امریکہ میں اکیلی ماں اور پاکستان میں بن باپ کی بیٹی


اپنے بچوں کی خاطر دی گئی قربانیاں میرا رب دیکھ رہا ہے جو انھیں ہرگز رائیگاں نہیں جانے دے گا دنیا والے مجھے اس دنیا میں گھر نہ بسانے کے طعنے ضرور دے سکتے ہیں مگر مجھے اپنے مالک کائنات پر کامل یقین ہے جنت میں ایک محل میرا منتظر ہوگا مصائب کے دوران کیے جانے والے میرے صبر اور بے ضمیر لوگوں کی جانب سے برسائی جانے والی طنز کی تیروں کو آزمائش سمجھ کر زبان سے اپنے رب کا شکر بجا لانا شعائر بنا رکھا اپنے ساتھ کی گئی ہر ظلم و زیادتی کو اپنے رب حضور اس کی عدالت میں رقم کر کے مجھے اب کوئی فکر نہیں وہ جو ستر ماوٴں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے اس کی مصلحت ہی کار فرما ہوگی میری زندگی کے پیش آنے والے ہر معاملے میں۔ یہ الفاظ ہیں انتیس سالہ عالیہ کے جو اپنے تین بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں عالیہ کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہوا مگر کہتی ہیں لگتا ہے گویا ان پانچ سالوں میں پانچ عشرے گزارے ہوں

ہمارے معاشرے میں اکیلی ماں کو درپیش مشکلات بے شمار ہیں خاص طور ایسی ماں جس کے بچوں کے باپ نے اسے چھوڑ دیا ہو اور طلاق بھی نہ دے کیونکہ ہمارے معاشرے میں بیوہ کے ساتھ ہمدردی بھی کی جاتی ہے اور اس کے یتیم بچوں پر دست شفقت بھی رکھا جاتا ہے مگر طلاق یافتہ یا شوہر کی جانب سے حق تلفی کا شکار عورت سچی ہونے کے باوجود معاشرتی ستم کا نشانہ بنتی ہے خوبصورت سلیقہ مند اور نیک سیرت ہونے کے باوجود اسے گھر نہ بسائے جانے کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جا تا ہے بغیر حقائق کے جانے مشکوک سمجھا جاتا ہے

اکیلی ماں سے مراد ہے جذباتی جسمانی اور معاشی تینوں محاذوں پر اپنے بچوں کے لے تنہا مقابلہ کر کے انھیں پروان چڑھانا ہے۔ کوئی بھی عورت یہ سوچ کر شادی نہیں کرتی کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ طلاق یافتہ کہلا کر اکیلے اپنی اولاد کی پرورش کرے گی۔ اس اکیلی ماں کو نوکری پر رکھنے والے یہ سوچ کر ریجیکٹ کر دیتے ہیں کہ یہ عورت ماں اور باپ دونوں کے فرائض اکیلے نبھا رہی ہے۔ گھر پر اس کے بچے اکیلے اس کا انتظار کر رہے ہوں گے اور سارے مسائل اس نے اکیلے ہی حل کرنے ہیں جو شاید کبھی ختم ہی نہیں ہوں گے اور اس وجہ سے وہ اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے گی کیونکہ وہ اکیلی ماں جو ہے

میں چوبیس سال کی تھی اور وہ چالیس عمر کے اس فرق کو میرے گھر والوں نے اس لیے نظر انداز کر دیا کہ وہ اعلی تعلیم یافتہ اور بیرون ملک برسرروزگار تھے کراچی کی ایک معروف انجینئرنگ یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد امریکہ سے ایم ایس کیا ہوا تھا۔ میرے پاس ڈاکٹر آف فارمیسی کی ڈگری تھی اور ایک اچھی فارماسوٹیکل کمپنی میں جاب کر رہی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہم امریکا شفٹ ہو گئے۔ میرے شوہر کی اچھی تنخواہ تھی مگر انھوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں بھی جاب کروں۔

میں شرعی پردہ کرتی تھی مجھے بالآخر ایک میڈیکل اسٹور پر نوکری مل گئی جس کا مالک ایک مسلم تھا اور انھیں میرے پردے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اپنی آدھی سے زیادہ تنخواہ میرے شوہر پاکستان بھیج دیتے اور گھر کے اخراجات کے لے میری تنخواہ خود رکھ لیتے کہتے یہاں پر مرد عورت سب برابر ہیں گھر کا کرایہ گروسری سب میں تم شیئر کرو گی۔ مجھے نہ امریکا میں رہنے کا شوق تھا نہ مردوں کی برابری کرنے والی مغربی عورت بننے کی میری کوئی خواہش تھی میں نے کہا میں ایک مشرقی عورت ہوں مجھے گھر میں رہ کر خاندان کی تشکیل کرنے کا ارادہ کر کے شادی کا فیصلہ کیا تھا میں آپ کے لے کھانا بناتی ہوں گھر کے کام کرتی ہوں شوہر کے حقوق پورے کرتی ہوں آپ کے ساتھ وفادار اور مخلص ہوں اور اب ہماری آنے والی اولاد کی بہتر صحت و تربیت کے لے گھر میں رہنا چاہتی ہوں مگر ان کا کہنا تھا تم کون سا انوکھا کام کر رہی ہو یہاں پر سب عورتیں بچے بھی پیدا کرتی ہیں اور نوکری بھی کرتی ہیں۔ میں نے بہت مشکل سے وہ وقت گزرا اور بالآخر بیٹی کی پیدائش کے بعد نوکری چھوڑ دی

میرے شوہر کی تنخواہ ہزاروں ڈالر تھی مگر بیوی بیٹی کے لئے چند ڈالر بھی نہ تھے ان کا کہنا تھا میری بہنوں نے مجھے اس شرط پر شادی کرنے کی اجازت دی تھی کہ شادی کے بعد تم اپنا خرچہ خود اٹھاو گی اسی لے میں نے ایک پڑھی لکھی نوکری کرنے والی لڑکی کا انتخاب کیا مگر تم نے شادی کے بعد نوکری چھوڑ دی اور دوسری شرط یہ کہ تم میری بہنوں کے ساتھ گھر میں ساتھ نہیں رہو گی حالانکہ وہ گھر میرے شوہر نے اپنی کمائی سے بنایا ہے۔

بیٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے میرے شوہر نے تجویز دی تم کھانا بہت اچھا پکاتی ہو ایسا کرو آرڈر پر لوگوں کا کھانا بنا دیا کرو چند ڈالرز ہی آ جائیں گے تمہارے پاس ویسے بھی تمہیں گھریلو مشرقی عورت بننا ہے پھر میں نے اپنی معصوم بچی کے ساتھ کام شروع کیا بہت مشکل ہوتی تھی اکیلے سارا دن کام کرنا بچی پالنا اور کام بھی کرنا رات کو جاگنا مگر کچھ تو کرنا تھا مجھے پیسوں کی ضرورت تھی پھر اللہ تعالی نے ایک ساتھ دو بیٹوں کی نعمت سے نوازا مگر میرے شوہر نے خوشی کا اظہار نہ کیا اور سسرال والوں نے تبصرہ کیا شادی کے دو سال میں تین بچے وہ بھی امریکا میں کتنا مہنگا ہے وہاں اولاد پالنا کیونکہ میرے شوہر کی کمائی سے ان کی بہنوں کی اولاد پل رہی تھی اس لیے بھائی کی اولاد کے پیدا ہونے کی انھیں کوئی خوشی نہ تھی۔

شوہر نے نے کہا میں نے پڑھی لکھی نوکری کرنے والی لڑکی سے اس لیے شادی کی تھی کہ میرا بوجھ ہلکا کرے گی تم نے تو میری ذمہ داریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ مجھے تمہیں یہاں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں واپس پاکستان چلی جاو اپنی ماں کے گھر مجھے بیوی کے رشتے کی کوئی خاص ضرورت نہیں تم سے پہلے بھی میرا گزرا ہو رہ تھا آئندہ بھی کر لوں گا۔

جس انسان کو حرام اور مکروہ طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرنے کی لت لگی ہو اسے جائز اور حلال راس نہیں آتا۔ جن نوجوانوں کی خواہش کے باوجود صحیح عمر میں شادی نہ کی جائے وہ بری عادتوں کے عادی ہو جاتے ہیں

انٹرنیٹ پر موجود پورن سائٹ کا کاروبار ایسے افراد کی وجہ سے چمکتا ہے آنکھوں سے شروع ہونے والا یہ چسکا گناہ کبیرہ پر جاکر انجام کو پہنچتا ہے

اس گناہ میں وہ والدین برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی برتتے ہیں اور ٹھیک عمر میں شادی نہیں کرتے اور کبھی بہنوں کی شادیوں کے انتظار میں بھائی کو بھی غیر شادی شدہ رہنا پڑتا ہے

اور اسے بچپن سے یہ گھٹی دی گئی تھی کہ بیوی تو دوسری آ سکتی ہے ماں بہنیں نہیں میں نے اپنے شوہر کو راہ راست پر لانے کی بہت کوششیں کیں پھر تھک ہار کر علیحدگی اختیار کرلی اور اپنے بچوں کی ماں اور باپ دونوں کے فرائض خوش اسلوبی سے نبھائے

پاکستان آ کر ایک ملٹی نشینل کمپنی میں نوکری مل گئی اور الحمدللہ اب اعلی عہدے پر فائز ہوں

سنگل مدرز اکیلی ماوٴں کے لے ایک ادارہ قائم کیا ہے جہاں ان کی معاشی مدد اور اخلاقی تربیت کی جاتی ہے کہ ماں کا مقام رب نے کتنا بلند رکھا ہے ان کے پاؤں کے نیچے جنت کیوں ہے زندگی کے کسی بھی موڑ پر ماں ہمت ہار دے تو بچے برباد ہو جاتے ہیں ماں مضبوط و مستحکم بنے چاہے وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو

میرے شوہر کہتے ہیں مجھے معلوم ہے میرے بچے ایک قابل ماں کے زیر تربیت پروان چڑھ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے تم مجھے معاف کردو گی جب بڑھاپے میں مجھے تمہاری اور بچوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ تم ایک نیک اور مشرقی عورت ہو

جو مرد ساری دنیا کی عورتوں کو دیکھ چکے ہوتے ہیں ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں ایسی شریک حیات نصیب ہو جس کی ایک جھلک بھی کسی نہ محرم نے نہ دیکھی ہو

میرے شوہر نے بھی یہی سوچ کر میرا انتخاب کیا تھا مگر بدقسمتی سے مجھے ایسا شوہر نصیب ہوا جو ایک بہت تابعدار بیٹا ذمہ دار بھائی تو تھا مگر مخلص شوہر اور شفیق باپ نہ بن سکا اور اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتا رہا اپنی بہنوں کے دباو کا شکار ہو کر جس کی ایک بہن نے آئیڈیل کی تلاش میں اپنے آنے والے رشتے ٹھکرا کر عمر گزار دی اور بھائی کی شادی شدہ زندگی کو اپنی حسرتوں کے بھینٹ چڑھا دیا اور دوسری نے اپنی اولاد کو بھائی کی کمائی سے جوان کر کے اپنے شوہر کو نکما بنا دیا بھائی کے بیوی بچوں کو بے گھر کر کے گھر پر اپنا قبضہ قائم رکھا

مگر یہ سب ظلم ڈھانے والا مرد بھی کبھی مظلوم ہوتا ہے اپنی ماں بہنوں اور حالات کی وجہ سے اچھا بیٹا اور بھائی تو بن جاتا ہے مگر محبت کرنے والا شوہر اور ذمہ دار باپ نہیں بن پاتا۔

پاکستان کے قانون میں یتیم بچوں اور والد کے لاپتہ ہونے والوں کی شناختی دستاویزات کے لیے تو قانون موجود ہے لیکن ایسے بچے جن کے والد حیات ہوں اور تعاون ناپید ان کے لیے قانون خاموش ہے۔

تطہیر کہتی ہیں والد کا نام میری دستاویزات میں تو موجود ہے لیکن والد کا میری زندگی میں کوئی کردار نہیں۔

تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ’تطہیر بنت پاکستان‘ لکھا ہے اور یہی دراصل ان کا مطالبہ بھی ہے کہ وہ 22 برس کی عمر میں اپنے دستاویزات میں ولدیت کے خانے سے اپنے والد شاہد ایوب کا نام ہٹا دینا چاہتی ہیں۔

تطہیر کہتی ہیں کہ انھیں میٹرک سے لے کر اب تک تعلیمی اسناد اور سفری دستاویزات میں والد کی جانب سے کسی قسم کا تعاون فراہم نہیں کیا

’میں انھیں والد کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہوں۔ وہ جس نے کبھی میرا نام نہیں لیا۔ ان کے خاندان کے شجرے میں میرا نام ہی موجود نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں باپ کہاں ہے؟ کیا یہی تمھاری ماں ہے۔ میں نے سماجی سطح پر ذلت سہی ہے۔‘

میڈیا سے گفتگو میں تطہیر نے بتایا کہ ’آج میں جس مقام پر ہوں اپنی ماں کی وجہ سے ہوں۔ میں نے آج تک اپنے والد کو نہیں دیکھا تھا اور پہلی بار آج عدالت میں بھی میں نے ان کی جانب دیکھنا نہیں چاہا۔ یہ شاید پہلی اور آخری ملاقات ہو۔‘

تطہیر اور ان کی والدہ کو شکایت ہے کہ جب میٹرک میں انھیں فارم ب بنانے کی ضرورت تھی تو والد نے انکار کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میٹرک میں 2009 میں والد کو خود فون کیا تو والد نے صاف انکار کرتے ہوئے یہ شرط رکھی کہ ’پہلے اپنی والدہ کے خلاف تھانے میں درخواست دو کہ وہ اچھی خاتون نہیں تو میں تمھارے لیے سوچوں گا

سپریم کورٹ میں اس کیس کی دوسری سماعت کے موقع پر تین رکنی بینچ کے روبرو اپنے والدین کے ہمراہ کھڑی تطہیر فاطمہ نے روتے ہوئے یہی مطالبہ پھر سے دہرایا۔

یہ ایک فیملی کورٹ کا منظر دکھائی دے رہا تھا جس میں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دے رہے تھے۔ شاہد ایوب کے بقول جب سنہ 1998 میں ان کی فہمیدہ سے علیحدگی ہوئی تھی تو پشاور میں خاندان کے جرگے نے ان سے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ بعد میں ایک آدھ بار کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ انھوں نے عدالت کی سرزنش پر کہ کیا آپ نے کبھی کسی ریاستی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ ملنے کا سبب بنے، بتایا ’جی میری کوتاہی ہے میں نے ایسا کبھی نہیں کیا‘ ۔

ان جیسے باپ کی کوتاہیوں سے شاید عدالت تو درگزر کر سکتی ہے مگر کیا روز محشر اللہ کی عدالت میں ان کی بخشش ہو پائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments