پاکستان اور زمبابوے کے درمیان ہرارے ٹیسٹ: سنچری فواد عالم کی، چرچے بابر اعظم کے صفر کے

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


ہرارے ٹیسٹ کا دوسرا دن شروع ہوا تو پاکستان کے ڈریسنگ روم میں بیٹھا ہوا تھنک ٹینک اپنے بیٹسمینوں کو یہی تاکید کررہا تھا کہ اس اننگز میں ہی اتنا بڑا سکور بنا لینا ہے کہ پھر دوسری اننگز میں بیٹنگ کی نوبت نہ آئے۔

لیکن پھونک پھونک کر آگے بڑھتی ہوئی اننگز اور گرنے والی چھ وکٹوں کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم کھیل کے اختتام پر 374 رنز بنا کر 198 کی برتری تک پہنچ پائی تھی، وہ بھی فواد عالم کی شاندار سنچری کی وجہ سے جو 16 چوکوں کی مدد سے 108 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے۔

کچھوے کی چال سے بیٹنگ

آج کل ٹیسٹ میچ کے ایک دن کے کھیل میں 300 سے اوپر رنز بننا غیرمعمولی بات نہیں رہی ہے لیکن پاکستانی بیٹسمین دفاعی خول میں ایسے بند ہوجاتے ہیں کہ معمولی اور اوسط درجے کے بولنگ اٹیک کو بھی سر پر سوار کر لیتے ہیں۔

پاکستانی بیٹسمین پورے دن کے کھیل میں صرف 271 رنز بنانے میں کامیاب ہوسکے۔

عابد علی اور عمران بٹ کا سست روی سے بیٹنگ کرنا اس لیے سمجھ میں آ رہا تھا کہ دونوں اپنے ٹیسٹ کریئر کے اہم موڑ پر کھڑے تھے۔ ایک نے تازہ تازہ ٹیسٹ کرکٹ شروع کی ہے لیکن جنوبی افریقہ کے خلاف چار اننگز بغیر کسی قابل ذکر سکور کے جا چکی تھیں لہٰذا عمران بٹ کو اچھی طرح علم تھا کہ وہ سلپ میں کتنے ہی غیرمعمولی کیچز لے لیں اُنھیں ٹیم میں برقرار رکھنے کے لیے بڑے سکور کی ضرورت پڑے گی۔

دوسری جانب عابد علی اوّلین ٹیسٹ اور اوّلین ون ڈے کی سنچریوں کے منفرد اعزاز کے بعد بڑے سکور سے دور ہوتے چلے گئے اور یہ ہرارے ٹیسٹ ان کے لیے اب یا کبھی نہیں والا معاملہ بن گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ٹیلر کے پچھتاوے کا مداوا نہ ہو پائے گا

’وکٹ چاہیے؟ حسن علی کو دیکھیں، اُن کے پاس چار ہیں‘

نحیف سے ہدف نے بھی پاکستان کو کیوں لڑکھڑا دیا؟

اگر ہرارے سپورٹس کلب میں تماشائی موجود ہوتے تو ان کے لیے پہلے سیشن سے زیادہ بیزار کن بات اور کوئی نہیں ہوتی۔ 32 اوورز کے کھیل میں محض 59 رنز کا اضافہ ہوسکا۔ اس دوران عابد علی نے سلپ میں برینڈن ٹیلر کو کیچ تھما کر 60 رنز پر اپنی وکٹ گنوائی۔

عابد علی اور عمران بٹ کے درمیان پہلی وکٹ کی شراکت میں بننے والے 115 رنز دسمبر 2019 میں سری لنکا کے خلاف پہلی وکٹ کی شراکت کے 278 رنز کے بعد سب سے بڑا سکور تھا۔ اس شراکت میں بھی عابد علی شان مسعود کے ساتھ شریک تھے۔

اظہر علی نے 36 رنز بنانے کے لیے 70 گیندیں کھیلیں۔ اس دوران اُنھوں نے عمران بٹ کے ساتھ دوسری وکٹ کے لیے 65 رنز کا اضافہ کیا لیکن رنز بنانے کی رفتار سست رہی۔

بابر اعظم کی ڈرائیو کرنے کی عادت دیکھ کر کائیا کو شارٹ مڈ آن پر نان سٹرائیکر کے قریب لا کھڑا کیا گیا اور تری پانو کی گیند کو بابر اعظم نے فیلڈر کی طرف ہی کھیل دیا۔

عمران بٹ کی طویل اننگز صرف نو رنز کی کمی سے تین ہندسوں میں تبدیل ہونے سے رہ گئی۔

فواد عالم اور محمد رضوان نے اسکور کی رفتار تیز کی خاص کر فواد عالم نے وکٹ کے دونوں اطراف کئی جارحانہ سٹروکس کھیلے۔ اُنھوں نے ایک بار پھر اپنی نصف سنچری کو سنچری میں بدلنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ یہ چوتھا موقع ہے کہ اُنھوں نے ایسا کیا ہے۔

فواد عالم نے محمد رضوان کے ساتھ پانچویں وکٹ کی شراکت میں قیمتی 107 رنز جوڑے۔ رضوان نصف سنچری سے پانچ رنز کی کمی سے ان کا ساتھ چھوڑ گئے لیکن آنے والے فہیم اشرف بھی دو گیندوں کے مہمان ثابت ہوئے۔

کھیل کے آخری اوورز میں حسن علی کے دو چھکوں اور ایک چوکے ساتھ بنائے گئے 21 رنز کی وجہ سے سکور بورڈ کے ہندسے تیزی سے تبدیل ہونے شروع ہوگئے تھے۔

بابر کے صفر میں ایسی کیا خاص بات؟

یہ سیدھی سادی بات ہے کہ اگر کوئی بیٹسمین بڑی اننگز کھیلے اور دوسرا بیٹسمین صفر پر آؤٹ ہوجائے تو ظاہر ہے واہ واہ بڑا سکور بنانے والے بیٹسمین کی ہی ہوتی ہے، صفر پر آؤٹ ہونے والے کو کون پوچھے گا؟ لیکن کبھی کبھی معاملہ اُلٹ بھی ہوجاتا ہے۔

اس کی سب سے بڑی مثال 1948 کا اوول ٹیسٹ ہے جس میں آسٹریلوی اوپنر آرتھر مورس نے سنچری بنائی تھی لیکن دنیا آج بھی سر ڈان بریڈمین کو یاد رکھے ہوئے ہے جو اپنی آخری اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے تھے۔

ہرارے ٹیسٹ کے دوسرے دن یہی کچھ دیکھنے میں آیا جب پاکستانی اوپنر عمران بٹ نے 91 رنز بنائے۔ عابد علی کے نام کے سامنے 60 رنز درج تھے اور پھر آخری سیشن میں فواد عالم شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے سنچری بنانے میں کامیاب ہوگئے، لیکن دلچسپ بات یہ کہ زیادہ ذکر اس صفر کا ہی ہوتا رہا ہے جو پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے کھاتے میں لکھ دیا گیا۔

بابراعظم اپنے ٹیسٹ کریئر میں پہلی بار صفر پر آؤٹ نہیں ہوئے ہیں تو پھر اس صفر کی اتنی اہمیت کیوں؟ جی ہاں، بابر اعظم کا یہ اپنے ٹیسٹ کریئر میں ساتواں صفر ہے لیکن پچھلے چھ صفر کے مقابلے میں یہ اس لیے الگ تھلگ ہے کہ وہ پہلی بار پہلی ہی گیند پر اپنی وکٹ گنوا بیٹھے ہیں، مطلب یہ کہ گولڈن ڈک۔

بابر اعظم اپنے ٹیسٹ کریئر کے ابتدائی دنوں میں جب تگ و دو کر رہے تھے تو اس وقت 2017 کا سال ایسا تھا جس میں وہ ایک دو نہیں بلکہ پانچ بار صفر پر آؤٹ ہوئے تھے، جس میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ کی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہونا بھی شامل تھا۔

بابر اعظم آخری بار 2018 میں آسٹریلیا کے خلاف ابو ظہبی ٹیسٹ میں نیتھن لائن کی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوئے تھے جس کے بعد کسی بولر کے لیے اُنھیں صفر پر پویلین بھیجنا ممکن نہیں ہوسکا اور اس عرصے میں اُنھوں نے مستقل مزاجی سے رنز بناتے ہوئے خود کو ورلڈ کلاس بیٹسمین ثابت کر دکھایا۔

صفر پر سوشل میڈیا کے دلچسپ تبصرے

بابر اعظم کے صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

میشا فاطمہ نے ٹوئٹر پر لکھا ’یہ وقت ٹی وی بند کر دینے کا ہے۔‘

زید حسین نے لکھا ʹبابراعظم کے لیے یہ ٹیسٹ میچ اب تک اچھا نہیں رہا ہے۔ پہلے گولڈن ڈک اور دو ڈراپ کیچز۔‘

اس دوران ایک صارف مصور نے عمران بٹ کی سست رفتار بیٹنگ پر مسٹر بین کی تصویر کے ساتھ یہ تحریر کیا ʹمیں عمران بٹ کی نصف سنچری کا انتظار کر رہا ہوں۔ʹ

فواد عالم کی سنچری پر اُن کی تعریفیں بھی کی جاتی رہیں۔

آئی لینڈ کرکٹ کے ایڈمنسٹریٹر ڈینیئل الیگزینڈر نے لکھا کہ پاکستان کے سلیکٹرز کی جانب سے فواد عالم کو 10 سال تک ٹیسٹ کرکٹ کے لیے نظرانداز کیا جانا ’کھیلوں کی تاریخ کا سب سے بڑا راز ہے‘۔

مشہور کرکٹ تجزیہ کار ڈینس فریڈمین جو پاکستان اور پاکستانی ٹیم کے مداح ہیں اور پاکستانی کرکٹ سمیت ملک کے مختلف موضوعات پر اپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں، آج فواد عالم کی حمایت میں اپنا نام ہی تبدیل کر بیٹھے۔

اُنھوں نے لکھا کہ فواد عالم نے کبھی بھی نصف سنچری نہیں بنائی، وہ صرف سنچری بناتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp