ایک سنجیدہ سوال اور احمد جاوید کا ایموشنل جواب


احمد جاوید کا شمار چند ایسے پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے جو روحانی اور مذہبی گیٹ اپ کے باوجود کنویں کے مینڈک نہیں ہیں بلکہ ایک وسیع المطالعہ، سنجیدہ فکر اور مخلصانہ برتاؤ رکھنے والے انسان ہیں۔ انہوں نے مغربی فکر کا بھی سنجیدگی سے مطالعہ کیا ہے، ان کے نقطہ نظر کو سننے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے اور اختلاف رکھنے والوں کا بھی وسیع حلقہ ہے۔ دنیائے ادب کے سکہ بند مصنفین کو پڑھنے کے باوجود ان کی فکری جڑیں مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں، معاملہ فہمی اور چیزوں بڑی گہرائی سے دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود بہت سی جگہوں پر ڈنڈی مار جاتے ہیں اور ایک روایتی مرشد اور مولوی کی طرح بعض موضوعات پر دفاعی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں اور مشکل لفظیات کی مالا بن کر اصل موضوع کو گول کر جاتے ہیں۔

یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ایسا فکری برتاؤ ہمیں روایتی انداز فکر میں اکثر دیکھنے کو ملتا رہتا ہے، روایتی راستوں پر چلنے والوں کے لیے وسیع المطالعہ ہونے کے باوجود ایک غیر روایتی موقف اختیار کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے اس کے پیچھے ان کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ایسا کرنے سے ان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تنہائی کے علاوہ آپ کو اپنے ہاتھ چومنے والے اندھے پیروکاروں کے ایک وسیع حلقے سے محروم ہونا پڑتا ہے جو آنکھ بند کر کے آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں چونکہ اندھوں کے دیس میں کانے راجے تو فری میں مل جاتے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی احمد جاوید کی تو ان کی ایک گفتگو کا کلپ میری نظروں سے گزرا جس میں وہ ایک نوجوان کی طرف سے پوچھا جانے والا سوال پڑھ کر سنا رہے تھے جو کچھ اس طرح سے تھا

” کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ کوشش کے باوجود دین پر چلنا اور اس کے فرائض و واجبات کی پابندی کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ہم پر ایک عذاب مسلط ہو گیا ہے کہ جب ہم اچھی اچھی باتیں پڑھتے، سنتے یا سوچتے ہیں تو صرف ڈپریشن پیدا ہوتا ہے یعنی اچھی باتیں ہمارے اندر ڈپریشن پیدا کرتی ہیں۔ ہم جانتے اور مانتے بھی ہیں کہ یہ اچھی باتیں ہیں لیکن ہم اتنی ناکامی جھیل چکے ہیں کہ اب ایسی باتوں سے ڈر لگنے لگا ہے۔ ان باتوں سے ڈپریشن کا احساس ناکامی اور بے نتیجہ احساس جرم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ دینی زندگی گزارنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور آدمی ایک نفسیاتی دباؤ میں رہنے پر مجبور ہے۔ یہ کیفیت کبھی اتنی شدت پکڑ لیتی ہے کہ ایمان پر ثابت قدم رہنا کافی دشوار لگنے لگتا ہے“

بطور طالب علم میری نظر میں یہ ایک سنجیدہ سوال ہے اور اس کا جواب بھی اتنی ہی سنجیدگی سے دیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اعلٰی روحانی، اخلاقی، اقدار و تعلیمات کے باوجود ہمارے اسلامی ممالک پورن دیکھنے میں سر فہرست ہیں اور دین کو تو ہم نے لاتعداد فرقوں میں بانٹ دیا ہے اور ہر ایک خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا قرار دے رہا ہے۔ احمد جاوید نے کچھ اس طرح سے جواب دیا کہ جیسے کوئی پکا معتقد یا پیروکار اپنے مرشد سے بدظن ہو کر اس کا حلقہ اثر ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا رہا ہو اور مرشد اسے جذباتی باتیں بتا کر قائل کرنے اور اپنے حلقہ اثر کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ انہوں نے سوال کا جواب لوجیکل بنیادوں پر دینے کی بجائے ایموشنل بلیک میلنگ شروع کر دی اور صاحب سوال کے ساتھ اپنی گہری وابستگی کے گن گانا شروع کر دیے، اس شخص کی بے چارگی پر سنجیدگی سے غور کرنے کی بجائے انہوں نے اس شخص کا پورا کریکٹر سرٹیفیکیٹ پیش کر دیا۔ فرمانے لگے

” صاحب سوال کو میں بہت اچھے سے جانتا ہوں اور اس کی دینی پختگی کا گواہ ہوں کیونکہ وہ میرے ایک اچھے دوست ہیں، ان کی طبیعت ایسی ہے جو دل کو کھینچتی ہے اور اپنی پسندیدگی اور تعظیم پر مجبور کر دیتی ہے اب ایسے طبیعت کے مالک شخص کا اس قسم کے سوال پوچھنا مجھے اچھا خاصا پریشان کر رہا ہے“

اس کا حل ایک لمبی تمہید کے بعد انہوں نے یہ بتا یا کہ جن احباب کو اس قسم کے حالات تنگ کرتے ہیں انہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں دین کے اصولوں پر کاربند رہنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے اور پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ اس طرح کے جواب کی توقع ہم ایک درس نظامی کے فارغ التحصیل بندے سے تو رکھ سکتے ہیں مگر احمد جاوید جیسے وسیع النظر اور صاحب مطالعہ شخص سے اس جواب کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ ریت میں سر دبانے اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے ہم حقائق سے منہ نہیں پھیر سکتے، یہ جواب وقتی تو کارآمد ہو سکتا ہے مگر زیادہ دیر تک کے لیے اطمینان بخش نہیں ہو سکتا۔

اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات آج کے جدید دور میں آنکھ کھولنے والے بیدار مغز نوجوانوں کے ذہنوں میں اکثر پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان کا جواب لفظی پہیلیوں سے نہیں بلکہ لوجیکل گراؤنڈ پر چاہتے ہیں، آج کے جدید ذہن کو محض پیچ دار، کھوکھلی اور خیالی باتوں سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ سائنس کی ٹھوس حقیقتوں کے دور میں جی رہے ہیں اب وہ ہر بات کو چند سیکنڈز میں سرچ کر لیتے ہیں اور وہ ہر آئیڈیا یا تصور کو ”متعلقہ پس منظر“ میں جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آگہی کے اس دور میں وہ لفظی قلا بازیوں اور فلسفیانہ موشگافیوں کی تہہ میں چھپی چالاکیوں کو بڑے اچھے سے جانتے ہیں۔ آپ کا کنسرن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ صاحب سوال کس ذہنی رجحان یا سکول آف تھاٹ کی طرف راغب ہو رہا ہے بلکہ آپ کو ذہنی دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوال کا جواب پریکٹیکل، لاجیکل اور رائٹ آن دی ڈاٹ دینا چاہیے۔ آپ کو قطعی طور پر اس بات کی فکر نہیں ہونا چاہیے کہ صاحب سوال کہیں پٹری سے اتر کر اسکیپٹک نہ بن جائے کیونکہ آج کے دور میں کسی کو اپنے نظریات کے ساتھ باندھ کر نہیں رکھا جاسکتا اور اگر آپ اپنے نظریات کے ساتھ سٹرونگ فٹڈ ہیں اور برحق جانتے ہیں تو پھر آپ کو تنقید یا سوال سے گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ جو فلسفہ سوال کی چوٹ برداشت نہیں کر سکتا وہ وقت کے ساتھ ساتھ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور ایک دن تاریخی میوزیم کا حصہ بن جاتا ہے۔

سوال کا جواب لاجیکل بنیادوں پر ہونا چاہیے نا کہ لالی پوپ ٹائپ۔ میرا تعلق ٹیچنگ پروفیشن سے ہے اور مجھے اس طرح کے سوال سننے کو ملتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ یہ نوجوان نسل اگر اس قسم کے سوالات مولویوں سے پوچھتے ہیں تو انہیں گستاخ کہا جاتا ہے اور شیطانی وسوسوں سے بچنے کے لیے استغفار کی تسبیح پڑھتے رہنے کو کہا جاتا ہے دوسری طرف احمد جاوید جیسا مفکر سوال کا تجزیہ پریکٹیکل بنیادوں پر کرنے کی بجائے لالی پاپ دینے کی کوشش کرتا ہے۔

ایک سوچنے والے بندے کے ذہن میں کئی طرح کے سوال جنم لیتے رہتے ہیں اور کمبخت یہ سوالات تمام دائروں اور سماجی پیمانوں سے بھی ماورا ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے فالوونگ بینک میں اضافہ کرنے کی بجائے علمی اور ذہنی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نوجوان نسل کو سچ بتا نا چاہیے اور فیصلہ ان پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اپنے لیے کون سے راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments