آزادی صحافت کا دن : کوئی ویرانی سی ویرانی ہے


کوئی بھی عالمی دن مناتے ہوئے جب اپنے گھر پر نگاہ پڑتی ہے تو پہلا خیال وہی آتا ہے جو مرزا غالب کو آیا تھا۔ یعنی ”کوئی ویرانی سی ویرانی ہے“ ۔ ابھی دو دن پہلے، یکم مئی کو ہم نے مزدوروں کا دن منایا۔ اس لئے نہیں کہ ہمیں مزدوروں سے بہت ہمدردی ہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ ہمیں علامہ اقبال کا وہ مصرع یاد آ گیا ہے کہ ”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“ اور ہم نے ان کی تلخیوں کو کم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ اس لئے بھی نہیں کہ ہماری وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی انقلابی اعلان کرنا تھا۔

بلکہ صرف اس لئے کہ ساری دنیا ایسا کر رہی ہے سو ہمیں بھی شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں یہ دن منانا چاہیے۔ سو منا لیا۔ ایک خبر میری نگاہ سے گزری ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے مزدوروں کی کم سے کم اجرت بیس ہزار روپے ماہانہ کر دی ہے۔ اچھی بات ہے لیکن دنیا کے یا پاکستان ہی کے کسی ماہر معیشت سے کہا جائے کہ وہ اوسطا چھ افراد پر مشتمل ایک چھوٹے سے خاندان کے لئے بیس ہزار روپے کا بجٹ بنا دے۔ یہ بھی مت بھولیے کہ مزدوروں اور محنت کشوں کا ایک بڑا طبقہ دیہاڑی دار کہلاتا ہے۔ اس کے ہاں ماہانہ تنخواہ کا تو تصور ہی نہیں۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اسے مہینے میں کتنے دن مزدوری میسر آئے گی۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ مزدور یا محنت کش بھاری تعداد میں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ سو حکومت کے اعلانات کو سیٹھ لوگ کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کا انحصار خود سیٹھ صاحبان کی صوابدید پر ہے۔

مزدوروں ہی کی طرح، آج ہم آزادی صحافت کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ اس پہلو سے بھی جب اپنے ملک کے حالات پر نظر پڑتی ہے تو افسوس ہی ہوتا ہے کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پستی اور زوال کی طرف جا رہے ہیں۔ یقیناً عالمی یوم مزدور ہی کی طرح کسی نہ کسی طور ہم یہ دن بھی ضرور منائیں گے۔ وزراء کے بیانات جاری ہوں گے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ صحافی معاشرے کا انتہائی محترم طبقہ ہیں۔ ان کے حقوق کی ہر قیمت پر حفاظت کی جائے گی۔

میڈیا کی آزادی پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اس ستون کو ہم مضبوط سے مضبوط تر بنانے کا عمل جاری رکھیں گے۔ یہ اور اس طرح کے خوش کن بیانات جاری ہوں گے۔ شاید کچھ اور بھی ہوں جس کا مجھے اس وقت اندازہ نہیں۔ لیکن کیا واقعی صحافت یا صحافیوں کے حوالے سے کوئی بڑی تبدیلی آ جائے گی؟ کیا واقعی صحافی کو یہ آزادی مل جائے گی کہ وہ جسے سچ سمجھتا ہے، پوری قوت کے ساتھ اس کا اظہار کر لے، کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا؟

کیا واقعی جمہوری ممالک کی طرح یہاں رائے کی آزادی ہو گی چاہے وہ رائے کسی اور کو کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے؟ کیا اخبار وہ سب کچھ چھاپ سکیں گے جو وہ چھاپنا چاہتے ہیں؟ کیا ٹی وی چینلوں پر وہ بات کہی جا سکے گی جو ہے تو سچ، لیکن اسے کہنے کی اجازت نہیں۔ کیا یہاں تحمل و برداشت کا وہ کلچر پیدا ہو سکے گا جو جمہوریت ہی نہیں، صحافت کی بھی روح ہے۔ یہ تو جانے دیجئے۔ کیا صحافیوں کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو جائے گا کہ ان کی زندگی کو کسی اندھی گولی سے کوئی خطرہ نہیں؟ کیا صحافیوں کے اہل خانہ کو یہ خوف نہیں رہے گا کہ نہ جانے صحافت کے پیشے سے وابستہ ان کا پیارا گھر آ جائے گا یا غائب ہو جائے گا؟ یقین جانیے پاکستان میں کسی ایک فرد کو بھی یہ خوش فہمی نہیں ہوگی کہ آنے والے دن، جانے والے دنوں سے بہتر ہوں گے اور صحافت کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔

گزشتہ ہفتے ہی پاکستانی صحافت اور صحافیوں کے حوالے سے معروف ادارے ”فریڈم نیٹ ورک“ کی رپورٹ برائے 2019۔ 20 منظر عام پر آئی ہے۔ اس رپورٹ میں جائزہ لیا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو قتل کرنے، ان پر تشدد کرنے، انہیں ہراساں کرنے، انہیں اغوا کرنے، انہیں گرفتار کر کے زیر حراست رکھنے، انہیں دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات قائم کرنے کے کتنے واقعات پیش آئے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 91 واقعات پیش آئے۔

جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں صحافی اور صحافت کس نوع کے مسائل کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہر ماہ کم و بیش سات واقعات ایسے پیش آئے جن میں آزادی صحافت پر کسی نہ کسی طرح حملہ ہوا۔ یہ رپورٹ کہتی ہے ”شدید سنسر شپ، صحافیوں کے قتل، دھمکیوں، دباو، ہراساں کرنے جیسے واقعات کے باعث پاکستانی میڈیا کے گرد شکنجہ سخت ہو رہا ہے“ ۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ زیر نظر ایک سال میں سات صحافی قتل کر دیے گئے۔ دو اغوا کیے گئے۔

نو کو گرفتار کر کے زیر حراست رکھا گیا۔ دس صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں یہ نہایت ہی افسوسناک انکشاف ہوا ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد، صحافیوں کے لئے سب سے غیر محفوظ مقام ہے جہاں 34 فیصد مذکورہ بالا پر تشدد واقعات پیش آئے۔ سندھ 27 فیصد کے ساتھ دوسرے، پنجاب 22 فیصد کے ساتھ تیسرے، خیبر پختونخوا 14 فیصد کے ساتھ چوتھے جبکہ بلوچستان 3 فیصد کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ 69 فیصد واقعات ٹی۔ وی صحافیوں کے ساتھ پیش آئے کیوں کہ انہیں پہچاننا آسان تھا۔

”رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز“ صحافت اور صحافیوں کے حالات پر نظر رکھنے والا نامور عالمی ادارہ ہے۔ گزشتہ ماہ اپریل کے اواخر میں اس نے آزادی صحافت کے حوالے سے درجہ بندی (ranking) جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا بھر کے 180 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے۔ پاکستان کا نمبر 145 واں ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2018 کے بعد سے پاکستانی صحافت شدید دباو میں چلی آ رہی ہے اور یہ دباو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

سو ہمارے لئے صحافت کا دن منانا بھی رونا دھونا او ر سیاپا کرنا ہی ہے۔ لیکن جی چاہتا ہے کہ ان مشکل تریں حالات میں بھی، جب سچ کہنے کا مطلب اپنی جان گنوانا بھی ہو سکتا ہے، پاکستان ایسے بہادر صحافیوں سے خالی نہیں جو واقعی اپنی جان ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں اور سچ بات کہہ رہے ہیں۔ آزادی صحافت کی راہ میں جن کا خون بہا وہ بھی ہمارے ہیرو ہیں اور جو تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے، جس قدر بھی ممکن ہے، آزادی صحافت کا قرض ادا کر رہے ہیں، وہ بھی یقیناً ہمارے ہیرو ہیں۔ ان سب کو سلام۔ آئی۔ اے۔ رحمان مرحوم کہا کرتے تھے کہ مایوس نہیں ہونا، جتنی بات بھی کہی جا سکے کہتے رہو، جتنی بھی لکھی جا سکے، لکھتے رہو۔ ہم نہ سہی کوئی تو آئے گا جس کا قلم آزادی سے حق لکھ سکے گا اور اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments