جسٹی قاضی فائز عیسیٰ اور جمہوریت پسندوں کی فتح


پاکستان کی سات دہائیوں پر مشتمل تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے ملک میں غیر جمہوری طاقتوں نے ہمیشہ مذہبی جتھوں کی پشت پناہی کر کے حکومت وقت کو اپنے ناجائز مطالبات کی تکمیل پر مجبور کیا۔ مذہبی جماعتوں کی توہین مذہب کو جواز بنا کر ملک میں انتشار پھیلانے کی تاریخ پرانی ہے اور اس مقصد کے لیے غیر جمہوری طاقتیں ہمیشہ سے مذہبی جتھوں کو اخلاقی کمک پہنچاتی رہی ہیں۔

2017 کا کالعدم جماعت تحریک لبیک کا فیض آباد دھرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ غیر جمہوری قوتیں نواز شریف کی سرکشی اور بغاوت کو فرو کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھیں۔ چنانچہ 2017ء میں الیکشن ترمیمی بل کے فارم اے میں ایک کلیریکل غلطی کو بنیاد بنا کر تحریک لبیک نے مسلم لیگ نون کی حکومت پر توہین رسالت کا الزام لگایا اور پورے ملک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ اس وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف اور تمام حکومت مخالف گروپس نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے تحریک لبیک کو افرادی و اخلاقی مدد بہم پہنچائی۔

تحریک لبیک کا مشتعل ہجوم مسلم لیگ نون کے ممبر قومی و صوبائی اسمبلیوں پر حملے کرنے لگا اور کالعدم تحریک لبیک نے اسلام آباد اور راولپنڈی کو جوڑنے والے مقام فیض آباد پر دھرنا سجا لیا۔ نون لیگ کی تمام قیادت ناموس رسالت کی دشمن ٹھہری اور انھیں روپوش ہونا پڑا۔ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کو روضۂ رسول کے سائے میں حلف اٹھانا پڑا کہ وہ بھی عاشق رسول ہیں، وزیراعظم نواز شریف کو اپنے گھر میں میلاد کی محفلیں منعقد کروا کر عاشق رسول ہونے کا سرٹیفکیٹ لینا پڑا۔

تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے کو کلیئر کروانے پر جب سول ادارے ناکام ٹھہرے تو وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ صاحب کو دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کو کہا جس پر باجوہ صاحب نے ’اپنے ہی لوگوں‘ کے خلاف طاقت کے استعمال سے معذرت ظاہر کی۔

21 نوممبر 2017 کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے پر سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے دھرنے کی تفصیلات طلب کیں۔

ایپکس کورٹ کے دو رکنی بینچ جس کی صدارت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم نے کی، نے  22 نومبر 2018 کو فیض آباد دھرنے پر فیصلہ محفوظ کر لیا اور 6 فروری 2019 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے تینتالیس صفحات پر مبنی تفصیلی فیصلہ سنایا۔

اس فیصلے میں کالعدم تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے کی وجوہات اور ذمہ داران کا تعین کیا گیا جو بعد میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا اور انھیں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنا پڑا۔

اس تفصیلی فیصلے کے چند بنیادی نقاط درج ذیل ہیں :

فیصلے میں عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھرنے کی پشت پناہی کی۔

فیصلہ میں آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلجنس، اور انٹیلی جنس بیورو کے علاوہ آئی ایس پی آر کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی ہدایت کی گئی۔

فیصلہ میں اصغر خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے آرمی، نیوی اور ایئر فورس چیفس کو وزارت دفاع کے توسط سے حکم دیا گیا کہ وہ ان فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کریں جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی سیاسی گروہ یا جماعت کی حمایت کی۔

فیصلے میں تمام خفیہ اداروں کو پابند کیا گیا کہ وہ چینلز و اخبارات کی ترسیلات و نشریات بند نہیں کریں گے اور یہ کہ آزادی اظہار رائے کا احترام اور پاسداری کریں گے۔

فیصلہ میں 12 مئی 2007 کی خون ریزی، 2014 پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے فیض آباد دھرنے اور اس سے جڑے واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ ذمہ داران کو سزا نہیں دی گئی جس سے تحریک لبیک کو شہہ ملی۔

ختم نبوت کے معاملے پر تصحیح کے باوجود تحریک لبیک نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا اور دھرنا قائدین نے دھمکیوں اور گالیوں کے ساتھ نفرت پھیلائی اور ملک کا کروڑوں کا نقصان کیا، انھیں قانون شکنی پر سزا نہ ہوئی تو قانون شکنوں کا حوصلہ بڑھے گا۔

فیض آباد دھرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل نہ بھی ہوا تو یہ تاریخ کا حصہ رہے گا اور اسے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف مزاحمت کے طور یاد رکھا جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے سات دہائیوں سے ملک کو دیمک کی طرح کھاتی برائیوں اور ایشوز پر چارج شیٹ پیش کی۔ قاضی صاحب کا فیصلہ جمہوریت پسندوں کی فتح تھی اور یہ ملک میں جمہوریت کی سمت درست کرنے کی طرف ایک بہادرانہ قدم تھا۔

افسوس صد افسوس کے اس فیصلے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بدترین احتساب اور میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا پڑا۔ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، شیخ رشید اور آئی ایس آئی نے نظرثانی اپیل دائر کی جس میں قاضی صاحب کے خلاف انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی۔

قاضی صاحب پر سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس بنایا گیا، ان پر کرپشن سے غیر ملکی اثاثے بنانے کا الزام لگایا گیا۔ حکومتی نمائندوں نے قاضی صاحب کا میڈیا ٹرائل کیا اور ہتک آمیز بیانات دیے تاہم قاضی صاحب نے صبر کے ساتھ اس ٹرائل کا سامنا کیا۔ فواد چوہدری نے محض عدالتی کارروائی کی بنیاد پر  پر جسٹس فائز عیسی کو ”انڈر ٹرائل جج“ قرار دیا۔

گزشتہ دنوں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے صحافی شاہد اسلم کو دیے گئے انٹرویو میں تہلکہ خیز انکشافات کیے، جس میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وزیراعظم عمران خان جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایف آئی اے میں کیس کا اندراج چاہتے تھے اور سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو وزیراعظم آفس میں بلا کر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، پرنسپل سیکٹری اعظم خان اور وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی موجودگی میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس کے اندراج کا حکم دیا جس پر سابق ڈی جی ایف آئی اے نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں اس کی گنجائش نہیں کہ ایف آئی اے معزز عدلیہ کے خلاف تفتیش شروع کرے۔ ان انکشافات میں حکومتی شخصیات پر عدلیہ کے خلاف سازش کا الزام لگایا گیا ہے اور یہ اتنا بڑا انکشاف ہے جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

آخر کار سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے کثرت رائے سے جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف ایف بی آر کو ہر قسم کی کارروائی سے روک دیا۔ چار میں سے چھ ججوں نے اپنے حکم میں ایف بی آر یا کسی بھی دوسرے فورم پر ہونے والی ہر قسم کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی بھی فورم پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ جون 2020 میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو بھی کالعدم قرار دے چکی ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ صاحب نے غیر جمہوری قوتوں کے خلاف جس جرأت اور بہادی کا مظاہرہ کیا ، وہ تعریف کے قابل ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر من و عن عمل کر لیا جائے تو سات دہائیوں سے ترقی معکوس کا ڈھلوانی سفر اپنے اختتام کو پہنچ سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ تمام ریاستی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ مذہبی جتھوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انھیں سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ ہمیں ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا ہو گا ، اسی صورت میں ہم دائروی سفر سے نجات پا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کالعدم تحریک لبیک بھی ماضی کے تجربات کی طرح ایک عفریت بن کر کھڑی ہو جائے، اس کی ہر طرح کی اخلاقی حمایت بند کرنی ہو گی۔

آپ کب تک قلیل مدت سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر نفرت کی فصل کی آبیاری کرتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments