آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی


لگی لپٹی کے بغیر وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے ان کی وزارت پر نگاہ رکھنے والی قومی اسمبلی کی کمیٹی کو بتادیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے جو معاہدہ کیا ہے پاکستان اس پر کاربند رہا تو اقتصادی ترقی کا حصول ناممکن ہوجائے گا۔ اس معاہدے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

ترین صاحب کی رائے سے اختلاف ممکن نہیں۔ معاشیات کی مبادیات سے نابلد ہوتے ہوئے بھی اس کالم میں 2019سے دہائی مچارہا ہوں کہ پاکستان کی معیشت کو ’’بچانے اور سنوارنے‘‘ کے لئے آئی ایم ایف نے جو نسخہ تیار کیا ہے وہ ہمارے بازاروں میں رونق لگانے کے بجائے مندی کے رحجان کو سنگین تر بنادے گا۔ دو ٹکے کے رپورٹروں کی بات مگر حکمران سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ ان کی دانست میں وطن عزیز کے بیشتر صحافی ویسے بھی ’’لفافہ‘‘ ہوچکے ہیں۔ سیاست دانوں کا روپ دھارے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ہیرو بناکر دکھاتے ہیں۔ آزادیٔ اظہار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی کہانیاں بھی پھیلاتے ہیں جو وطن دشمنوں کی مسلط کردہ 5th Generation Warکے دوران سہولت کاری کا کردار ادا کرتی ہیں۔

مجھ جیسے صحافیوں کو قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں جانے کی خواہش نہیں۔ ہمارے ’’حلقے‘‘ اور ’’ووٹر‘‘ نہیں ہوتے۔ عمران حکومت مگر انتخابی عمل کے نتیجے میں برسراقتدار آئی ہے۔ اپنے استحکام کے لئے ووٹروں کو خوش رکھنا اس کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ سوال اٹھتا ہے کہ حفیظ شیخ جن پالیسیوں پر کاربند رہے ان کی بابت وفاقی کابینہ کے کتنے اجلاسوں میں تشویش کا اظہار کرتے سوالات اٹھائے گئے تھے۔

مجھے فقط ایک ہی اجلاس میں ہوئی گفتگو کا پتہ چلا تھا۔ حفیظ شیخ نے وہاں ’’ستے خیراں‘‘ کا پیغام دینے والی کہانی سنائی تھی۔ وہ ختم ہوئی تو وزیر اعظم کے معاون خصوصی -ندیم افضل چن- نے جاٹوں سے منسوب منہ پھٹ انداز میں کابینہ کے دیگر اراکین سے فقط یہ استفسار کیاتھا کہ ان میں سے کتنے حفیظ شیخ کی سنائی داستان کو اپنے حلقوں میں دہراکر رائے دہند گان کو اطمینان دلاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ایک لاڈلے اور بلند آہنگ وزیر -مراد سعید- نے اس سوال کا جواب دینے کے بجائے ندیم افضل چن کی سابقہ جماعت یعنی پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں طنز کے نشتر برسانا شروع کردئیے۔ ندیم افضل چن چراغ پا ہوئے تو وزیر اعظم نے انہیں خاموش کروادیا۔ ساتھ ہی مگر انہیں یاد یہ بھی دلایا کہ کابینہ کے اجلاس میں وہ ایسی ’’تقریر‘‘ جھاڑتے ہیں جو جلسوں میں لوگوں کے قلب گرمانے کے لئے کی جاتی ہیں۔ چن صاحب کو اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے۔ کئی ہفتوں کے غور کے بعد ندیم افضل چن نے بالآخر وزیر اعظم کو استعفیٰ بھجوادیا۔ شنید ہے کہ ان دنوں کینیڈا میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اپنی رہائش کے قریب واقع ایک جھیل کے کنارے چہل قدمی سے جی بہلاتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ اگر 3مارچ 2021کے دن سینٹ کی ایک نشست کے لئے قومی اسمبلی سے منتخب ہوجاتے تو شاید آج بھی ہمارے بااختیار وزیر خزانہ ہوتے۔ ان کے ساتھی وزراء شیخ صاحب کی متعارف کردہ پالیسیوں کی مدح سرائی میں مصروف ہوتے۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج ان کے ناقد صحافیوں کو نہایت رعونت اور حقارت سے جاہل یا لفافہ پکاررہی ہوتی۔

اصولی طورپر یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہونے کے بعد حفیظ شیخ صاحب کو اپنے منصب سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں بتایا گیا کہ وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران انہوں نے استعفیٰ دینے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ انہیں مگر روک دیا گیا۔ حیران کن شکست سے دو چار ہونے کے باوجود انہوں نے آئی ایم ایف سے 500ملین ڈالر کی ایک اور قسط حاصل کرنے کے لئے چند اقدامات اٹھانے کا تحریری معاہدہ بھی کیا۔ بجلی کی قیمت میں بے پناہ اضافہ اس کا اہم ترین وعدہ تھا۔ آئی ایم ایف سے ریاست پاکستان نے جو وعدے کئے ہیں انہیں عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کررکھا ہے۔ میں نے بہت کوشش سے اسے تین سے زیادہ مرتبہ پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ بہت مغزماری کے بعد فقط خوفزدہ کردینے والا پیغام ہی ملا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ اپنے عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ ان کی فراغت کے بعد قومی اسمبلی کے کم از کم پندرہ اجلاس ہوئے ہیں۔ کسی ایک اجلاس کے دوران بھی ’’ہمارے نمائندوں‘‘ نے مگر آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرائط کا ذکر نہیں کیا۔ حکومتی اراکین کی اس ضمن میں خاموشی کی وجوہات سمجھی جاسکتی ہیں۔ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے کئی تجربہ کار اور دھانسوشمار ہوتے اراکین کی مذکورہ تناظر میں اختیار کردہ لاتعلقی کا دفاع مگر ممکن نہیں۔ حق کی آواز بالآخر ’’فرعون ہی کے گھر سے ’’شوکت ترین نے بلند کی ہے۔

وزارتِ خزانہ پر نگاہ رکھنے والی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے روبرو انہوں نے جو گفتگو کی ہے وہ سادہ ترین الفاظ میں اعتراف کررہی ہے کہ 2019میں حفیظ شیخ کی تعیناتی کے بعد سے عمران حکومت جن معاشی پالیسیوںپر کاربند رہی وہ پاکستان کو ترقی کے بجائے کساد بازاری کی جانب دھکیل رہی تھیں۔ ان پالیسیوں کا ذمہ دار مگر حفیظ شیخ کی ذات کو ٹھہرانا بھی زیادتی ہے۔ کابینہ ہر وزیر کے لئے اقدامات کی ’’اجتماعی‘‘ طورپر ذمہ دار ہوا کرتی ہے۔ سینہ پھلاکر حکومتی پالیسیوں کا دفاع کرتے وزراء اور ترجمانوں کی فوجِ ظفر موج کو مگر اس کا ہرگز احساس نہیں ہے۔ اسد عمر کے ذریعے بلکہ ’’تڑی‘‘اب یہ لگائی جارہی ہے کہ اگر عمران خان صاحب کو ’’کام کرنے سے روکا گیا‘‘تو وہ جھکنے کے بجائے قومی اسمبلی کی تحلیل کو ترجیح دیں گے۔ عوام سے تازہ مینڈیٹ لے کر اقتدارمیں واپس لوٹ آئیں گے۔ عوامی حمایت کے گمان کی بدولت ہی ان دنوں فواد چودھری صاحب نہایت استقلال سے ہمارے آزاد اور بے باک میڈیا کی بھرپور معاونت سے ماحول بنارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں بیلٹ پیپروں پر ٹھپے لگانے کے بجائے عوام پولنگ اسٹیشنوں میں رکھی مشینوں کے بٹن دباتے ہوئے اپنا ووٹ ڈالیں۔ جدید ترین ٹیکنا لوجی سے تیار ہوئی مشینوں کے استعمال کے ذریعے ہوئے انتخاب کے نتائج پر سوال اٹھانے کی گنجائش ہی موجود نہیں رہے گی۔ دُنیا کو لگ پتہ جائے گا کہ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت عوام میں کس قدر مقبول ہے۔

آئندہ انتخاب تو جانے کب ہوں گے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو فوری فکر کرونا کے علاوہ اس حقیقت کے بارے میں لاحق ہونا چاہیے کہ ترین صاحب کے پاس آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار کرنے کے لئے چار ہفتوں سے زیادہ دن میسر نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس دوران آئی ایم ایف اپنی عائد کردہ شرائط میں نرمی دکھانے کو آمادہ ہوگی یا نہیں۔ ٹھوس حقائق سے لاعلم ہوتے ہوئے میرے شکی دل کو خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کو تحریری معاہدہ پر عملدرآمد مؤخر کرنے پر رضا مند کرنے کے لئے مناسب ماحول اور وقت میسر نہیں۔ غالباََ اسی باعث امید دلوائی جارہی ہے کہ ہمارا دیرینہ برادر ہوتے ہوئے سعودی عرب پاکستان کے وزیر اعظم کو رمضان کے مقدس مہینے میں ہوئے دورے کے دوران نقد اور تیل کی صورت بھاری بھر کم مدد فراہم کرے گا۔ جس مدد کی توقع باندھی جارہی ہے اگر فراہم ہوگئی تو نیا بجٹ تیار کرتے ہوئے ترین صاحب کے لئے آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرائط کو نظرانداز کرنا ممکن ہوجائے گا۔ ضرورت سے زیادہ گھبرائے ہوئے میرے دل ودماغ اس ضمن میں مزید کچھ سوچنے کو تیار نہیں ہو رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments