‏‏‏‏غاصب اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کا مرتکب


غاصب ریاست اسرائیل، اس کی قابض فوجیں اور اس کے غیر مہذب، شدت پسند صہیونی شہری ہر وقت کسی نہ کسی حیلہ اور بہانہ کی تلاش و جستجو میں لگے رہتے کہ کوئی موقع ہاتھ لگے اور بچے کھچے فلسطین پر بمباری شروع کردیں، فلسطین کے معصوم شہریوں پر راکٹ داغ سکیں، فلسطینیوں کے خلاف بے دریغ اپنے اسلحہ کا استعمال کرسکیں، ان کے خون سے اپنی پیاس بجھا سکیں، ان کی سر سبز و شاداب کھیتی اور ہرے بھرے باغات کو نذر آتش کر کے اپنی درندگی کو سکون پہنچا سکیں۔

ابھی اوائل رمضان ( 1442 ہ) میں یہ خبر آئی تھی کہ اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے وسطی غزہ میں، البریج مہاجر کیمپ کے قریب اور خان یونس کے مقام پر متعدد بار بمباری کی۔ انھوں نے جنوبی غزہ میں رفح کے مقام پر میزائل داغا۔ ہر مہینے، دو مہینے میں ایک دو بار اس طرح کی بمباری کرنا اور میزائل داغنا غاصب ریاست کے معمول کا حصہ ہے۔ جہاں تک قابض اسرائیلی فوجیوں کی بات ہے، تو اس کا کسی نہ کسی شکل میں فلسطینیوں پر ظلم وجور کرنا، ان کو تکلیف و اذیت دینا اور خطرناک اسلحہ سے لیس ہو کر، ان کو خوف زدہ اور دہشت زدہ کرنا، تو بغیر کسی استثناء کے شب و روز کا مشغلہ ہے۔

غاصب ریاست اسرائیل کی طرف سے فلسطین کے خلاف اس طرح کی منظم تباہی و بربادی اور معصوم انسانی جانوں کی ہلاکت پر کسی عالمی طاقت نے نوٹس لے کر، اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے یا پھر کسی دوسری یونین اور تنظیم کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا پرزور مطالبہ نہیں کیا۔ جب بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا اس کے ذیلی ادارے میں اس طرح کی بات آتی ہے ؛ تو محض رسمی طور پر مذمتی قرار داد پاس کر کے، سب کے سب خاموش ہو جاتے ہیں اور اسرائیلی حکومت اپنے طور پر اس قرارداد کو مسترد کر کے، سکون کی سانس لینا شروع کر دیتی ہے۔ اگر اقوام متحدہ میں اس سے زیادہ کچھ کرنے کی کوشش کی جائے گی؛ تو امریکہ بہادر اسے ویٹو کرنے کے لیے تیار بیٹھا رہتا ہے۔

ابھی ماہ رواں یعنی بہ روز منگل، 27 / اپریل 2021 کو ”ہیومن رائٹس واچ“ نے 213 صفحات مشتمل اپنی تفصیلی اور جامع رپورٹ پیش کی ہے۔ اس تنظیم نے اپنی رپورٹ میں یہ بات واضح طور پر کہی ہے کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں (وہ فلسطینی جنھوں نے اسرائیلی شہریت اختیار کرلی ہے۔ ) کے خلاف ”اپارتھائیڈ“ (Apartheid) اور ریاستی جبر و استبداد، ظلم و ستم کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی حکمت عملی یہ ہے کہ اپنے عرب شہریوں سمیت مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلط کو قائم رکھا جائے۔

”ہیومن رائٹس واچ“ نے اپنی اس رپورٹ میں ”بین الاقوامی عدالت“ سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف برتی جانے والی نسلی امتیاز کے حوالے سے جانچ کرے اور اس جرم میں ملوث پائے جانے والے لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ اپارتھائیڈ (Apartheid) انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا معنی ہے : ”ایک ایسا سیاسی نظام جہاں، لوگ واضح طور پر رنگ، نسل، جنس وغیرہ کی بنیاد پر آپس میں منقسم ہوں۔“ یہاں اس رپورٹ میں اس لفظ کا مطلب فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کی ایسی پالیسی ہے جسے غاصب اسرائیل ریاست انجام دے رہی ہے۔

یہ عالمی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرمسٹر کینتھ روتھ نے صاف صاف یہ بیان دیا ہے کہ اسرائیل چالیس سالوں سے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ مسٹر کینتھ روتھ نے کھلے لفظوں میں یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت پر فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ جرائم کے ارتکاب کے ثبوت موجود ہیں۔ واضح رہے کہ ہیومن رائٹس واچ حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم جو عالمی سطح پر حقوق انسانی کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کی ہیڈ آفس امریکہ کے نیویارک شہر میں قائم ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالتے ہی، اقوام متحدہ میں قائم امریکی سفیر رچرڈ ملز نے 26 /جنوری 2021 کو کہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن فلسطینیوں کی مدد بحال کرنے اور ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں بند کیے گئے فلسطینی سفارتی مشن کو جلد کھولنا چاہتے ہیں۔ اس سفیر نے مزید کہا تھا کہ بائیڈن کی پالیسی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے دو ریاستی حل کی حمایت پر مبنی ہے۔ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ ریاستوں کے قیام کے حامی ہیں، جہاں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی بھی اپنی ایک آزاد ریاست میں جی سکیں۔

اس خبر کے بعد ، انسانیت پسند لوگوں کو ایک امید جگی تھی کہ امریکہ کی موجودہ انتظامیہ اپنے پیشرو کے غلط فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کے لیے کچھ مثبت فیصلے لے گی؛ مگر ”ہیومن رائٹس واچ“ کی اس رپورٹ کے آتے ہی بائیڈن انتظامیہ نے بھی امید کے برخلاف اس رپورٹ کو مسترد کر دیا اور اسرائیل کو بچانے کے لیے میدان میں آ گئی۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین بسا کنی نے یہ بیان دیا ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جو رپورٹ آئی ہے اور جس میں اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگایا گیا ہے، وہ ہمارے موقف کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ ہر سال انسانی حقوق کی تحقیقات کرتا ہے اور اس حوالے سے ایک رپورٹ شائع کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیل کے حوالے سے کبھی بھی ایسی اصطلاح استعمال نہیں کی۔

جہاں ایک طرف ”ہیومن رائٹس واچ“ کی یہ تفصیلی رپورٹ 27 / اپریل 2021 کو آئی، وہیں دوسری طرف بیروت میں منعقد ہونے والی عرب پارلیمنٹ اجلاس کی طرف سے، اسی دن ایک بیان جاری کیا گیا۔ اس کا ایک حصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ، ہم اس پر بھی غور کریں گے کہ یہ بیان کتنا موثر ثابت ہوگا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ انسانی حقوق کی تنظیموں، قومی پارلیمنٹس اور بین الاقوامی پارلیمانی یونینوں سے وابستہ بین الاقوامی تنظیموں سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے، قانونی احتساب کے اصول کو فعال کرنے اور اس قابض ریاست اور اس کے آباد کاروں کے خلاف کارروائی پر زور دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بیت المقدس کے ہمارے فلسطینی بھائیوں کو جبر و تشدد کے ذریعے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اسرائیلی ریاست بیت المقدس کی آئینی اور آبادیاتی حیثیت تبدیل کرنے کے لیے یہودی آباد کاروں کا فلسطینی آبادی پر غلبہ اور تسلط قائم کرنا چاہتی ہے۔ عرب پارلیمانی یونین نے بین الاقوامی برادری، سلامتی کونسل اور دنیا کے تمام آزاد ضمیر انسانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ و ہ قابض ریاست اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف جاری سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے آواز بلند کریں۔ واضح رہے کہ ”عرب پارلیمنٹ“ عرب لیگ کا ایک ذیلی ادارہ ہے جو 27 / دسمبر 2002 کو قائم ہوا۔ عرب ممبر ممالک میں سے ہر ایک کی طرف سے تقریباً چار چار افراد اس پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔

ایک طرف عرب پارلیمنٹ کا یہ بیان ہے ؛ جب کہ دوسری طرف کچھ عرب ممالک کے عملی اقدامات ہیں۔ اب ان دونوں صورت حال کو پیش نظر رکھ کر، دوسرے بین الاقوامی برادری سے کچھ دیر کے لیے صرف نظر کر کے، صرف عرب اور مسلم ممالک پر توجہ دیجیے اور غور کیجیے ؛ تو ایک اہم سوال آپ کے سامنے آئے گا کہ کیا ان ممالک پر عرب پارلیمنٹ کے اس مطالبہ کا کچھ اثر پڑے گا؟ جواب یقیناً نفی میں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی چند مہینے پہلے کچھ عرب ممالک نے، امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نگرانی میں، غاصب ریاست اسرائیل کی طرف خوشی خوشی دوستی کا ہاتھ بڑھا کر، اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔

کسی شروط و قیود کے بغیر ان ممالک کا غاصب ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنا، در حقیقت غاصب ریاست کے سنگین جرائم کو جواز فراہم کرنے جیسا ہے۔ پھر یہ ممالک قابض و غاصب ریاست اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف جاری سنگین جرائم کی روک تھام کے لیے اپنی آواز کیسے بلند کرسکیں گے! غاصب ریاست اسرائیل کا فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز اور ریاستی جبر و استبداد کے جرائم کا مرتکب ہونے کے بعد بھی کچھ عرب ریاستوں کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے رہنا اور ”عرب پارلیمنٹ“ کے ذریعے عالمی برادری سے اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے کا مطالبہ زبانی جمع خرچ کرنے کے برابر ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ بعض عرب ممالک اپنی طرف سے جتنی بھی کوشش کر لیں، جس درجے کی بھی دوستی کر لیں، جس سطح کے بھی تعلقات قائم کر لیں، غاصب و قابض ریاست اسرائیل اور اس کا آقا امریکہ کبھی بھی ان ممالک کے حقیقی کے دوست نہیں ہوسکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے : ﴿یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھود والنصارى اولیاء بعضھم اولیاء بعضٍ ومن یتولھم منکم فانہ منھم﴾۔ (سورہ مائدۃ: 51 ) ترجمہ: ”اے ایمان والو! یہودیوں اور نصرانیوں کو یار و مددگار نہ بناؤ۔ یہ خود ہی ایک دوسرے کے یار و مددگار ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا؛ تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔“ اللہ پاک ہم سب کو پیغامات قرآنی کو سمجھنے اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments