زرد دوپہر کی تپش


اکثر ہم پاکستان ٹیلی وژن پر یہ الزام سنتے آئے ہیں کہ اس میں ہمیشہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے چاہے خبریں ہوں ڈاکومنٹری ہو یا پھر کوئی ڈرامہ۔ غرض یہ کہ ہر طرف سب اچھا ہے کا ہی شور سنائی دیتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ کچھ عرصے میں کورونا کی بدولت ملی فرصت نے کچھ ایسے ماضی کے ڈراموں کو دیکھنے کا موقع دیا کہ خاصی حیرانی ہوئی کہ کیا واقعی پاکستان ٹیلی وژن پر ایسا تخلیقی اور انقلابی متن میسر ہوا کرتا تھا؟ میں آج دو ایسے ماضی کے ڈراموں پر بات کرنا چاہوں گا جو گویا پچیس سے تیس برس پہلے کے ہیں مگر ان میں چھپا سیاسی طنز، آمریت کے اندھیروں اور نام نہاد جمہوری علمبرداروں کو بے نقاب کرنے کی بے باک جستجو آج بھی روح کو گرما دیا کرتی ہے۔

شاید اس وقت کی سیاسی گھٹن اور آج کے سماج میں پیوستہ فکری افلاس میں کچھ زیادہ فرق موجود نہیں ہے۔ یہ 1988 کا دور ہے جب ضیائی آمریت کے انہدام کے بعد اسٹوڈنٹ سیاست اور جمہور کی آزادی کے نعروں نے گویا ایک سماں باندھ دیا تھا۔ ہر طرف مساوات، جمہوری اقدار اور اظہار رائے کی آزادی کا جم کر پرچار کیا جا رہا تھا۔ ایسے میں نور الہدیٰ شاہ کی جاندار تحریر اور سائرہ کاظمی کی دل کو موہ لینے والی ہدایت کاری کے ساتھ کراچی سینٹر سے ”تپش“ ڈرامہ ہمارے سامنے آیا۔

”تپش“ میں نوجوان طلبہ کی مساوات اور آزادی کے لئے جدوجہد کو بہت زور شور سے بیان کیا گیا کہ کیسے چند جوشیلے طلبہ کا گروپ ایک روشن خیال سماج اور ایک نظریاتی و مثالی سیاست کے خوابوں سے لبریز ہو کر نام نہاد لبرل اور روشن خیال سیاست دان کے سیاسی ہتھکنڈوں کا شکار بن جاتا ہے اور ان طلبہ کو نہ صرف تعلیمی اداروں سے نکال دیا جاتا ہے بلکہ ان کو زندان میں دھکیل کر لاپتہ افراد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ جس روشن خیال سیاست دان کو مسیحا سمجھتے ہوئے یہ طلبہ اپنی زندگی کے تاریک ترین دور میں داخل ہوتے ہیں وہی سیاسی مسیحا چور دروازے سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کو پس پشت ڈال کر اقتدار کی اونچی مسند تک پہنچنے کی جدوجہد شروع کر دیتا ہے۔

”تپش“ میں بہت گہرائی سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ کیسے مفاد پرست سیاست دانوں کا ٹولہ دستور کی حرمت کا مذاق اڑاتے ہوئے انتخابی نظام اور افسر شاہی کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ان بے حس سیاست دانوں کے لئے سیاسی و نظریاتی کارکن محض ایک آلہ ہوتے ہیں ، جن کے جوش کو وقتی سیاسی فائدے کے لئے صرف بہ وقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے اور پھر مطلب نکلنے پر ٹشو پیپر کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی میں کس طرح جوشیلے طلبہ اور بے لوث سیاسی کارکنوں کو سیاسی غنڈوں کے ذریعے ذلیل کیا جاتا رہا، ان کی عکاسی تپش میں ہمیں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہے۔

نظریاتی طلبہ کے کردار میں جمال شاہ، روبینہ اشرف اور خالد انعم کی جاندار اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ ایک شاطر سیاست دان کے کردار میں شفیع محمد مرحوم بھی اپنے فن کی بلندیوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ تپش دیکھ کر مجھے شدت سے اندازہ ہوا کہ آج بھی ہمارے سیاسی کلچر میں ترغیب، دھونس، سام، دام، ڈھنڈ، بھید کی آمیزش کم نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ نظریاتی سیاست کا نعرہ اس لمحہ موجود میں محض چسکہ فروشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

فیض کا کلام، ٹینا ثانی کی مدھر آواز اور ارشد محمود کی انمٹ موسیقی سے آراستہ ڈرامہ ”تپش“ اپنے آپ میں کسی سوغات سے کم نہیں۔ اسی طرح سن 93 میں جب نواز شریف صاحب اپوزیشن میں تھے تو لاہور سینٹر سے ”زرد دوپہر“ کے عنوان سے سیاسی تھیم پر مبنی ایک لازوال ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اس بولڈ مگر معیاری ڈرامے کی ہدایت کاری سے تحریر تک کے تمام فرائض پی ٹی وی کے کہنہ مشق ڈائریکٹر شاہد محمود ندیم نے کمال مہارت سے انجام دیے۔

یہ ڈرامہ اندرون لاہور کے معروف صنعت کار ملک مہربان علی کے گرد گھومتا ہے جو دھیرے دھیرے اپنی شاطرانہ فطرت اور خوشامدی خصلت کی بدولت کیسے ہماری سیاست کے پس پردہ کرداروں کی مدد سے اپنا سیاسی سفر کونسلر سے وزارت تک جاری رکھتا ہے؟ ڈرامے کا دلچسپ منظر وہ ہے جب اپنے اجڈ پن کو ملک مہربان علی ایک عیار اور گھاگ سیاست دان کی چال ڈھال سے بدلتا رہتا ہے؟ ملک مہربان علی اصل میں ہمارے روایتی سیاسی کلچر کا وہ کردار ہے جو اپنے آپ کو شعبدہ باز حرکات اور پیسے کی ریل پیل کی بدولت کم وقت میں لمبی ریس کے گھوڑے میں ڈھالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

لیکن پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب اپنے ہی گناہوں کے بوجھ تلے وہ ایک سیاسی اثاثے سے ایک سیاسی بوجھ کی شکل اختیار کرتا ہے اور کیسے رنگ ماسٹرز اس سے کنی کترا جاتے ہیں؟ بلا شک و شبہ ”زرد دوپہر“ ہر دور کا ایک بولڈ اور بے باک ڈرامہ ہے جو ہماری قومی سیاست میں متحرک پس پردہ کرداروں پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالتا ہے جس سے کنٹرولڈ جمہوریت کے تصور کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ معروف اداکار شجاعت ہاشمی نے ملک مہربان علی کے کردار میں بلاشبہ اپنی معیاری اداکاری سے چار چاند لگا دیے ہیں اور وہی اس ڈرامے کے مدار المہام دکھائے دیتے ہیں۔جبکہ ایک متحرک سیاسی ایجنٹ کے طور پر مرحوم ڈاکٹر انور سجاد بھی اپنی موجودگی کا بخوبی احساس دلانے میں کامیاب رہے ہیں۔

بحیثیت مجموعی ”زرد دوپہر“ اور ”تپش“ لاہور اور کراچی کی سیاست کے معروض میں ہمارے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن اور نظریاتی کنگالی کو مہارت سے اجاگر کرنے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سیاست کے گلیارے آج بھی انہی سیاسی و غیر سیاسی آلائشوں سے لتھڑے ہوئے ہیں جن کی عکاسی ان ڈراموں میں دہائیوں پہلے کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments