کووڈ: کیا کورونا سے لڑنے کے لیے انڈیا کو دی گئی غیر ملکی امداد مستحقین تک پہنچ رہی ہے؟

جیک ہنٹر - بی بی سی نیوز


امریکی امداد، دلی، کووڈ، کورونا وائرس

گذشتہ ہفتے دلی آنے والی امریکی ایئرپورٹ کو طیارے سے اتارا جا رہا ہے

انڈیا میں گذشتہ ماہ سے جیسے ہی کووڈ 19 کے باعث پیدا ہونے والے بحران کی شدت کی خبریں آنے لگیں تو دنیا بھر کے ممالک نے ہنگامی طبی امداد کے ذریعے اس صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کی کوششیں شروع کر دیں۔

گذشتہ ہفتے کے آغاز سے امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے انڈیا کے لیے وینٹیلیٹرز، دوائیں اور آکسیجن سے منسلک آلات انڈیا میں بھیجے جانے لگے۔ گذشتہ اتوار تک تقریباً 25 پروازوں کے ذریعے 300 ٹن کی طبی امداد دہلی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچا دی گئی تھی۔

تاہم جیسے جیسے بڑھتے کیسز کی تعداد ملک بھر میں ریکارڈ توڑنے لگی ہے ویسے ہی ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ان افراد تک یہ امداد نہیں پہنچ پا رہی جن کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں کورونا وائرس کا بحران کیسا دکھائی دیتا ہے؟

کورونا کے دور میں تبلیغی اجتماع غلط تو کمبھ کا میلہ ٹھیک کیوں؟

انڈیا کورونا کی خطرناک دوسری لہر کو روکنے میں ناکام کیوں رہا؟

’اب تو غم کا بھی احساس نہیں ہوتا، میں پوری طرح بے حس ہو چکی ہوں‘

ایک طرف ہسپتال امداد کی اپیل کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو دوسری جانب متعدد دنوں تک زیادہ تر امداد ایئرپورٹ کے ہینگرز پر پڑی رہی۔

انڈیا کی حکومت نے امداد کی تقسیم میں تعطل کی سختی سے تردید کی ہے اور منگل کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے امداد کی تقسیم کا ’منظم اور بہتر‘ طریقہ متعارف کروایا ہے۔ وزارتِ صحت کی جانب سے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ وہ ’دن رات‘ امدادی سامان کی تقسیم تیز کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

تاہم جب بی بی سی نے وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں کے حکام سے بات کی تو معلوم ہوا کہ انھیں اب تک امداد موصول نہیں ہوئی۔

برطانیہ، انڈیا، کووڈ، کورونا وائرس

PA Media
برٹش ایئرویز کے ایک کارگو طیارے میں انڈیا کے لیے امدادی سامان لوڈ کیا جا رہا ہے

کیرالہ کے سیکریٹری صحت ڈاکٹر راجن کھوبراگادے نے بی بی سی کو بتایا کہ بدھ کی شام تک یہاں کوئی امداد نہیں پہنچی تھی۔ خیال رہے کہ کیرالہ میں حالیہ ہفتے میں ایک دن میں 37 ہزار سے زیادہ نئے مریض سامنے آئے تھے۔

کیرالہ کے وزیرِ اعلیٰ پرینارائی وجائن نے انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے کیرالہ کے لیے فوری طور پر آکسیجن سے منسلک امداد بھیجنے کی درخواست کی۔

نریندر مودی کو بدھ کے روز لکھے گئے کھلے خط میں انھوں نے درخواست کی کہ کیرالہ کو ترجیحی بنیادوں پر آلات فراہم کیے جائیں کیونکہ کیرالہ مریضوں کے اعتبار سے ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔

’یہ امداد کہاں جا رہی ہے‘

کچھ طبی ماہرین یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا کہ انھیں امداد کب ملے گی۔

ملک کے سب سے بڑے نجی ہسپتالوں کی نمائندگی کرنے والی تنظیم ہیلتھ کیئر فیڈریشن آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر ہرش مہاجن نے کہا کہ ’اب بھی اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں کہ یہ کہاں تقسیم ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہ لوگوں کو معلوم نہیں ہے۔ میں نے دو تین جگہوں پر تلاش کیا مگر میں معلوم کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ یہ اب بھی واضح نہیں ہے۔‘

اس بحران کے دوران مصروفِ عمل کچھ غیر سرکاری تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ وہ معلومات کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں۔

آکسفیم انڈیا کے ڈائریکٹر پروگرامز اینڈ ایڈووکیسی پنکج آنند نے کہا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو واضح طور پر معلوم ہے کہ امداد کہاں جا رہی ہے۔ کسی ویب سائٹ پر کوئی ٹریکر موجود نہیں ہے جو اس کا جواب دے۔‘

امداد کی تقسیم کے بارے میں معلومات کی مبینہ غیر موجودگی ملک کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سوالات کو جنم دے رہی ہے کہ امداد کہاں جا رہی ہے۔

جمعے کو یہ معاملہ امریکی محکمہ خارجہ کی ایک بریفنگ میں بھی اٹھایا گیا جب ایک رپورٹر نے انڈیا کو جانے والے ’امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کے حساب کتاب‘ کا مطالبہ کیا اور پوچھا کہ کیا امریکی حکومت امداد کی ٹریکنگ کر رہی ہے یا نہیں۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے جواب میں کہا کہ ’تسلی رکھیں کہ امریکہ یہ یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ اس بحران کے دوران انڈیا میں ہمارے پارٹنرز کا دھیان رکھا جائے۔‘

بی بی سی نے برطانوی محکمہ خارجہ کے دفتر برائے دولتِ مشترکہ و ترقیات (ایف سی ڈی او) سے پوچھا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ برطانیہ کی امداد بشمول ایک ہزار سے زیادہ وینٹیلیٹرز کہاں تقسیم ہوئے ہیں۔

اس کے جواب میں ایف سی ڈی او نے کہا ’برطانیہ انڈین ریڈ کراس اور حکومتِ ہند کے ساتھ برطانیہ کے طبی آلات کی مؤثر تقسیم یقینی بنانے کے لیے مل کر کام کر رہا ہے۔‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’یہ حکومتِ ہند پر ہے کہ برطانیہ کی دی گئی امداد کی تقسیم کیسے ہوگی اور اسے کہاں تقسیم کیا جائے گا۔‘

انڈیا میں حزبِ اختلاف کے سیاستدانوں نے بھی حکومت سے امداد کی تقسیم کے متعلق مزید معلومات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے کہا کہ ’ہم حکومت سے درخواست اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا سب انڈینز کے ساتھ تبادلہ کیا جائے کہ یہ امداد کہاں سے آئی ہے اور کہاں جا رہی ہے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔‘

’مؤثر تقسیم‘

انڈین وزارتِ صحت کے مطابق حکومت کو امداد کی ریاستوں تک تقسیم کے لیے ایک ’مؤثر طریقہ کار‘ تیار کرنے میں سات دن لگے۔

وینٹیلیٹر، آکسیجن، انڈیا، کووڈ، کورونا وائرس

آکسیجن وینٹیلیٹرز کو دلی میں طیارے سے اتارنے کے بعد کھولا جا رہا ہے

اپنی پریس ریلیز میں وزارت نے بتایا کہ اس نے اس منصوبے پر 26 اپریل کو کام شروع کیا اور دو مئی کو اپنا معیاری طریقہ کار (ایس او پی) جاری کیا کہ امداد کیسے تقسیم کی جائے گی۔ تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ امداد کی تقسیم کب شروع ہوئی۔

یہاں تک کہ جب امداد انڈیا پہنچتی ہے تب بھی تقسیم کا مرحلہ پیچیدہ ہے اور اس میں کئی مراحل، وزارتیں اور ادارے شامل ہوجاتے ہیں۔

انڈین حکومت کے بیان کے مطابق جب امداد لے کر پروازیں انڈیا پہنچتی ہیں تو انڈین ریڈ کراس سوسائٹی یہ امداد وصول کرتی ہے اور اس کی ذمہ داری اسے کسٹمز سے گزارنا ہے۔ اس کے بعد یہ امداد ایک اور ادارے ایچ ایل ایل لائف کیئر کو دے دی جاتی ہے جس کا کام اسی کی ملک بھر میں ترسیل ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ امدادی سامان مختلف صورتوں میں آتا ہے اس لیے حکام کو ’اسے کھولنا (اور پھر) دوبارہ پیک‘ کرنا پڑتا ہے تاکہ اسے ترسیل کیا جا سکے جس سے یہ مرحلہ مزید سست روی کا شکار ہوتا ہے۔

حکومت کے مطابق ’بیرونِ ملک سے سامان اس وقت مختلف خصوصیات کا حامل سامان مختلف تعداد اور مختلف اوقات میں آ رہا ہے۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ آنے والا سامان فہرست کے مطابق نہیں ہوتا یا پھر اس کی تعداد میں فرق ہوتا ہے جسے پھر ایئرپورٹ پر ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔‘

ایک مرتبہ جب سامان دوبارہ پیک کر دیا جاتا ہے تو اسے اُن علاقوں کے لیے مختص کر دیا جاتا ہے ’جہاں انتہائی تشویشناک حالت میں موجود مریضوں کی تعداد اور ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔‘

چوبیس گھنٹے کام

ترسیل میں درپیش مشکلات کے باوجود انڈیا کی مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تناؤ کے شکار علاقوں میں سامان بھیجنے کے لیے ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ منگل کی شام تک امداد کو 31 ریاستوں میں 38 اداروں تک بھیجا گیا ہے۔

ریاست پنجاب کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بی بی سی کو بدھ کو بتایا کہ پنجاب کو 100 آکسیجن کنسنٹریٹر اور جان بچانے والی دوا ریمیڈیسیور کی ڈھائی ہزار خوراکیں ملی ہیں۔

جنوبی ریاست تمل ناڈو کے شہر چنئی (مدراس) کے کسٹمز حکام نے ٹوئٹر پر بتایا کہ ایئرفورس نے منگل کو برطانیہ سے 450 آکسیجن سلنڈروں کی ’پہلی کھیپ‘ پہنچائی ہے۔

https://twitter.com/ChennaiCustoms/status/1389406926904061954?s=20

حکومت کے ایک وزیر نے منگل کو ٹوئٹر پر بتایا کہ ہانگ کانگ سے بذریعہ ہوائی جہاز لائے گئے 1088 آکسیجن کنسنٹریٹرز میں سے 738 کے قریب دلی میں رہے جبکہ 350 کو ممبئی روانہ کر دیا گیا۔

اس دوران دلی کے ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ٹرینوں کے ذریعے آکسیجن بھیجی جا رہی ہے جنھیں حکام نے ’آکسیجن ایکسپریس‘ کا نام دیا ہے۔

https://twitter.com/PiyushGoyal/status/1389764476329619463

’آکسیجن اہم ہے‘

مگر ان تمام کوششوں کے باوجود انڈیا کے ہسپتالوں کو اب بھی طبی سامان اور سب سے بڑھ کر آکسیجن کی شدید ضرورت ہے۔

وزارتِ صحت کے مطابق ملک میں جمعرات کو کورونا وائرس کے نئے چار لاکھ 12 ہزار 262 مریض سامنے آئے جبکہ وائرس کی وجہ سے 3980 اموات ہوئیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق گذشتہ ہفتے دنیا بھر کے کووڈ متاثرین کا تقریباً نصف اور کُل اموات کا ایک چوتھائی حصہ انڈیا میں تھا۔

کورونا، کووڈ، انڈیا

انڈیا کے کئی ہسپتالوں میں اب بھی طبی ساز و سامان کی شدید کمی ہے

لیکن اس سب کے دوران چند طبی ماہرین ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ اُنھیں جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ غیر ملکی عطیات نہیں ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہسپتالوں میں آکسیجن کی پیداوار کی سہولیات قائم کی جائیں۔‘

ڈاکٹر مہاجن کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہمارا واحد مسئلہ آکسیجن ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس امداد کے آنے یا نہ آنے سے کوئی خاص فرق پڑے گا۔ ہاں آکسیجن جنریٹرز سے فرق پڑے گا۔ اُس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔‘

وزارتِ صحت نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ فی منٹ ایک ہزار لیٹر آکسیجن پیدا کرنے والے دو حال ہی میں نصب کیے گئے میڈیکل آکسیجن پلانٹس دلی میں کووڈ کے 19 ہزاروں مریضوں کو بدھ کی شام تک آکسیجن فراہم کرنا شروع کر دیں گے۔

مگر اس ہنگامی طبی حالات کے دوران صفِ اول پر موجود کئی افراد اب بھی امداد کے انتظار میں ہیں۔

ڈاکٹر مہاجن کہتے ہیں: ’یہ نہایت پریشان کُن حالات ہیں۔ ہم بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس لہر نے اور اس میں آنے والی تیزی نے ہمیں متاثر کیا ہے اور یہ اوپر ہی جاتی جا رہی ہے۔‘


بی بی سی کے سوتک بسواس اور اینڈریو کلیرنس نے دلی سے اضافی رپورٹنگ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp