پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے حمل اور زچگی کے دوران خواتین کھلاڑیوں کے لیے سپورٹ پالیسی کا اعلان

عبدالرشید شکور - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


بسمہ معروف

بسمہ معروف نے گزشتہ ماہ یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہیں اور اس کے باعث کرکٹ سے غیر معینہ مدت کے لیے بریک لے رہی ہیں

ʹپاکستان کرکٹ بورڈ نے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اس سے نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی خواتین کرکٹرز کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ ہمارے یہاں عام طور پر شادی کے بعد کھیلنے کا رواج نہیں رہا ہے لیکن اب یہ سوچ تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ جو پالیسی دی ہے اس سے فیملیز کو اچھا اور مثبت پیغام جائے گا کہ لڑکیاں شادی کے بعد بھی کھیل سکتی ہیںʹ۔

پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم کی کپتان بسمہ معروف اس بات پر بہت خوش ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بچے کی پیدائش پر کھلاڑیوں کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ چھٹی دینے کی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔

بسمہ معروف نے گزشتہ ماہ جب یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہیں اور زندگی کے ایک نئے باب میں داخل ہونے والی ہیں تو اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کی حاملہ کھلاڑیوں کو چھٹی اور تنخواہ دینے سے متعلق کوئی پالیسی نہیں تھی۔ مردوں کے لیے بھی بچے کی پیدائش کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں تھی۔

تاہم بورڈ نے اب ایک ایسی پالیسی تشکیل دی ہے جس کے تحت سینٹرل کنٹریکٹ رکھنے والی خواتین کرکٹرز کو ’مٹرنٹی لیو‘ یا زچگی کی چھٹی سے پہلے حمل کے دوران دیگر عہدوں پر ٹراسفر کا جا سکے گا۔ وہ بارہ ماہ کی ’مٹرنٹی لیو‘ لے سکیں گی جس دوران انھیں تنخواہ ملے گی۔ انھیں اس بات کی گارنٹی بھی حاصل ہوگی کہ انھیں واپسی پر ایک سال کا کانٹریکٹ دیا جائے گا۔

مرد کھلاڑیوں کو تنخواہ سمیت 30 دن کی چھٹی ملے گی۔

بسمہ معروف کہتی ہیں ʹکسی بھی کھلاڑی کے لیے اس سے زیادہ خوشی اور اطمینان کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے یہ پتہ ہوکہ اس کا کریئر محفوظ ہے اور آپ کو مالی طور پر سپورٹ کیا جارہا ہے، تو بہت سی چیزیں آسان ہوجاتی ہیں۔ اب خواتین کرکٹرز کے لیے صورتحال بہت واضح ہوگئی ہے اور انہیں پتہ ہوگا کہ ان کے کریئر کا مستقبل کیا ہوگا کیونکہ اس سے پہلے خواتین کرکٹرز کو یہ نہیں معلوم تھا کہ شادی کے بعد ان کے کریئر کا کیا ہوگا۔ اب فیملیز بھی بہت معاون ثابت ہوں گیʹ۔

The Pakistan women's team at the World T20

خواتین کرکٹرز کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ بارہ ماہ کی چھٹی ملے گی اور یہ کرکٹرز سینٹرل کنٹریکٹ کی میعاد میں ایک سال کی توسیع کی حقدار بھی ہوں گی (فائل فوٹو)

پاکستانی خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثنا میر کے خیال میں اس پالیسی سے کھلاڑیوں کو اپنی زندگی میں بہتر انداز میں توازن برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور آنے والی کرکٹرز کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی۔

بیٹی کو دیکھنے کے لیے بے تاب

پاکستان کی مردوں کی قومی ٹیم میں بھی ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جب کرکٹرز کو غیرمعمولی صورتحال میں اپنی فیملیز کے ساتھ ہونا چاہیے تھا لیکن اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں سے دور تھے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم اس وقت زمبابوے میں ہے اور فاسٹ بولر حسن علی اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں جس کی پیدائش حال ہی میں ہوئی ہے۔

ہرارے ٹیسٹ میں شاندار بولنگ کے ذریعے مین آف دی میچ بننے والے حسن علی کہتے ہیں ʹمجھے اپنی بیٹی بہت یاد آرہی ہے لیکن آپ کے لیے ملک پہلے ہے۔ ہم نیشنل ڈیوٹی پر ہیں۔ اسی ملک نے ہمیں عزت دی ہے اور اسی ملک کے لیے ہم کھیل رہے ہیںʹ۔

حسن علی کہتے ہیں ʹمیں ایک ایک دن گن رہا ہوں کہ واپسی کی فلائٹ کب ہوگی اور میں اپنی بیٹی کو دیکھ سکوں تاہم ملک کے لیے آپ کو یہ چیزیں برداشت کرنی پڑتی ہیںʹ۔

کریئر کے بارے میں بے یقینی ختم ہوگی

فاسٹ بولر وہاب ریاض کے لیے وہ لمحہ کٹھن تھا جب وہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ سری لنکا میں تھے اور لاہور میں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی اور اسے گیارہ روز تک ہسپتال میں رہنا پڑا تھا۔

وہاب ریاض کہتے ہیں ʹاس وقت میرا ٹیم میں کم بیک ہوا تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو جاکر دیکھوں۔ اس طرح کی صورتحال میں آپ کے جو احساسات ہوتے ہیں انہیں بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میں اس وقت بہت زیادہ پریشان تھا۔ جب آپ کے ساتھ اس طرح کی صورتحال ہو تو آپ کتنے ہی مضبوط اعصاب کے مالک ہوں آپ کا کھیل اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے کیونکہ آپ ذہنی طور پر پریشان ہوتے ہیںʹ۔

وہاب ریاض کہتے ہیں ʹاس پالیسی کے نتیجے میں کھلاڑیوں کے ذہنوں میں پائی جانے والی بے یقینی ختم ہو جائے گی اور انہیں پتہ ہوگا کہ بچے کی پیدائش کے وقت وہ اپنے کھیل سے وقتی طور پر دور رہنے کے بعد دوبارہ اس طرف آسکیں گے کیونکہ ماضی میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اس طرح کی غیرمعمولی صورتحال میں کرکٹرز اسی شش وپنج میں رہتے رہے ہیں کہ انہیں دورے پر جانا چاہیے یا نہیں کیونکہ انہیں اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ ٹیم سے دور ہوئے تو پھر دوبارہ جگہ بن پائے گی یا نہیں۔ لیکن اب کھلاڑی بورڈ کو آسانی سے یہ بتاسکیں گے کہ مجھے اپنی فیملی کے ساتھ کچھ وقت درکار ہےʹ۔

یہ پالیسی کیا ہے؟

اس پالیسی کے تحت خواتین کرکٹرز زچگی کی چھٹی سے پہلے اور بچے کی پیدائش تک حمل کے دنوں میں اپنے لیے میدان میں اترنے کے علاوہ کوئی دوسرا رول اختیار کرسکیں گی۔ اس موقع پر خواتین کرکٹرز کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ بارہ ماہ کی چھٹی ملے گی اور یہ کرکٹرز سینٹرل کنٹریکٹ کی میعاد میں ایک سال کی توسیع کی حقدار بھی ہوں گی۔

خاتون کرکٹر کو زچگی کے چھٹی ختم ہونے کے بعد کرکٹ کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے گا اور پوسٹ چائلڈ ری ہیب پروگرام کے تحت طبی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔

اگر کسی خاتون کرکٹر کو کرکٹ کی سرگرمی کے سلسلے میں سفر کرنا پڑتا ہے تو اسے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کے لیے اپنے ساتھ کسی فرد کو سفر میں ساتھ رکھنے کی اجازت ہوگی جس کے اخراجات پاکستان کرکٹ بورڈ اور خاتون کرکٹر مساوی طور پر برداشت کریں گے۔

اس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ والد بننے والے مرد کرکٹر اپنے بچے کی پیدائش پر مکمل تنخواہ کے ساتھ ساتھ ایک ماہ کی چھٹی لینے کے حقدار ہوں گے لیکن انہیں یہ چھٹی بچے کی پیدائش کے 56 دن کے اندر لینی ہو گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کھلاڑی زندگی کے اہم مرحلے میں اپنے کریئر کے بارے میں بے فکر رہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک خواتین کرکٹرز کا تعلق ہے تو اس پالیسی کے بعد ماضی کے مقابلے میں زیادہ خواتین کرکٹرز اس کھیل کی طرف آئیں گی اور انہیں اپنی زندگی میں توازن برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اہم معاملات پر تمام کرکٹ بورڈز ایک دوسرے سے رابطے میں ہوتے ہیں اور معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس پالیسی کو مرتب کرتے وقت پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرکٹ آسٹریلیا اور انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی اس حوالے سے پالیسیوں کا بغور جائزہ لیا اور پھر ایک ایسی پالیسی ترتیب دی جو ’ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں قابل قبول ہو‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp