سلیم راز صاحب کو اللہ صحت دے


بقول شخصے وہ 80 پلس ہیں اور اب بھی ویسے کے ویسے متحرک ہیں۔ اس عمر میں بھی ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، اسلام آباد، ہزارہ، بٹگرام، کراچی اور کابل تک ادبی پروگراموں میں شرکت اور صدارت کرتے نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے انہیں کسی کی نظر لگ گئی، لیکن وہ تو پکے ترقی پسند ہیں بھلا ان کو کیسے کسی کی نظر لگے گی؟ وہ نظر کے قائل تو ہیں لیکن بصیرت کے معنوں میں، اہل نظر کے معنوں میں، وہ نظر لگنے سے زیادہ نقطۂ نظر کے حامی ہیں۔

وہ نظر لگنے اور اتارنے کے مسائل اور وسائل کے کام میں خود کو مصروف رکھنے والے نہیں، وہ تو نظر پھیلانے اور پہنچانے کے کاموں میں دن رات مصروف عمل رہنے والے وہ کارندے ہیں جو کبھی تھکنے کا نام نہیں لیتے بلکہ اگر ان کو انتھک محنت کرنے والے ادبی خدمت گار کے لقب سے نوازا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ لیکن اہل نظر تھے، نظر لگنے سے تو بچ گئے لیکن اس کورونائی ماحول نے ان کو اپنی اغوش میں نہیں بھی لیا تو بھی عمر اور صحت کے حوالے سے وہ آسان ہدف ضرور ہیں۔

سانس کا مسئلہ، سینے کا روگ تو انہیں پہلے سے ہی لاحق تھا۔ باقی بچا کیا؟ عمر کی نقدی، بعد از ستر وہ قسطوں پر ہی چلا رہے ہیں لیکن کبھی بھی قسط دینے میں بقایا دار نہیں رہے۔ ایک ایک لمحے، ایک ایک گھنٹہ، ایک ایک دن کا حساب اپنے ادبی مصروفیت اور متحرک زندگی کی شکل میں بروقت ادا کرتے رہے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی کو ان سے اس سلسلے میں کوئی شکایت رہی ہو۔ ایک دو ماہ پہلے مانسہرہ میں اپنے گھر میں صاحب فراش رہے اور علالت کے دن رات بھی دوستوں اور بہی خواہوں کے پرسے کی نذر کر دیے، لیکن ان کے چاہنے والوں نے ان کے پاس ان کے گھر تک ضرور رسائی حاصل کی۔

ٹیلفون، میسجز اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپروچ الگ تھی۔ کچھ ہی دن ہوئے تھے چارسدہ منتقل ہوئے تھے لیکن اس دوران بھی ٹانک میں ایک ادبی پروگرام میں شرکت کی۔ لیکن ایک ہفتے سے ان کی بیماری کی اطلاع پر مبنی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں گھر پر بستر پر ہیں اور لوگوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ رمضان ہیں، آنے جانے کی زحمت نہ اٹھائیں، دعاؤں میں یاد رکھیں اور ملاقات عید کے بعد ہو گی۔

مایوسی ان کے چہرے پر بالکل نہیں، ہاں بڑھاپے کے آثار ہیں جو چھپائے نہیں چھپتے۔ لیکن امید کی جو تازگی اور زندگی کی جو امنگ ہے ، وہ ان کے چہرے اور زبان سے عیاں ہے۔ بعض لوگ رہتے ہی زندہ رہنے کے لیے ہیں اور یہ بات سلیم راز صاحب پر سولہ آنے صادق آتی ہے۔

سلیم راز صاحب سے میری پہلی ملاقات سن انیس سو چھیانوے میں کوئٹہ میں تین کتابوں، اللہ بخشے سعید گوہر کی کتاب پٹہ خزانہ فی الحقیقت، اللہ بخشے افضل شوق کے سفرنامے کی کتاب اووہ گامہ مزل اور اللہ رکھے فاروق سرور کی افسانوں کا مجموعہ لیوہ کی تقریب رونمائی میں ہوئی تھی،  جب میں ایل ایل بی کے پہلے سال کا طالب علم تھا۔

ان دنوں بے نظیر صاحبہ کی دوسری حکومت بھی تازہ تازہ چلتی بنی تھی۔اور کوئٹہ ایم پی اے ہاسٹل خالی تھا اور ہم کو بحیثیت مہمان اسی ہاسٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ میں ادب میں بالکل نووارد تھا۔ سب چہرے میرے لیے نئے تھے۔ منتظر بٹانی، غازی سیال، ہمیش خلیل، رب نواز مائل، سعید گوہر، پروین ملال، حسینہ گل، عنایت اللہ ضیاء درویش درانی وغیرہ وغیرہ۔ جن کی تصویروں کا یادگار البم اب بھی میرے پاس سند کے طور پر محفوظ ہے۔

پھر راز صاحب سے ملنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ اکثر و بیشتر کراچی آتے رہے۔ جرس ادبی جرگہ کی تنقیدی نشستوں میں بھی حاضری دیتے رہے ، پھر ان کے اعزاز میں ہفت روزہ روشن پاکستان نے ریڈیو پاکستان کراچی کے اشتراک سے اکیڈمی ادبیات پاکستان کراچی میں شام منعقد کی، وہاں ملاقات ہوئی ، جس کے ساتھ ساتھ طاہر آفریدی اور قمر راہی صاحبان کو بھی اسی شام سے اس شان سے نوازا گیا تھا۔

دوسری پشتو عالمی کانفرنس کے سلسلے میں جب آئے تو کراچی بار میں دیگر وکلاء ساتھیوں سے ادبی و مالی خدمات کے سلسلے میں ملاقاتوں کا سلسلہ بنایا۔ دو ہزار سات میں سعید گوہر صاحب کے اعزاز اور اعتراف میں لورالائی میں منعقدہ ایک روزہ پروگرام میں گئے ۔ واپسی پر اکیڈمی ادبیات میں ٹھہرے اور رات کو سرور سودائی کو طاہر افریدی کے لاکھ سمجھانے کے باوجود بریانی بنوانے کے لئے فون کیا اور اس بے چارے نے من و عن عمل بھی کیا۔

گاہے بگاہے ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں اور اردو کانفرنسز میں کراچی آتے رہے۔ ترقی پسند مصنفین کے ایک اجلاس کے لئے گھر ڈھونڈتے ڈھونڈتے سٹریٹ سنیچنگ کے بھی شکار ہوئے۔ دو ہزار اٹھارہ میں سندھی ادبی سنگت کے کثیراللسانی مشاعرے میں حیدر آباد پریس کلب اکٹھے گئے۔

کراچی میں جب بھی آئے دن بھر ساتھ ہوتے تھے ، شام میں ان کے بھائی کے گھر واقع میٹرول سائیٹ ڈراپ کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے ان کے بھائی شیر شاہ میں رہتے تھے اور اسی طرح ایک شام میں ان کو ڈراپ کر کے واپسی پر محترمہ بے نظیر صاحبہ کی شہادت کے باعث جلاؤ گھیراؤ کا بری طرح نشانہ بنا۔

سن دو ہزار انیس میں ٹانک میں پشتو کے مایہ ناز ادیب عبد الرحیم مجذوب پر منعقدہ پروگرام میں ڈسٹرکٹ ٹانک کے شعور ادبی ٹولنہ کی دعوت پر اکٹھے گئے۔ فون پر بات چیت ہوتی رہی لیکن جب سے صاحب فراش ہیں یہ سلسلہ منقطع ہے۔

اب آپ حیران ہوں گے کہ اس تمام روداد میں ان کی ادبی خدمات کا تو سرے سے ذکر ہی نہین۔ ان کی شاعری اور ان کی کتابوں کے بارے میں تو کچھ کہا بھی نہیں گیا، تو وہ اس لیے کہ ہم بحیثیت مجموعی کسی کی بھی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں تو وہ اس کی موت کے بعد کرتے ہیں اور میں ان کو مزید زندہ دیکھنا چاہتا ہوں جیسے کہ وہ اپنی تازہ نشر ہونے والے ویڈیو میں بیماری کی حالت کے باوجود مایوس نہیں ہیں بلکہ مزید زندگی جینا چاہتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کو دعاؤں کے ساتھ ساتھ عید کے بعد ان ملنے کی تمنا بھی ظاہر کی ہے۔

ہماری دعا ہے کہ سلیم راز صاحب کو اللہ جلد سے جلد صحت اور تندرستی عطا فرمائے تاکہ اس ادبی کارواں کو جو چپ سی لگی ہوئی ہے ، وہ ایک بار پھر سے چہک اٹھے۔ آمین ثم آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments