انسانی حقوق کی صورت حال پر ایچ آر سی پی کی رپورٹ: سنہ 2020 معاشی مسائل اور اظہار رائے پر پابندیوں کا سال


ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے 2020 میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق رپورٹ کے اجراء کا مقصد ریاست اور حکومت کو اس خود اطمینانی سے باہر نکالنا ہے کہ ایک نیولبرل اور متعصب نظام پاکستان کے عوام کو وہ حقوق اور آزادیاں دے سکتا ہے جن کے وہ قانونی اور آئینی طورپر مستحق ہیں۔

کوویڈ 19 بحران کا انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہوئے، ایچ آر سی پی اس نتیجے پر پہنچا کہ وبا نے پہلے سے موجود ناہمواریوں میں اضافہ کر دیا ہے جس سے لاکھوں مزدور اپنے روزگار سے محرومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام اور احساس پروگراموں کو حکومت نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وبا سے نبٹنے کی حکمت عملی کا حصّہ بنایا۔ اس وجہ سے امید ہے کہ ہزاروں لوگ غربت کی پاتال سے بچ جائیں گے۔ مگر یہ پروگرام غریب دوست حکمت عملی کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت کے حق کو دستور کے تحت بنیادی حق تسلیم کرے اور مستعدی، معیار اور رسائی کے شعبوں کے لیے مناسب وسائل مختص کرے۔

انتخابات ایکٹ 2017 اور اٹھارہویں آئینی ترمیم کی روح سے روگردانی کرتے ہوئے چاروں صوبوں میں مقامی حکومت کے انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔ یہ انتہائی پریشان کن امر ہے۔ کوویڈ 19 جیسی صورتحال میں مؤثر مقامی حکومتوں کا وجود انتہائی ضروری ہے۔

کوویڈ 19 کی وبا تعلیمی اداروں کے لیے بھی بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ طالب علم آن لائن کلاسز لینے پر مجبور ہوئے اور بھروسے کے قابل انٹرنیٹ تک کم یا عدم رسائی کے باعث بلوچستان، خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع اور گلگت بلتستان میں ہزاروں طالب علموں کو نقصان اٹھانا پڑا۔

رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے گھریلو اور آن لائن تشدد کی شکایات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا پریس رپورٹس سے جمع کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر، ایچ آر سی پی نے 2020 کی رپورٹ میں میں غیرت کے نام پر قتل کے 430 واقعات درج کیے جن میں 148 مرد اور 363 خواتین شامل تھیں.

10 ستمبر 2020 کی رات اپنے بچوں کی موجودگی میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ ہوا جس پر شدید عوامی رد عمل سامنے آیا مگر لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ نے اس واقعے کے مجرموں کو گرفتار کرنے کی بجائے متاثرہ عورت پر یہ الزام عائد کیا کہ اس کو رات کو تنہا سفر نہیں کرنا چاہئے تھا۔

ایچ آر سی پی نے پچھلے سال میں جبری مذہب تبدیلی کے 31 کسیز کو ریکارڈ کیا، جن میں سے چھ نابالغ افراد شامل تھے۔ پولیس کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2020 میں کم سے کم 586 افراد پر توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جن میں اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا.

 پچھلے سال میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے کم از کم تین افراد کو مذہب کی وجہ سے قتل کیا گیا جب کہ ایک شخض پر گستاخی کا الزام لگا کر کمرہ عدالت میں ہی مار دیا گیا

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں ملک بھر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے 2960 واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے جب کہ اصل واقعات کی تعداد رپورٹڈ کسیز سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ بچوں کے خلاف انتہائی گھناؤنے جرائم میں اغوا سے لے کرزیادتی اور قتل تک کے واقعات شامل تھے جب کہ کچھ واقعات میں تو ایک سال کی عمر کے شیر خوار بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا.

2020  میں انسانی حقوق کی صورت حال کا صحافت کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر جاری ہونا ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ اب یہ لگارتار تیسرا برس ہے کہ ایچ آر سی پی اپنی رپورٹ میں اظہار اور رائے کی آزادی پر بڑھتی قدغنوں کو اجاگر کر رہا رہے۔ سینئیر صحافی مطیع اللہ جان کے اغواء سے لے کر جنگ گروپ کے سربراہ شکیل الرحمٰن کی گرفتاری تک کی کارروائیوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ ذرائع ابلاغ کو سرکاری مؤقف کے آگے جھکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ امر بھی پریشانی کا سبب ہے کہ قومی احتساب بیورو شفاف سماعت اور باضابطہ قانونی کارروائی کے حق سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے لیے بدستور ایک آلہ کار کےطور پر استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے بہت زيادہ رہی۔ جیلوں میں قید افراد کی شرح 124 فیصد تھی۔ یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں کچھ حد تک کم تھی مگر ملک کی جیلوں میں وبا کے حالیہ خطرے کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریاست دیکھ بھال کے فریضے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی کہ 2020 میں لگ بھگ 177 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں بہت کم ہے جب 578 افراد کو موت کی سزا ہوئی تھی۔ 2020 میں کسی فرد کو تختہ دار پر لٹکانے کی اطلاع سامنے نہیں آئی۔

موجودہ حکومت کے 2018 سے عزم کے مسلسل اظہار کے باوجود، جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کا بل طویل عرصہ سے قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا۔ اس کے باوجود کہ انکوائری کمیشن برائے جبری گمشدگیاں اس جرم میں ملوث عناصر کا قانونی کارروائی سے استثنیٰ ختم کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہے، حکومت نے اس کے اختیارات میں تین سال کی مزید توسیع دے دی ہے۔

دریں اثنا، فرنٹئیر کور کے سپاہی کے ہاتھوں ایک غیرمسلح طالبعلم حیات بلوچ کے قتل سے لے کر چار سالہ برمش پر فائرنگ تک، اور ان الزامات سمیت کہ حملہ آوروں کو ‘ڈیتھ اسکواڈ’ کے ایک مقامی رہنما نے بھیجا تھا، بلوچستان مقتدر حلقوں کی زیادتیوں کا خاص نشانہ بنا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments