کیا احتساب کے بغیر نظام چل سکے گا؟


کیا واقعی پاکستان ایک منصفانہ، شفاف او ربے لاک احتساب کے بغیر ترقی کے قومی دھارے میں شامل ہو سکتا ہے؟ یہ بحث ہماری سیاسی اشرافیہ کے ایک بڑے طبقہ میں پائی جاتی ہے کہ اگر ملک کی معیشت کو درست کرنا ہے تو نیب سمیت احتساب کے تمام ادارے ہمیں بند کرنے ہوں گے ۔ کیونکہ اس طبقہ کے بقول ملک کی معاشی ترقی اور احتساب کا عمل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔

لیکن یہاں بنیادی نوعیت کا یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا سیاست، جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور منصفانہ معاشی ترقی کے عمل میں واقعی ہمیں احتساب کے نظام کو بند کرنا ہو گا اور تمام طبقات کے لوگوں کو یہ ریلیف ملنا چاہیے کہ وہ کسی بھی سطح پر جوابدہ نہ ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اشرافیہ کے لوگ احتساب کے عمل پر تنقید کرتے ہیں ، ان کے پاس احتساب کیسے ہو اور کیسے اسے شفاف بنایا جا سکتا ہے یا اس کا کیا سیاسی اور قانونی طریقہ کار ہونا چاہیے ، اس کا کوئی متبادل نظام نہیں ہے۔

پاکستان میں احتساب کا نظام ہمیشہ سے متنازع یا کمزور رہا ہے۔ یہ خاص سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت سیاسی یا فوجی حکومتوں کی ترجیحات کی درجہ بندی میں احتساب کا نظام ہمیشہ سے عدم ترجیحات کا شکار رہا ہے۔ احتساب کا جو عمل کسی نہ کسی شکل میں ماضی میں چلا ، اس میں شفافیت کی بجائے سیاسی تنگ نظری یا سیاسی احتساب یا سیاسی مخالفین کے خلاف احتساب کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہماری سیاسی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نہ تو احتساب کے عمل کو اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنا سکے اور نہ ہی یہاں ایسی پالیسی، قانون سازی یا ادارہ جاتی سطح پر اداروں کو مضبوط بنا سکے جو شفاف اور بے لاگ احتساب کر سکیں۔ اگر کسی ادارے نے احتساب کی کوئی سنجیدہ کوشش کی بھی تو اسے سیاسی سطح پر موجود قوتوں نے متنازع بنا کر اس ادارے کو سیاسی یرغمال بنانے کی کوشش کی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ احتساب کے نظام پر یا نیب پر تنقید کرتے ہیں ، وہ کسی ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں بلکہ اس میں معاشرے کی سطح پر موجود مختلف طاقت ور طبقات ہیں جو احتسابی نظام کو اپنے سیاسی اور مالی یا ذاتی مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ جو معاشرے میں معاشی ترقی کے لیے ہمارا عدم احتساب کا بیانیہ ہے وہ قانون کی حکمرانی اور شفافیت پر مبنی نظام کے خلاف ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاسی محاذ پر نیب جیسے ادارے پر تنقید تو بہت کی جاتی ہے بلکہ اس کے خاتمے کی سیاسی دہائی بھی دی جاتی ہے لیکن یہی سیاسی قوتیں جب خود اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتی ہیں تو نہ صرف نیب کے قانون میں موجود خامیوں کی اصلاحات کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا متبادل احتسابی نظام لاتی ہیں جو واقعی شفافیت پر مبنی ہو۔ نیب کے بہت سے معاملات پر تنقید ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے کیونکہ کوئی بھی ادارہ خامیوں سے پاک نہیں، لیکن ہماری سیاسی سوچ اور فکر اداروں کی اصلاح پر ہونی چاہیے نہ کہ اداروں کی بندش پر۔

ملک میں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر لوٹ مار کا کھیل پاکستان میں کھیلا گیا ہے ، اس کی بھی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لیکن اس سے نیب اور بالخصوص پنجاب نیب جس شاندار انداز سے نمٹا اور پاکستان یا پاکستان سے باہر موجود اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہونے والی بڑی زیادتی سے نمٹا ہے ، اسے فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر لوٹ مار کرنے والا طبقہ خود کو نہ صرف ایک بڑی طاقت سمجھتا تھا بلکہ کسی کو بھی جوابدہ نہیں تھا۔لیکن نیب نے ان لوگوں پر جو بڑا ہاتھ ڈالا ہے اور لوگوں کی ڈوبی ہوئی رقم ان کو دلوائی ہے وہ بڑا کام ہے۔

حال ہی میں نیب پنجاب نے ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے ساتھ مل کر جو تیرہ ارب روپے کی پلی بارگین کے معاملات کو حتمی شکل دی ہے، اس سوسائٹی کے متاثرین کی تعداد گیارہ ہزار سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے اور یہ متاثرین گزشتہ آٹھ برس سے اپنے حق کے حصول کے لیے انصاف کی جنگ لڑ رہے تھے، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو سکی تھی۔ اب اس کا کریڈیٹ چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال اور ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کو ملنا چاہیے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ایک سیاسی و فکری مغالطہ احتساب کے حوالے سے جان بوجھ کر پیدا کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر منطق یہ دی جاتی ہے کہ اگر احتساب کا عمل جو ان کے بقول متنازع ہے ، آگے بڑھتا ہے تو اس سے کبھی سیاست اور جمہوریت کو، کبھی آئین یا قانون کی حکمرانی، کبھی آزادی اظہار، کبھی قومی خود مختاری یا سلامتی کو، کبھی معاشی ترقی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ ایک مخصوص طاقت ور طبقہ اپنے مفادات کے لیے ان سیاسی، قانونی نعروں کو ”بطور سیاسی ہتھیار“ استعمال کرتے ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری جمہوریت، سیاست، قانون سے جڑے افراد ایسی اصلاحات کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں جو ملک میں احتساب کے نظام کو مضبوط بنا سکیں۔ ہمارے ملک میں انصاف یا عدالتی نظام کے حوالے سے ورلڈ جسٹس رپورٹ 2020 کے بقول ہم 128 ملکوں میں 120 ویں نمبر پر جبکہ ساؤتھ ایشیا کے کل چھ ممالک میں سے ہمارا نمبر پانچواں ہے، یعنی عدم انصاف کا نظام بالادست ہے۔

کوئی بھی احتساب کا نظام اگر بے لاگ یا منصفانہ یا شفاف نہیں ہو گا ، وہ اپنی سیاسی اور قانونی ساکھ قائم نہیں کر سکتا۔ یہ جو نظام ہے جہاں بڑے اور طاقت ور لوگ ریاستی، حکومتی نظام کے گٹھ جوڑ سے ریلیف لینے یا بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اس کو تبدیل کرنا ہو گا۔ احتساب یا قانون کے تناظر میں ایک معروف جملہ ارسطو کا ہے، ان کے بقول ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں لیکن بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔“

ہمیں معاشرے سے اس سوچ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہو گا کہ طاقت ور لوگ احتساب سے مبرا ہیں اور ان کو کسی بھی سطح پر قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جا سکتا۔ کیونکہ اسی سوچ اور فکر کی بنیاد پر کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے اور ہر کوئی کرپشن یا لوٹ مار کو اپنا سیاسی حق سمجھ لیتا ہے۔ جب بڑے طاقت ور لوگ احتساب سے آزاد ہوں گے تو کمزور لوگوں کو کیوں بلاوجہ احتساب کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔

ہمیں شفافیت کے نظام کے لیے ایک متبادل آواز پیدا کرنا ہو گی اور اسے طاقت دینی ہو گی ، ان لوگوں کے مقابلے میں جو کسی نہ کسی شکل میں کرپشن کو سیاسی و قانونی تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ اس میں ایک بڑا کردار ہماری نوجوان نسل اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کا ہو گا  کہ وہ خود کو ایک مضبوط متبادل آواز کے طور پر سامنے لائیں اور ریاست و حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ احتساب کے تناظر میں دوہرے معیار اور تضادات کی سیاست سے باہر نکلیں۔

اس میں خاص طور پر سوشل میڈیا میں نوجوان ایک مضبوط، توانا اور جاندار آواز پیدا کر کے احتساب اور شفافیت کے بیانیہ کو ایک نئی سیاسی طاقت دے سکتے ہیں جو ہماری قومی ضرورت ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کو بنیاد بنا کر جو بھی معاشی ترقی ہو گی وہ ایک مخصوص طاقت ور طبقے تک محدود ہو گی اور اس کا براہ راست منفی اثر معاشرے کے عام اور کمزور طبقے پر ایک بڑے سیاسی اور معاشی استحصال کی صورت میں پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments