آزادیٔ صحافت: ‘پاکستان میں خبر کا فیصلہ میڈیا مالکان کے بجائے ایڈیٹر کو کرنا چاہیے’


فائل فوٹو
اسلام آباد — پاکستان سمیت دنیا بھر میں تین مئی کو آزادیٔ صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک جمہوری ملک ہونے کے باوجود پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اظہارِ رائے کی آزادی اور آزاد صحافت کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹیں حائل ہیں۔

گو کہ پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران نجی نیوز چینلز نے سرکاری ٹی وی سے ہٹ کر خبریں اور حالاتِ حاضرہ پر پروگرام پیش کرنے کا آغاز کیا۔ تاہم حالیہ برسوں میں ان پر بھی قدغنوں اور سخت سنسر شپ کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔

پاکستان میں نجی نیوز چینلز کی دو دہائیوں پر محیط کارکردگی پر جہاں مختلف آرا پائی جاتی ہیں وہیں بعض مبصرین کے نزدیک مجموعی طور پر پاکستان میں صحافت کا معیار بہتر ہونے کے بجائے بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔

روزنامہ ‘ڈان’ اسلام آباد کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر اور اینکر فہد حسین کا کہنا ہے کہ انہوں نے میڈیا انڈسٹری کے اُتار چڑھاؤ کو قریب سے دیکھا ہے بلکہ اس کا حصہ بھی ہیں۔

فہد حسین کہتے ہیں کہ اُنہیں یہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود بیشتر نجی نیوز چینلز اب بھی معیاری صحافت اور صحافتی اقدار کو پروان نہیں چڑھا سکے۔

اُن کے بقول “ہم آج بھی بریکنگ اور لائیو رپورٹنگ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔”

اس سوال کے جواب میں کہ ایسا ہونے کی آخر کیا وجہ ہے؟ فہد حسین کا کہنا تھا کہ وجوہات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں خبر کے تمام پہلو شامل کرنے کا فقدان اور اداروں میں صحافتی اقدار سے زیادہ کمرشلزم کو ترجیح دینا ہے۔

ان کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ میڈیا کے ادارے مضبوط تو ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ ایک منافع بخش کاروبار بھی بنتے گئے جس نے لامحالہ معیاری صحافت پر منفی اثرات مرتب کیے۔

پاکستان کے نجی نیوز چینل کے نیوز روم کا منظر
پاکستان کے نجی نیوز چینل کے نیوز روم کا منظر

‘ہماری صحافت صرف بیانات پر مبنی ہے’

غیر سرکاری ادارہ ‘مشعل’ گزشتہ 15 برس سے زائد عرصے سے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کا کام کر رہا ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عامر جہانگیر، فہد حسین کی اس بات سے متفق ہیں کہ صحافت کا معیار بہتر نہیں ہو رہا۔ ان کے نزدیک اس کی ایک بنیادی وجہ صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کا فقدان ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ “ہماری صحافت، چاہے ٹی وی شو ہوں یا خبر، صرف بیانات پر مبنی ہے۔”

ان کے مطابق خبر ہو یا ٹاک شوز پر ہونے والے مباحثے، یہ مخصوص سیاسی جماعتوں، سیاسی شخصیات کے بیانات کے گرد ہی گھومتے ہیں جب کہ دنیا اس اندازِ صحافت کو زمانہ پہلے چھوڑ چکی ہے۔

عامر جہانگیر
عامر جہانگیر

ان کا کہنا تھا کہ کمرشلزم سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ نشریاتی ادارے خود اپنے عملے کی تربیت پر توجہ دیتے ہیں نہ ہی اس پر پیسہ لگانے کو تیار ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں صحافت ایک خاص مقام سے آگے نہیں جا پا رہی اور اس کی ترقی کی رفتار بھی کم ہو چکی ہے۔

فہد حسین اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ صحافتی معیار صرف ایک خاص جگہ پر ٹھہر نہیں گیا بلکہ یہ بتدریج گر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ ٹی وی نہ صرف ایک منافع بخش کاروبار ثابت ہوا ہے بلکہ اسے چلانے والے جانتے ہیں کہ اس کی اپنی سماجی طاقت بھی ہے جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سینئر صحافی فہد حسین
سینئر صحافی فہد حسین

پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 90 سے زائد سیٹیلائٹ چینلز ہیں اور ان میں سے 30 چینلز صرف خبریں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔

فہد حسین کے بقول یہ ٹی وی کی سماجی طاقت اور بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہی ہے جس کی وجہ سے آج ٹی وی مالکان براہِ راست بہت سے ایسے فیصلے کرتے ہیں جو بنیادی طور پر ایڈیٹر کو کرنے چاہیے۔

ان کے مطابق اخبارات میں بھی مالکان کا عمل دخل ہمیشہ سے رہا ہے لیکن ٹی وی کی مقبولیت اور بہتر آمدنی نے میڈیا مالکان کی دخل اندازی کو بہت بڑھا دیا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ صحافی وہ کام نہیں کر پا رہے جو انہیں کرنا چاہیے۔

میڈیا پر کوئی غیر معمولی دباؤ نہیں ہے’

البتہ ہم نیوز کے بانی درید قریشی مالکان کی مداخلت کے تاثر سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا پر کوئی غیر معمولی دباؤ نہیں اور گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں صحافت کا معیار پہلے سے بہت بہتر ہوا ہے۔

ان کے مطابق اس کی دو اہم وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ آج ٹی وی پر چلنے والا ایک بھی غلط ٹکر یا خبر چینل مالکان کے لیے وبالِ جان بن سکتا ہے۔ ادارے آج چینلز کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے پیمرا کو جواب دہ ہیں جب کہ غلطی کی صورت میں بات عدالتوں تک بھی جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خود احتسابی کے طریقۂ کار جو آج اداروں میں اپنائے جا رہے ہیں وہ پہلے نہیں تھے۔

درید قریشی
درید قریشی

ان کا کہنا ہے کہ تمام بڑے تعلیمی ادارے صحافت کو بطور مضمون معیاری طریقے سے پڑھا رہے ہیں اس لیے یہ تنقید بے جا ہے کہ صحافیوں کو تربیت کی ضرورت ہے۔

تاہم عامر جہانگیر درید قریشی سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستانی صحافی کو دنیا میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے میڈیا مالکان خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ کیوں کہ آج کے دور میں آئے روز تربیتی کورسز کا اہتمام ہونا چاہیے۔

فہد حسین کے بقول نشریاتی اداروں پر بڑھتا ہوا ‘دباؤ’ اور معاشی اتار چڑھاؤ نے بھی صحافیوں کے کام کو متاثر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحافی سمجھتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا میں آزدیِ اظہارِ رائے کا فقدان ہے اور کسی بھی خبر کو صحیح معنوں میں غیر جانب دارانہ انداز میں پیش کرنا کم و بیش نا ممکن ہو چکا ہے۔

‘سیدھی اور کھری بات کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے’

اس مسئلے کی نشان دہی صحافی عمر چیمہ بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے 2016 میں ایک بین الاقوامی ادارے ‘انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس’ (آئی سی ایف جی) کے ساتھ پاناما پیپرز پر بطور نمائندہ پاکستان کام کیا تھا۔

پاناما دستاویزات نے پاکستان سمیت پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ان پیپرز کے ذریعے کئی پاکستانی سیاست دانوں کی بیرونِ ملک کمپنیوں کا انکشاف ہوا تھا۔

عمر چیمہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ بات ماننی پڑے گی کہ اس وقت صحافت میں غیر جانبدارانہ نکتۂ نظر پیش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ اس میں ادارے کے دباؤ کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے طرزِ سیاست کا بھی ہاتھ ہے۔

ان کے مطابق اگر آج آپ ہیرو ہیں تو دوسرے ہی دن آپ کو اپنی ہی کسی رپورٹ کی وجہ سے ‘لفافہ صحافی’ قرار دے دیا جاتا ہے۔ صرف اس لیے کیوں کہ وہ کسی مخصوص حلقے کو پسند نہیں آتی۔ ان کے بقول اس وقت سیدھی اور کھری بات کرنا سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے کیوں کہ صحافیوں کی کردار کشی ایک معمول بن چکی ہے۔

عمر چیمہ کہتے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا میں کام کرنے کے اپنے ضابطے اور حدود ہیں جن سے بچنے کے لیے بہت سے صحافی دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تو چلے گئے ہیں لیکن ان پلیٹ فارمز کے ذریعے مستقل آمدنی کا بندوبست کرنا اتنا آسان کام نہیں۔

ان کے مطابق ایسے کچھ صحافتی ادارے ضرور ہونے چاہئیں جو منافع کے لیے کام نہ کریں بلکہ ان کا مقصد صحافت کی اعلیٰ اقدار اور بہتر رپورٹنگ کو ترویج دینا ہو۔

ٹی وی کے لیے لائیو کوریج ہو یا ٹاک شو کے موضوعات، صحافیوں کا یہی کہنا ہے کہ بدلتے وقت کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تربیت لازمی ہونی چاہیے جب کہ صحافتی کام کو غیر جانب دار رکھنے اور اعلیٰ صحافتی اقدار کو اپنانے کے لیے میڈیا ہاؤسز میں کمرشلزم کم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments