حلقہ این اے 249، کیا ہونے جا رہا ہے؟


آج کے ضمنی الیکشن کا جائزہ لینے سے قبل حلقہ کی ساخت اور حلقہ کی انتخابی تاریخ کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ دو ہزار سترہ کی حلقہ بندی سے قبل دو ہزار دو سے دو ہزار تیرہ کے انتخابات تک، موجودہ حلقہ این اے 249 دو حلقوں این اے 239 اور این اے 240 کے حصوں پر مشتمل تھا۔ این اے 240 کا لگ بھگ چالیس فیصد حصہ اور این اے 239 کا ساٹھ فیصد حصہ، مل کر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں 249 بنا تھا۔ دو ہزار دو سے پیچھے یعنی انیس سو پچاسی سے انیس سو ستانوے تک یہ حلقہ این اے 184 کا نوے فیصد اور این اے 185 کا دس فیصد حصے پر مشتمل تھا۔

انیس سو ستتر کے الیکشن میں جو حلقہ 183 تھا، اب یہ مکمل این اے 249 ہے۔ اسی طرح انیس سو ستر کے الیکشن میں یہ 128 تھا۔ اب انتخابی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں این اے 249 سے پاکستان تحریک انصاف کے فیصل واوڈا نے پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما شہباز شریف کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ فیصل واوڈا کو یہ برتری لگ بھگ سات سو ووٹوں سے نصیب ہوئی تھی۔ دو ہزار تیرہ میں این اے 239 سے ایم کیو ایم کے سلمان مجاہد جیتے تھے جبکہ این اے 240 سے ایم کیو ایم کے خواجہ سہیل جیتے تھے۔

دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں این اے 239 سے پی پی پی کے عبدالقادر پٹیل جیتے تھے اور این اے 240 سے خواجہ سہیل منصور پہلی بار جیتے تھے۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں این اے 239 سے حکیم قاری گل رحمان، ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جیتے تھے جبکہ این اے 240 سے ایم کیو ایم کے سرکار الدین جیتے تھے۔ انیس سو ستانوے میں حلقہ این اے 184 سے مسلم لیگ نون کے میاں اعجاز شفیع جیتے تھے، جبکہ این اے 185 سے حق پرست گروپ (ایم کیو ایم ) کے اے کے شمس نے کامیابی سمیٹی تھی۔

انیس سو ترانوے میں حلقہ این اے 184 سے میاں اعجاز شفیع، مسلم لیگ نون کے پلیٹ فارم سے جیتے تھے جبکہ این اے 185 سے پی پی پی کے محمد آفاق خان نے فتح سمیٹی تھی۔ انیس سو نوے کے انتخابات میں ایم کیو ایم (حق پرست گروپ) کے عرفان خان نے این اے 184 سے فتح پائی تھی جبکہ این اے 185 سے ایم کیو ایم کے سید سلیم الحق جیتے تھے۔ انیس سو اٹھاسی کے انتخابات میں حلقہ این اے 184 سے پی پی پی کے سید حیدر کاظمی جیتے تھے جبکہ این اے 185 سے سید سلیم الحق نے آزاد حیثیت سے معرکہ سرانجام دیا تھا۔

انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں این اے 184 سے پنجابی پختون اتحاد کی سپورٹ سے میر نواز خان مروت جیتے تھے جبکہ این اے 185 سے شاہ بلیغ الدین نے کامیابی سمیٹی تھی، یہ مقبول مذہبی رہنما و مبلغ تھے۔ انیس سو ستتر کے انتخابات میں حلقہ 183 سے پی این اے کے پلیٹ فارم سے سردار شیر باز خان مزاری جیتے تھے۔ انیس سو ستر کے الیکشن میں اس حلقہ کا نمبر 128 تھا اور یہاں سے ایم جے یو پی کے پلیٹ فارم سے مولانا عبدل مصطفی نے کامیابی سمیٹی تھی۔

اس حلقے کی ڈیموگرافی میں لگ بھگ چالیس فیصد آبادی اردو زبان بولنے والوں کی ہے۔ اس وقت اس آبادی کا ووٹ بینک کچھ حصوں میں تقسیم نظر آ رہا ہے۔ ایک حصہ ایم کیو ایم لندن، دوسرا ایم کیو ایم پاکستان پر مشتمل ہے۔ لندن گروپ کا کوئی امیدوار نہیں، ان کا جو ووٹ بینک ہے، وہ مصطفی کمال کے حصے میں نہیں جاسکتا، تاثر یہ ہے کہ ایم کیو ایم لندن کو سب سے زیادہ نقصان مصطفی کمال کی وجہ سے پہنچا ہے۔ حالیہ دنوں میں حلقے کے اندر اس طرح کے بینر بھی نظر آئے، جس پر لکھا تھا کہ بلدیہ سانحہ کا حساب دو، یہ نعرہ مصطفی کمال کے خلاف ہے، اس کی وجہ پی ایس پی میں انیس قائم خانی کی موجودگی ہے، یوں اس طبقے کا ووٹ، مصطفی کمال کے پلڑے میں نہیں جائے گا اور نہ ہی یہ ووٹ ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار کو ملے گا، یہ نون لیگ کے پلڑے میں جاسکتا ہے۔

مصطفی کمال چونکہ دیوبند مکتبہ فکر کے حامل ہیں، یہاں ستر فیصد آبادی بریلوی مکتبہ فکر کی ہے۔ یہ ووٹ بھی ان کے خلاف جاسکتا ہے۔ بریلوی ووٹ بینک پی ٹی آئی کے امیدوار کو پڑنے کا امکان بھی کم ہے۔ اس کی وجہ حالیہ واقعات قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اب یہاں جو ٹی ایل پی کے امیدوار ہیں، ان کی شہرت نیک نامی کی ہے، لیکن نہ تو یہ مقامی ہیں، نہ ہی سماجی سطح پر متحرک شخصیت ہیں، یہ پنجابی ہیں، اور کمالیہ سے ان کا تعلق ہے۔

واضح رہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ٹی ایل پی کے پلیٹ فارم سے مفتی عابد حسن مبارک نے الیکشن لڑا تھا، اس بار ان کو ٹکٹ نہ ملا، حالیہ واقعات میں مفتی منیب نے ملک بھر میں احتجاجی کال کے لیے جو پریس کانفرنس کی تھی، اس پریس کانفرنس کا انعقاد کرنے والے مفتی عابد تھے، یہ ٹی ایل پی کی قیادت سے ناراض ہیں کہ حکومت کے ساتھ معاملات طے کرتے وقت ان کو اہمیت نہ دی گئی۔ اس تناظر میں بریلوی مکتبہ فکر کا ووٹ بینک بھی تقسیم ہے، اس ووٹ بینک پر مفتاح اسماعیل بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں کہ ان کے والد یہاں کے مدارس کی مالی امداد کرتے رہے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار ورکر ضرور ہے، مگر ناتجربہ کار ہے اور یہاں پی ٹی آئی منتشر ہے، باہمی اختلافات ہیں، اس کے ساتھ ساتھ فیصل واوڈا نے جیت کر یہاں کا رخ تک نہ کیا، یہاں ان کے حوالے سے ووٹرز میں غصہ پایا جاتا ہے۔ اس حلقہ میں ہزارہ اور پنجابیوں کی تقریباً پینتیس فیصد آبادی ہے، ان کا ووٹ مسلم لیگ نون کو پڑتا ہے۔ پختون آبادی کا ووٹ پی ٹی آئی کو پڑے گا، مگر بتایا جا رہا ہے کہ یہ ووٹر اتنا متحرک نہیں۔ اس حلقہ میں ستر فیصد آبادی ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتی ہے، ماہ رمضان ہے، عید کی آمد ہے، تیس فیصد ٹرن آؤٹ آ سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments