مشغول ہوں۔ جب اپوزیشن اپنی باری کے انتظار میں عوام کی بجائے غیر جمہوری قوتوں کی طرف نظریں لگائے رکھے تو جمہوریت کیونکر پنپ سکتی ہے؟۔

جس ملک کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہو۔ جہاں معاشی ترقی منفی میں ہو۔ جہاں زراعت اور انڈسٹری کا پہیہ جام ہو چکا ہو۔ جہاں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت آسمان کو چھو رہی ہو۔ جس نظام میں تعلیم اور صحت کا بیڑہ غرق کر کے، ہسپتال اور تعلیمی ادارے کاروبار کے اڈے بن جائیں۔ جس ملک میں ادارہ جاتی ناہمواری ہو۔ جس ملک میں بدانتظامی انتہاؤں کو چھو رہی ہو۔

ایسا معاشرہ جہاں پر ملازمین تنخواہوں کے حصول کے لیے لاٹھی چارج کا سامنا کرتے ہو۔ جہاں سیاست دان لوٹے ہو کر اپنے ضمیر کو بیچ کر فخر محسوس کرتے ہوں۔ جس ملک کا وزیراعظم اتفاق کی بجائے نفاق کا ذریعہ بن کر طعنے بازوں کا گرو بن جائے، جب سیاسی جماعتیں سیاسی مداریوں اور جاگیرداروں کے کلب بن جائیں۔ جس معاشرے میں چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کو سرپرستی کا سایبان میسر ہو۔ جس سماج میں قلم بک جائے۔ جہاں پر بکاؤ مال صحافیوں کی منڈی لگتی ہو۔ جہاں پر میڈیا کمرشلزم کا آلہ کار بن کر صحافت کے معزز پیشے کو داغدار کرے، وہاں کے غیر جمہوری نظام کو جمہوری کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔

یہاں سیاست ایک بھونڈا مذاق بن کے رہ گئی ہے۔ سیاسی وضع داری، رواداری، برداشت، مثبت تنقید، کارکردگی، اقدار اور روایات  سے ہم محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

کیا ایسے بدبودار تماشے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے نئے سوشل کنٹرکٹ کو میثاق پاکستان کے نام سے لاگو کیا جا سکے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments