یورپی یونین میں پاکستان کے خلاف قرارداد اور پاکستان فرانس تعلقات



یورپی پارلیمان میں بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور ہوئی ہے ، یورپی پارلیمان میں پیش کی گئی قرارداد سویڈن سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے رکن چارلی ویمرز نے مرتب کی ہے۔ جس میں یورپی یونین سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو 2014 میں جنرلائزڈ سکیم آف پریفرنسز (جی ایس پی) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعایتوں پر فی الفور نظرثانی کرے یا اسے عارضی طور پر ختم کر دے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے اپنی جنرل سکیم آف پریفرنسز پلس کی حیثیت کی خلاف ورزی کی ہے۔

یورپی یونین کی منڈیوں میں جی ایس پی سکیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کی مصنوعات سے درآمدی ڈیوٹی ہٹا دی جاتی ہے۔ یونین کی ویب سائٹ کے مطابق اس سے ’ترقی پذیر ممالک کو بین الاقوامی اقدار اور اصولوں بشمول مزدوروں کے حقوق اور انسانی حقوق کے تحت غربت مٹانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا موقع ملتا ہے۔ تاہم یہ ترجیحی تجارتی درجہ اپنی چند شرائط رکھتا ہے۔ اگر کسی ملک کو یہ درجہ دیا گیا ہے تو اسے انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور طرز حکمرانی میں بہتری سمیت 27 بین الاقوامی معاہدوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔

یورپی پارلیمان میں جمعرات کو پیش کی جانے والی اس قرارداد جس کے حق میں 662 اور مخالفت میں صرف تین ووٹ ڈالے گئے، اس قرارداد کے کئی نکات میں بطور خاص پاکستان میں توہین رسالت کی سزا کے قانون آرٹیکل 295 بی اور سی کا بار بار ذکر کیا گیا ہے اور بارہا اس قانون کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یورپین کمیشن اور یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس اس بات کا جائزہ لے کہ کیا پاکستان کا ‘جی ایس پی پلس’ اسٹیٹس عارضی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟

قرارداد میں بار بار کہا گیا کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ قرارداد کے مطابق اس کی وجہ سے ملک میں مذہبی عدم برداشت اور تشدد رواج پا رہا ہے۔ قرارداد میں پاکستان کے پارلیمانی امور کے قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین سے متصادم ہیں ، اس قرارداد میں پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اقلیتوں پر مبینہ طور پر ہونے والے پر تشدد واقعات کی واضح طور پر مذمت کرے اور یقینی بنائے کہ پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین اقلیتوں کے خلاف مظالم میں استعمال نہ ہوں۔

وزیر مملکت علی محمد خان کے ایک مبینہ بیان کی مذمت کی گئی ہے جس میں انہوں نے توہین مذہب کرنے والوں کا ‘سر قلم’ کرنے کی بات کی تھی۔ اس قرارداد میں حکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون میں بھی ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نہ کی جائے اور توہین رسالت کے مقدمات میں ملزمان کو ضمانتیں مل سکیں۔ یورپی پارلیمان کی قرارداد میں پاکستان میں صحافیوں، دانشوروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور خواتین پر مبینہ طور پر بڑھتے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا جن میں آن لائن حملے بھی شامل ہیں اور پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوری طور پر صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کی حفاظت کا بندوبست کرے اور انہیں ہراساں کرنے والوں کے خلاف قانون حرکت میں لایا جائے۔

قرارداد میں کئی مرتبہ شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثر کا ذکر کیا ہے جو آرٹیکل 295 بی کے تحت گرفتار ہیں۔ شفقت ایمینول اور شگفتہ کوثر کو سنہ 2014 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی جس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ انہیں تمام طبی سہولیات مہیا کریں۔ قرارداد میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شگفتہ کوثر اور شفقت ایمینول کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کے تحت سنائی گئی موت کی سزا کو واپس لے کر ان کو فوری طور پر رہا کریں۔

قرارداد میں پاکستان میں ہونے والے فرانس مخالف مظاہروں کی بھی مذمت کی گئی۔ یورپی ارکان پارلیمنٹ نے پاکستان کے مقابلے میں فرانس سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا ہے۔ قرارداد میں کم سے کم تین جگہوں پر فرانس کی تائید کی گئی ہے اور پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو ہراساں کرنے کی روک تھام اور پاکستان میں رہائش پذیر فرانسیسی باشندوں کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ قرارداد میں پاکستان میں فرانس کی حکومت کے خلاف حالیہ کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے احتجاج کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ پاکستان کی قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کرنے سے متعلق قرارداد کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔جبکہ حکومت پاکستان کی طرف سے فرانس میں ایک سکول ٹیچر پر ہونے والے حملے کے ردعمل میں کیے گئے حکومتی اقدامات اور بیانات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

قرارداد میں مذہبی و سیاسی کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ حکومت کو اس جماعت کی طرف سے تشدد کے استعمال کو روکنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان پر اس قرارداد کے کیا منفی اثرات پڑیں گے؟ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو 2014 میں جی ایس پی پلس کا درجہ دیے جانے کے بعد پاکستان اور یورپی یونین کے ملکوں میں تجارت میں 64 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے اقتصادی سروے سال 2019۔ 20 کے مطابق یورپی یونین پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جی ایس پی پلس کے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی یونین کے 27 ملکوں میں بغیر کسی ڈیوٹی کے رسائی حاصل ہے۔ 2013۔ 14 کے مالی سال میں پاکستان کی برآمدات 11,960.59 ملین ڈالر تھیں جو 2018۔ 19 میں 14,158.29 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ یورپی یونین کو بیچے جانے والے مال میں سب سے زیادہ مقدار ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی ہے۔

پاکستان سے یورپی یونین برآمد کے جانے والی اشیا میں 76 فیصد حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بنتا ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں بھی یورپی یونین کا ایک نمایاں حصہ ہے اور پاکستان کی مجموعی درآمدات میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے یورپ کی پارلیمنٹ کی جانب سے اس قرارداد کی منظوری پر افسوس کا اظہار کیا ہے جس میں پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین پر نظرثانی نہ کرنے تک پاکستان کو اپنی برآمدات کے لیے حاصل ترجیحی اسٹیٹس ‘جی ایس پی پلس’ ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے اس قرارداد پر ردعمل دیتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ یورپ کی پارلیمان میں پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین پر بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کے سیاق و سباق اور اس سے جڑی حساسیت کو سمجھنے سے عاری ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان میں یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد میں پاکستان کے عدالتی نظام اور قوانین پر تبصرے کو مایوس کن قرار دیا گیا ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے اور یہاں سول سوسائٹی، آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ موجود ہیں۔ ان کے بقول پاکستان اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی بلاتفریق حفاظت میں پر عزم ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ان کی بنیادی آزادیوں کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔ جبکہ پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’یہ بدقسمتی ہے کہ یورپی یونین کی پاکستان مخالف قرارداد کا معاون سپانسر ایک ایسی جماعت کا ممبر ہے جسے سویڈن کے وزیراعظم نے ‘ایک ایجنڈے والی نیو فاشسٹ پارٹی’ قرار دیا تھا جس کی ‘جڑیں نازی اور نسل پرستانہ’ ہیں۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں مسائل ہیں، مگر ان کی وزارت کے تحت اس بارے میں بہت سا کام کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں یورپی یونین کی پاکستان میں سفیر آندرولا کامینارا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ معاملات کو گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

اگر اس قرارداد کے محرکات پر غور کیا جائے۔ تو ماضی میں بھی یورپین پارلیمان میں پاکستان کے حوالے سے انسانی حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کے حوالے سے آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن پچھلے چند سالوں سے پاکستان اور فرانس کے درمیان تعلقات پست ترین سطح پر ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی میں اضافہ ہوا۔ فرانس میں پچھلے ایک سال سے پاکستانی سفیر تک تعینات نہیں کیا گیا الٹا پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے لئے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی گئی۔ اور اسی وجہ سے پاکستان کو یورپین پارلیمنٹ اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ طاقت ور ممالک جب دوسرے ممالک سے معاملات چلاتے ہیں تو وہ ان کی داخلی کمزوریوں سے یقینی طور پر فائدہ اٹھا کر اپنی حکمت عملی وضع کرتے ہیں۔یعنی ہماری داخلی کمزوریاں دوسرے ممالک کے لیے طاقت بنتی ہیں اور وہ اس طاقت کو بنیاد بنا کر ہمیں پسپائی پر مجبور کرتے ہیں۔

ہمیں اپنی داخلی پالیسیوں کا بھی از سرنو جائزہ لینا ہو گا اور ایسی پالیسیاں جو عالمی دنیا میں ہمارے بارے میں سوالات رکھتی ہیں یا ملکوں کو ہم سے تحفظات یا خدشات ہیں ، ان کا مدبرانہ انداز میں جواب بھی دینا ہو گا اور معاملات کو درست سمت بھی دینی ہو گی۔ فرانس صرف ایک ملک نہیں یورپین یونین اور اقوام متحدہ میں فیصلہ سازی کے حوالے فرانس کا ایک اہم کردار ہے۔

فرانس اور پاکستان میں تعلقات کی خرابی کی ایک بڑی وجہ فرانس اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری اور قربت ہے۔ جبکہ ہمارے بعض وزرا بھی عوام کو خوش کرنے کے لئے فرانس مخالف بیانات دیتے ہیں جس سے تعلقات میں مزید کیشدگی پیدا ہو جاتی ہے۔

سفارت کاری میں آپ کبھی لوگوں کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہیں کرتے بلکہ وہ فیصلے لیتے ہیں جو ملک کے لئے فائدہ مند ہو۔ فرانس کے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کی وجہ سے ہمیں فرانس کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں تاکہ بین الاقوامی فورم میں فرانس ہماری محالفت نہ کرے۔ ہر ملک اپنے مفادات اور قومی اہمیت کے معاملات کو اہمیت دیتا ہے۔ عالمی سیاست کے سینے میں نہ تو دل ہوتا ہے اور نہ ہی ضمیر، یہ صرف مفادات کے گرد گھومتی ہے، ہم کو بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments