عمران خان سعودی پرنس جیسا کیوں بننا چاہتے ہیں؟


عمران خان صاحب کی تقریباً ہر دوسری تیسری تقریر میں ریاست مدینہ کا ذکر ضرور ملتا ہے۔ ریاست مدینہ جس کی بنیاد حضور اکرم ﷺ نے رکھی تھی ، اس کا تو تاریخ میں نعم البدل نہیں ملتا لیکن جس ریاست مدینہ کا ذکر خان صاحب بار بار کر رہے ہیں، اس کا مقصد اب سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔

حال ہی میں سابقہ ایف آئی اے سربراہ نے تو خان صاحب کی نیت کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں آشکار کر دیا ہے ، جس میں انہوں نے کہا کہ خان صاحب نے شکوہ کیا ہے کہ سعودیہ کے شہزادے کی بات تو ہر کوئی مان لیتا ہے اور اس کے ہر حکم کو نافذ بھی کیا جاتا ہے، پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں ہے؟

اس بات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے وزیراعظم خان کا وہ ایجنڈا ہے کہ وہ پاکستان میں کون سا نظام لانے کو بے تاب ہیں؟ خان صاحب بھلے اس نظام کو کسی بھی نام سے پکاریں پر اس کا مقصد صرف ایسا نظام نافذ کرنا ہے جس میں انتظامی اختیارات صرف ان کے پاس ہوں۔ اسی لئے کبھی ریاست مدینہ تو کبھی چینی ماڈل کی پرچار کرتے پھرتے ہیں۔

اس سارے فلسفے کا مقصد صرف بادشاہت یا امیر المومنین بننے کا خواب ہے۔ اس ”خیر کے کام“ میں خان صاحب کو مقتدر اعلیٰ کا بھی تعاون میسر ہے۔ اس بات کا ثبوت تو یہی ہے کہ خان صاحب کی بدترین حکمرانی کے باوجود بھی ، مقتدر اعلیٰ اس کے پیچھے کھڑا ہے،  ورنہ ماضی میں تو ایسے حکمرانوں کو تو پل بھر میں ہٹا دیا جاتا تھا۔

روز اول سے خان صاحب کے بیانات اور اقدامات کو غور سے چانچیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وہ بادشاہی نظام کے خواہاں رہے ہیں۔ وہ کبھی پارلیمانی نظام کو ختم کر کے صدراتی نظام کے لیے لوگوں کی ذہن سازی کرتے ہیں تو کبھی اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے لیے ماحول بنانے کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں تو کبھی ارطغرل غازی جیسے ڈرامے امپورٹ کر کے امیر المومنین جیسے سسٹم کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی لانے کا کھیل شروع کرتے ہیں۔

کبھی بیوروکریسی میں ’اصلاحات‘ لا کے وفاق کو مضبوط اور صوبوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی ترکی کے صدر اردگان کے اقدامات کو بہترین باور کراتے ہیں اور اس کی حکمرانی کے گن گاتے ہیں۔ خان صاحب بس ہر وہ کام کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے خواب کی تعبیر پا سکیں۔ لگ ایسا رہا ہے جیسے خان صاحب کو جمہوریت سے کوئی بڑی ناراضگی ہے۔ اس لیے تو عمران خان جمہوری پارلیمانی نظام سے نالاں ہیں۔

گڈ گورننس تو پارلیمانی نظام میں بھی ممکن ہے۔ سنگاپور ہو یا انڈیا کی ریاست کیرالا ، انہوں  نے تو جمہوری پارلیمانی نظام سے ہی ترقی پائی ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ خان صاحب جمہوری پارلیمانی نظام سے کیوں خفا ہیں؟ ظاہر ہے جو طاقت سعودیہ کے امیر، چین کے صدر یا ترکی کے صدر اردگان کے پاس ہیں وہ تو خان صاحب کو میسر نہیں ہے ناں! پاور گیم تو سارے حکمرانوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ لیکن خان صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ مقتدر حلقوں نے بھی خان صاحب کو اس لیے میدان میں اتارا تھا تاکہ وہ اپنے اہداف حاصل کر سکیں، ہاں یہ بھی بات ٹھیک ہے کہ ماضی میں اس پارلیمانی نظام میں مقتدر حلقے اپنے مقاصد کچھ ڈھکے چھپے اوچھے ہتھکنڈوں سے حاصل کرتے تھے، لیکن اب اٹھارہویں ترمیم ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عندیہ دیا تھا کہ اب وزیراعظم کے پاس تو وزیراعلیٰ سے بھی کم اختیارات ہیں۔

سوال یہ کہ کیا جمہوری پارلیمانی نظام سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو پائیں گے؟ اور کیا بادشاہت یا امیر المومنین جیسا نظام پاکستان کے لیے موزوں بھی ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا کبھی پاکستان میں حقیقی جمہوری پارلیمانی نظام کو چلنے دیا گیا ہے جو ہمیں جمہوری پارلیمانی نظام سے اتنی بڑی شکایت ہے اور دوسرے انتظامی نظام کے طرف دیکھنے کی ضرورت آن پہنچی ہے؟

میرے نزدیک پاکستان کثیر القومی ملک ہے، جو مذہبی بنیادوں پہ قائم تو کیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس کے عوام ایک قوم نہیں بن سکے۔ ملک تقسیم در تقسیم ہے۔ مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ تضادات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم 74 سالوں سے ابھی تک ایک قوم بن نہیں سکے۔ ابھی تک ہم یہ بھی تعین نہیں کر پائے کہ ملک کو کس سمت میں لے جانا ہے۔ ہم نے تو اس ملک میں تجربوں کی فیکٹری کھول رکھی ہے۔ اس ملک کے مسائل کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں (جہموری اور غیر جہموری دونوں ) کی پالیسیاں اور طرز حکمرانی ہے، نہ کہ جمہوری پارلیمانی نظام۔ اس ملک نے تو کبھی حقیقی جمہوریت دیکھی ہی نہیں ہے ،  کبھی براہ راست آمریت تو کبھی ہائیبرڈ جمہوریت۔ ہم جمہوری پارلیمانی نظام پہ کس طرح سارا قصور ڈال سکتے ہیں؟

اس ملک کی موجودہ ڈیموگرافی اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات تو واضح ہے کہ صرف جمہوری پارلیمانی نظام ہی اس ملک کو مضبوط اور مستحکم کر سکتا ہے۔ ماضی میں ہم نے ایسے کئی تجربات کئے ہیں اور جمہوری پارلیمانی نظام کو ختم کر کے دوسرے نظام نافذ کیے۔ ان سارے اقدامات نے ملک کو نقصان ہی نقصان پہنچایا ہے اور فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ جہاں تک ملکی معیشت اور مسائل کا تعلق ہے تو ان کا حل گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی سے ممکن ہیں۔

سب ممالک میں اس وقت تک اچھی حکمرانی ممکن نہیں ہوتی جب تک ان میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی ۔ لہٰذا اس ملک کا مسئلہ نظام کی خرابی نہیں بلکہ اس نظام کو اپنے حقیقی معنوں میں چلنے نہ دینا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس ملک کے سارے مسائل کا حل زیادہ جمہوریت ہے نہ کہ ہائیبرڈ جمہورت یا کوئی اور نظام ۔

خان صاحب تو خود ہی کنفیوزڈ ہیں، کہتے ہیں جتنا انہوں  نے مغرب کو سمجھا ہے، کسی اور نے نہیں سمجھا ہو گا لیکن ان کے خواہش سعودی عرب کے شہزادے جیسا بننے کی ہے کیونکہ سعودیہ پرنس کی بات کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ کیا اس وقت ملک بادشاہت کا بوجھ سہہ پائے گا؟ ان صاحب کو کوئی یہ بتائے کہ مضبوط اور مستحکم ملک کے لیے جمہوری اداروں کو بہتر بنانا لازمی ہوتا ہے نہ کہ سارے پاور ایک آدمی کے پاس ہونے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔

ریاست مدینہ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنائی تھی، اس میں قانون کی حکمرانی، عدل و انصاف، جمہوری کلچر، انسانی حقوق تھے، اور سب سے بڑھ کر رواداری برابری تھی، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ اس لئے ریاست مدینہ تاریخی ریاست بن پائی تھی۔

اب یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ خان صاحب کی ریاست مدینہ کے خواب کی منزل بادشاہت ہے۔ مگر یہ ضرور یاد رکھا جائے کہ ایسا کوئی بھی نظام ملک مزید برادشت نہیں کر سکتا۔ ملک کے سارے مسائل کا حل جمہوری نظام کو مضبوط کرنے، قانون کی حکمرانی اور بلا امتیاز احتساب میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments