سینٹرل وسٹا کے منصوبے کی مخالفت جس میں دہلی میں نئے پارلیمان کے ساتھ پی ایم ہاؤس اور ایوان نائب صدر کی تعمیر شامل

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی


سینٹرل وسٹا: ‘جس نے دہلی میں نیا شہر بسایا اسے دہلی سے ہاتھ دھونا پڑا’

کہا جاتا ہے کہ دلی میں جس نے بھی نیا شہر بسایا انھیں دہلی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اب یہ رزمیہ داستان مہا بھارت کے پانڈو بردارن کی بات ہو یا راجہ پرتھوی راج چوہان کی، یا پھر بادشاہ فیروز شاہ تغلق کی یا پھر مغل حکمراں شاہجہاں اور تاج برطانیہ کی۔

ایک بار پھر دہلی اور بطور خاص نئی دہلی کے نقشے میں تبدیلی لائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے تاریخی راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) سے لے کر انڈیا گیٹ تک کھدائی کا کام جاری ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے سینٹرل وسٹا نامی پروجیکٹ کے ذریعے نئی تعمیرات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے جسے سنہ 2026 تک مکمل ہونا ہے۔

اس کے تحت ایک نئے ایوان پارلیمان کے علاوہ، پی ایم ہاؤس، ایوان نائب صدر، اور سرکاری وزارتی دفاتر تیار کیے جائيں گے۔

تاہم اس منصوبے کو شروع سے ہی شدید تنقید کا سامنا ہے جبکہ حالیہ کووڈ وبا کے پیش نظر سوشل میڈیا پر اس کی پرزور مخالفت نظر آ رہی ہے کیونکہ انڈیا میں یومیہ مثبت کیسز کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے اعتبار سے چار لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اس وبا سے تقریباً ہر روز چار ہزار سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ برطانوی جریدے لانسیٹ کے مطابق کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد یکم اگست تک دس لاکھ تک جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دلی کا چاندنی چوک: ‘جہاں قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جائے’

کیا لال قلعہ جس کے قبضے میں ہو، ہندوستان اس کا ہے؟

1857 کی ‘جنگِ آزادی’: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھا

کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر آنے والے اخراجات کو ‘مجرمانہ ضیا‏ع’ کہا ہے اور ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لوگوں کی زندگی بچانے کو توجہ کا مرکز بنائیں نہ کہ ایک نئے گھر کے لیے اپنے اندھے غرور کو۔

انھوں نے مزید لکھا کہ ‘سینٹرل وسٹا کے لیے مختص 13 ہزار 450 کروڑ روپے میں انڈیا کے 45 کروڑ لوگوں کی مکمل ویکسینیشن ہو جائے گی، یا ایک کروڑ آکسیجن سیلنڈر آ جائیں گے، یا دو کروڑ خاندان کو نیائے سکیم کے تحت 6000 روپے ماہانہ مل جائيں گے۔ لیکن وزیر اعظم کی انا تو لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر ہے۔’

اس سے قبل 10 دسمبر سنہ 2020 کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان کی نئی عمارت کی سنگ بنیاد رکھی تو کانگریس رہنما اور سابق وزیر خزانہ پی چدامبرم نے کہا تھا کہ ‘ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی بنیاد لبرل ڈیموکریسی کے ملبے پر رکھی گئی ہے۔’

حزب اختلاف نے اس منصوبے پر عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا لیکن ان کی اپیل مسترد کر دی گئی اور منظوری ملنے کے بعد اب اس پر کام شروع ہو چکا ہے۔ لیکن کووڈ وبا کی دوسری لہر کے بعد اس کی تعمیر کو روکنے کے لیے لوگ پھر سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری سے بی بی سی نے اس منصوبے کے متعلق رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہنوز ان کا جواب نہیں آیا ہے۔ بہر حال انھوں نے اس کے متعلق اپنے سوشل میڈیا کے فیس بک اکاؤنٹ پر کانگریس کے موقف کو ‘بے تکا’ قرار دیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ‘سینٹرل وسٹا 20 ہزار کروڑ روپے کا کئی سالوں پر محیط پروجیکٹ ہے۔ حکومت ہند نے اس کی دگنی رقم ویکسینیشن کے لیے مختص کی ہے۔ رواں سال کا انڈیا کا ہیلتھ کيئر بجٹ تین لاکھ کروڑ کا ہے۔ ہم اپنی ترجیحات جانتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ سینٹرل وسٹا حکومت ہند کے ملک بھر میں جاری کئی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ صرف کانگریس کو ہی اس کا بھوت سوار ہے۔’

شہری امور کے وزیر کے بیان کے بعد مہاراشٹر میں برسر اقتدار پارٹی شیو سینا نے سنیچر کو کہا ہے کہ کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے جہاں پڑوس کے چھوٹے چھوٹے ممالک نے انڈیا کو امداد کی پیشکش کی ہے وہیں مودی حکومت کئی کروڑ روپے کے اپنے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کے کام کو روکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

سینٹرل وسٹا کیا ہے؟

یہ حکومت ہند کا ایک نیا تعمیراتی منصوبہ ہے جو دہلی کے قلب میں راشٹرپتی بھون (ایوان صدر) سے انڈیا گیٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کو رائے سنا ہلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس خطے کو برطانوی راج میں ایڈون لوٹینز اور بربرٹ بیکر نے ڈیزائن کیا تھا۔

اس کے تحت تین کلومیٹر کے علاقے میں نئی تعمیرات ہوں گی اور بعض پرانی تعمیرات کی تزئین آرائی ہوگی۔

اس کے تحت مثلث نما ایک نئی پارلیمنٹ کی عمارت بنائی جائے گی جس میں 12 سو سے زیادہ اراکین پارلیمان کی گنجائش ہوگی۔

پرانی پارلیمان کا کچھ اور مصرف تلاش کیا جائے گا اور نارتھ اور ساؤتھ بلاک کے ساتھ صدر کے باغ کا بھی دوسرا استعمال کیا جائے گا۔

راشٹرپتی بھون، انڈیا گیٹ اور مودی کے دور حکومت میں تیار کیا جانے والا نیشنل وار میموریل جوں کا توں برقرار رکھا جائے گا جبکہ وگیان بھون کو مسمار کر دیا جائے گا۔

ئنی تعمیرات میں سینٹرل وسٹا ایوینیو، کامن سینٹرل سیکریٹریٹ، سینٹرل کانفرنس سینٹر، نائب صدر کا نیا گھر اور دفتر، وزیر اعظم کے لیے نیا گھر اور نیا دفتر اور آئی این جی سی میں نئی سہولیات کی تعمیرات ہوں گی۔

نئے پی ایم ہاؤس کی ضرورت

انڈیا میں ابھی تک کوئی باضابطہ نیا پی ایم ہاؤس نہیں تھا جو کہ انڈیا کے پارلیمانی جمہوریت میں اقتدار کا سرچشمہ کہا جاتا ہے۔ ابھی تک انڈیا کے پہلے وزیر اعظم نہرو سے لے کر نریندر مودی تک اپنے رہائشی بنگلے سے ہی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

جواہر لعل نہرو تین مورتی بھون میں رہتے تھے اور تقریبا 17 سال تک جب تک وہ انڈیا کے وزیر اعظم رہے وہی مرکز اقتدار تھا۔

سنہ 1964 میں ان کی موت کے بعد اسے میوزیم اور میموریل بنا دیا گیا۔ ان کے بعد کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری 10 جن پتھ میں رہتے تھے سو ان کی موت تک وہی پی ایم ہاؤس رہا۔

اس کے بعد وزیر اعظم اندرا گاندھی کے 17 سال سے زیادہ دور اقتدار میں ان کی رہائش ایک صفدر جنگ روڈ کا بنگلہ ہی پی ایم ہاؤس تھا لیکن اس بنگلے پر 31 اکتوبر سنہ 1984 کو ان کے قتل کے بعد راجیو گاندھی کے دور میں 7 ریس کورس اقتدار کا مرکز بن گیا۔

اس کے بعد سے اگرچہ ریس کورس کا نام بدل کر لوک کلیان مارگ رکھ دیا گیا ہے تاہم یہ مختلف وزرائے اعظم کی رہائش اور دفتر کے طور پر جانا جاتا ہے اور اب تک وہیں سے انڈیا پر حکومت کی جا رہی ہے۔

اس بارے میں بی بی سی نے نئے پی ایم ہاؤس کے متعلق جب ایک سوال سوشل ایکٹوسٹ اور تاریخ کے استاد ابھے کمار سے کیا کہ اس کی کیا ضرورت تھی تو انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کہیں نہ کہیں اپنی یادگار چھوڑنا چاہتے ہیں تاکہ ان کا نام تاریخ میں درج ہو سکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ‘وہ امریکہ میں اقتدار کی علامت وائٹ ہاؤس اور اسرائیل کے بیت روش کی طرز پر انڈیا میں علامتی عنان اقتدار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔’

انھوں نے کہا اب تک کسی وزیر اعظم نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن ‘وزیر اعظم مودی اپنے لیے سپیشل طیارہ خرید سکتے ہیں اور سردار پٹیل کا لاکھوں ڈالر کا مجسمہ بنوا سکتے ہیں تو یہ ان کی انا کی تسکین کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔’

پارلیمان کی نئی عمارت کی ضرورت کیا ہے؟

پارلیمان کی نئی عمارت کا خیال وزیر اعظم مودی سے پہلے بھی ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔ کانگریس کی سربراہی والی حکومت کے دور میں کانگریس رہنما اور لوک سبھا سپیکر میرا کمار کے علاوہ سپیکر سمیترا مہاجن نے بھی پارلیمان کی عمارت کی خستہ حالی کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی۔

13 جولائی سنہ 2012 کو میرا کمار نے ہاؤسنگ اور شہری امور کی وزارت کو ایک خط لکھ کر توجہ دلائی تھی کہ ‘یہ عمارت پرانی ہو چکی ہے۔ اور اسے آثار قدیمہ کی گریڈ ایک کی عمارت قرار دیا گیا ہے۔ یہ زیادہ استعمال سے خستہ ہو گئی اور اس کے اثرات اس پر ظاہر ہونے لگے ہیں۔’

انگریزوں نے جب سنہ 1911 میں اپنے دارالحکومت کو دہلی منتقل کیا تو انھیں بہت سی عمارتوں کی ضرورت پیش آئی جس میں پارلیمان کی عمارت بھی شامل ہے۔

اسے سنہ 1920 کی دہائی میں شروع کیا گیا اور یہ 1927 میں بن کر تیار ہوئی۔ اس عمارت کو 94 سال گزر چکے ہیں اور اس دوران جو ترقیات ہوئیں اس کی وجہ سے اس کے اندرونی حصے میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئیں۔

چنانچہ سنہ 2019 میں جب ایک نئی پارلیمان کے بارے میں تجویز آئی تو اس کی کہیں سے مخالفت نظر نہیں آئی لیکن جب سینٹرل وسٹا کا بڑا پروجیکٹ سامنے آیا تو اس کی مخالفت کی گئی اور عدالت میں اسے چیلنج کیا گیا لیکن عدالت نے حکومت کے منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے منظوری دے دی ہے اور اس پر کام جاری ہے۔

اب اس پر اس قدر شور کیوں؟

حالیہ دنوں دلی میں وبا کے باعث سخت لاک ڈاؤن جاری ہے لیکن حکومت کی جانب سے وسٹا پروجیکٹ کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے خلاف انیا ملہوترہ اور سہیل ہاشمی نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس کی سماعت انڈیا میڈیا کے مطابق 17 مئی رکھی گئی تھی لیکن درخواست گزاروں نے اس کی جلد سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل کی جہاں سے ہائی کورٹ کو کہا گيا کہ وہ اس کیس کی جلد سماعت کرے۔

بی بی سی نے سہیل ہاشمی سے فون پر اس کے متعلق بات کی تو انھوں نے کہا کہ ابھی چونکہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے وہ اس بابت بات نہیں کر سکتے البتہ اتنا بتایا کہ سماعت پیر نو مئی کو ہوگی۔

انڈین میڈیا کے مطابق عرضی گزاروں کے وکیل ایڈوکیٹ سدھارتھ لوتھرا نے کہا ہے کہ کووڈ کے موجودہ حالات کے پیش نظر اگر وسٹا کے پروجیکٹ کو چھ ہفتوں کے لیے ٹال دیا جاتا ہے تو کچھ نہیں بگڑے کا۔ انھوں نے کہا کہ جب انڈین پریمئیر لیگ کو ملتوی کیا جاسکتا ہے تو اسے کیوں نہیں۔

انھوں نے کہا ‘مجھے سمجھ نہیں آتی کہ صحت کی ایسی ناگہانی صورت حال میں کوئی تعمیر کسی طرح ضروری سرگرمی ہو سکتی ہے۔ اس سے کام کرنے والوں کو خطرہ لاحق ہے اور اس سے ہیلتھ سسٹم پر مزید اثرات پڑیں گے۔’

دہلی کے شہریوں کے ایک گروپ نے بتایا کہ وہ اس کی مخالفت کئی وجوہات کی بنا پر کر رہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ جس جگہ نئی تعمیرات ہو رہی ہیں وہ عوام کی جگہ ہے۔ ان تعمیرات سے دہلی میں عوام کی جگہ کم ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ انڈیا گیٹ دہلی میں بڑے بڑے عوامی جلسوں اور دھرنوں کا مرکز رہا ہے لیکن سینٹرل وسٹا کے بعد یہ انتہائی سکیورٹی والا زون ہو جائے گا۔

عام شہری گروپ کی رکن ڈاکٹر بابی لتھرا سنہا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بہت سے نکات اٹھائے۔ انھوں نے کہا شہریوں کی موجودہ ضرورت کے پیش نظر یہ لگژری ہے۔ اس کی وجہ سے اس علاقے کی ہریالی متاثر ہوگی کیونکہ وہاں موجود دہائیوں پرانے پیڑ کاٹے جائيں گے۔

بہر حال حکومت کا کہنا ہے کہ وہاں بہت کم درخت کاٹے جائیں جبکہ اس کی مکمل تعمیر کے بعد وہاں تقریبا پانچ ہزار پیڑ ہوں گے اور ان کی مناسب دیکھ بھال ہوگی۔

ڈاکٹر بابی لتھرا سماجیات، سیاسیات اور علم بشریات کی ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پروجیکٹ اس قسم کے غریب ملک کے لیے لگژری ہیں جہاں ہیلتھ انفراسٹرکچر کی کمی کے سبب روزانہ ہزاروں اموات ہو رہی ہیں۔

ان کی شکایت ہے کہ بغیر مباحثے اور رائے عامہ کے اس کو اوپر سے لادا گیا ہے۔ انھوں نے دہلی کی ائیر کوالٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ میٹرو شہر میں سے ایک ہے اور تعمیرات کی وجہ سے اس کی ہوا مزید خراب ہوگی۔

انھوں نے بتایا کہ آلودگی کے سبب دہلی کے لوگوں کے پھیپھڑے کمزور ہیں اور اس کی وجہ اس میں ابتری ہی آئے گی۔

انھوں نے ویسٹ مینجمنٹ (کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے) کی بات بھی اٹھائی کہ آخر دہلی کی تعمیر کے دوران ملبے کو کہاں ٹھکانے لگایا جائے گا۔ ڈاکٹر بابی نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ اگر اسے دریائے جمنا میں ٹھکانے لگایا گیا تو یہ مزید ایک ماحولیاتی تباہکاری ہوگی کیونکہ جمنا پہلے سے ہی تباہی کا شکار ہے۔

بی بی سی نے جب سوال کیا کہ حکومت کو بھی اس کا احساس ہوگا تو پھر حکومت اس کے لیے اتنی بے تاب کیوں ہے، تو انھوں نے کہا کہ انھیں ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں یاد رکھے جانے کی زیادہ فکر ہے۔

ڈاکٹر بابی لتھرا کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ بی جے پی مرکز میں حکومت کرتے ہوئے بھی دہلی نہیں جیت پائی اس لیے وہ اپنی یادگار وہاں قائم کرنا چاہتی ہے۔

سوشل میڈیا پر رد عمل

سوشل میڈیا میں اس پر گرما گرم مباحثے نظر آ رہے ہیں کوئی اس کے حق میں ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملے گا تو بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ انسانی لاشوں پر بنایا جا رہا ہے۔

انڈیا کے معروف کارٹونسٹ کا ایک کارٹون بھی بہت شیئر کیا جا رہا جس میں ایک لاش کو کھدی ہوئی جگہ سے لے جایا جا رہا اور وہاں کام کرنے والے کہہ رہے کہ ‘یہاں نہیں۔’

سریوتس نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے کہ ‘سینٹرل وسٹا مودی کا قبرستان ثابت ہوگا جو کہ ناکامیوں کی یادگار ہوگا اور یہ ہمیشہ اس بات کی علامت ہوگا کہ اگر ہمارے پی ایم کے پاس دل ہوتا تو ہم مرنے والوں کو بچا سکتے تھے۔ ‘

اس کے جواب میں پرشانت جھا پی ایچ ڈی نامی صارف نے لکھا کہ انڈیا میں شمشان اور قبرستان کی جگہ کی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن سینٹرل وسٹا کی وجہ سے بہت سی کھدی ہوئی جگہ ہے۔ میرے خیال سے یہ بہت مناسب ہوگا کہ وزیر اعظم کا نیا محل کووڈ سے مرنے والوں کی راکھ اور قبروں پر بنے۔’

سید محمد مرتضی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘مودی کو اپنے لیے بڑے گھر کی کیا ضرورت ہے۔ 7 آر سی آر (موجود رہائش) میں کیا کمی ہے۔ وہ انڈیا کے لوگوں کے دکھوں کا مذاق کیوں اڑا رہے ہیں۔ ہمیں ایک ایسے وزیر اعظم کی ضرورت ہے جو انڈیا کی ضرورتوں کو سمجھ سکے۔’

اس کے جواب ایک صارف نے لکھا کہ ‘آپ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں اس سے بچنے والا سارا پیسہ نام نہاد ہیلتھ انفراسٹرکچر میں جائے گا۔’

اداکار سدھارتھ نے بھی یہ سوال کیا ہے کہ سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر جو 20 ہزار کروڑ خرچ کیا جا رہا ہے وہ بہت حد تک بے جا ہے۔ جو پیسہ لوگوں کی ویکسینیشن اور ہیلتھ کیئر پر خرچ ہو سکتا تھا وہ ایک داڑھی کو سنوارنے میں لگائے جانے کے مترادف ہے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیا ہے۔ آخر اس کو روکا کیوں نہیں جا رہا ہے۔’

کچھ لوگوں نے اس میں روشنی کی کرن دیکھی ہے اور لکھا ہے کہ ‘سینٹرل وسٹا کی ایک اچھی بات ہے کہ ‘جس کسی نے بھی دلی میں نیا شہر بسایا اس نے اسے کھو دیا۔پانڈو برادران ہون، پرتھوی راج ہوں، فیروز شاہ تغلق ہوں یا شاہ جہاں۔ ان سب نے نیا شہر بسایا اور اسے کھو دیا۔’

در اصل برطانوی مورخ اور مصنف ولیم ڈیلرمپل نے دہلی پر اپنی معروف کتاب ‘سٹی آف جنز’ یعنی جنوں کے شہر میں اس شہر کے متعلق کہاوت کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ کس طرح بعض برطانوی یہاں ہونے والی انگریزوں کی تعمیرات کے خلاف تھے۔

بہر حال جو حال سوشل میڈیا پر جاری تصاویر میں دہلی کا نظر آ رہا ہے اسی طرح کا ذکر کبھی دہلی کے بارے میں غالب کے خطوط میں ملتا ہے اور بہت سے لوگ دہلی کے قلب میں ہونے والی ان تبدیلیوں سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہے ہیں۔

کنک دیکشت نامی صارف نے لکھا ہے کہ ‘دہلی یونیورسٹی میں پڑھنے کا دوران تین برسوں تک اس کھلی جگہ اور لکڑیوں کے بارے والے علاقے میں جاتا رہا ہوں۔ میں نہیں کہہ سکتا میں اس جگہ میں لائی جانے والی تبدیلی اور وسٹا کو پسند کرتا ہوں۔’

دلی کی موجودہ صورت حال پر اردو کے معروف شاعر ملک زادہ منظور احمد کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے

جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp