ماؤں کا عالمی دن نہیں، یہ عالم ہی ماؤں کا ہے


کیا ماؤں کا عالمی دن بھی ہوتا ہے؟ چند ماہ و سال سے یہ دن زیادہ زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ ماں کی الگ یا اس کے ہمراہ اپنی اچھی سی تصویر ڈھونڈی جاتی ہے۔ ماں کے لئے موزوں جملہ جذبات کی حدت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور شاید پھر ہمارا فرض مکمل ہوا۔

شادی کے چند ماہ و سال کے بعد نازو نعم میں پلی نوجوان لڑکی ہم، آپ کے لئے اپنے آپ کو یکسر تبدیل کر لیتی ہے۔ پیٹ میں پلتا محسوس کرتی ہے۔ ہلنے، پاؤں چلانے پر مسکراتی ہے۔ کسی ماں کو کبھی پیٹ میں ہلتے بچے کو گالی دیتے نہیں دیکھا۔ کبھی نہیں سنا کہ پیٹ میں پلتے بچے کو برا بھلا کہا ہو۔ کوسا ہو یا اس سے کوئی شکوہ کیا ہو۔ ذرہ بھی شائبہ ہو کہ پیٹ میں حرکت نہیں تو تڑپ اٹھتی ہے۔ راتوں کو بیدار ہو ہو کر پیٹ کو چھوتی ہے۔ اسے محسوس کرتی ہے۔

سوچیں کہ اس کیفیت یا حالت میں کسی بیماری اور تکلیف میں رہ کر بھی دوا نہیں کھا سکتی ہے۔ ایلوپیتھک ادویات سختی سے ممنوع ہوتی ہیں۔ تکلیفیں سہتی ہے۔ بچے کی حفاظت کی خاطر قہوے اور گرم پانی پر انحصار کرتی ہے مگر دوا نہیں کھاتی ہے۔ ابھی تو بچہ دنیا میں آیا بھی نہیں مگر قربانیوں کا دور شروع ہے۔

نو مہینے اپنے آپ سے بے خبر، بچے کی پیدائش کے اہتمام کے لئے متفکر۔ اس کے نام، کپڑے، جوتے سب سوچتی ہے۔ تڑپتی ہے۔ راتیں بیٹھ کر گزارتی ہے۔ دن میں سارا دن گھر کو سنبھالتی ہے۔ میری ماں کے تو مجھ سے بڑے بھی چار بچے تھے۔ مجھ سے محض چند سال بڑے۔ اگر وہ صرف آرام کرتیں تو ان چار بچوں کو کیسے پال پاتیں؟ ان کا کھانا پینا، آرام۔ انہوں نے ان بچوں کے خیال اور گھر کے انتظام و انصرام کے دوران مجھے جنم دیا۔

کتنی مائیں اس دوران بے ہوش ہوتی ہیں۔ الٹیاں کرتی ہیں۔ خون کی کمی کے باعث چہرے پر چھائیاں ابھر آتی ہیں۔ گال پچک جاتے ہیں۔ کیلشیم کی کمی ہو جاتی ہے۔ زمانے کی کسی بات کا شکوہ کر بھی کریں تو کبھی کسی ماں نے نہیں کہا کہ فلاں پیدا ہونے والا بچہ دروغ گو یا آوارہ گرد ہے۔

میں آج تک ایک ”چیخ“ نہیں بھول پایا ہوں۔ میرا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا تھا۔ میری فیملی ابھی کراچی میں ہی تھی۔ سب سے چھوٹی بیٹی عدینہ کی پیدائش سے ایک روز قبل گھر میں قرآن خوانی تھی۔ مسز سارا دن صفائیاں اور انتظامات کرتی رہیں۔ کچھ پیچیدگی پیدا ہوئی۔ جسم میں پانی کی کمی ہوئی اور بچی کی حرکت محسوس نہ ہو رہی تھی۔ کنول، میری زوجہ نے مجھے روتے ہوئے چیخ کر کہا کہ زاہد میرا بچہ۔ پلیز کچھ کریں۔ خدارا کچھ کریں۔ وہ خود ڈاکٹر ہونے کے باوجود اپنی جان سے زیادہ بچے کے بارے متفکر تھیں۔ فوراً ہسپتال شفٹ کیا گیا۔ الحمد للہ خیر رہی۔

بچہ پیدا کرنے کے مراحل۔ سختیاں، تکلیفیں۔ مشکلیں۔ وسائل کی کمی۔ ماں سب تکلیفیں سہتی ہے، برداشت کرتی ہے۔ بچے کو دیکھ کر جیتی، جاگتی ہے۔ ساری رات گود میں بٹھائے اونگھتی ہے۔ حفاظتی ٹیکوں کے لئے رابطے کرتی ہے۔ معلومات لیتی ہے۔ بچے کے پیٹ میں ہلکی سی گیس یا تکلیف محسوس کرے تو تڑپتی ہے۔ گرائپ واٹر پلاتی ہے۔ گرم کپڑے سے ٹکور کرتی ہے۔ ہماری ماؤں نے تو ہسپتال بھی نہیں دیکھے۔ میٹرنٹی ہوم بھی ہر ماہ وزٹ نہیں کیے۔ الٹرا ساؤنڈ بھی نہیں ہوئے۔ دائیوں کے رحم و کرم پر زندگیاں گزار دیں۔ پورے گھر کے کپڑے دھوئے، کھانے پکائے، جھاڑو لگائے۔

بچے کی پیدائش کے بعد ایک دو چار سال اسی طرح ہی گزرتے ہیں۔ بال بنانے، سر پر تیل لگانے، آنکھوں میں سرمے دانی سے سرما لگا کر سرمچو آنکھوں میں پھیرتی ہے۔ نظر بد سے بچانے کے لئے ماتھے، گال یا کان پر سرمہ لگاتی ہے۔ آنکھوں پر لہراتی سرمہ کی لائن بناتی ہیں۔ کانوں میں تیل ڈال کر صفائیاں، ہاتھوں پاؤں کی صفائی۔ کبھی اکتاہٹ اور نہ اس بات پر گھر چھوڑا کہ بچوں کا خیال رکھ کر تھک گئی ہوں۔

مائیں ہر لمحہ ڈرتی ہیں۔ بچوں کی خیر مانگتی ہیں۔ دعائیں مانگتی ہیں۔ کپڑے، جوتے اپنے لیے نہیں سوچتی ہیں، بچے کا دودھ، پیمپر پورا کرتی ہیں۔ آج پیمپر آ گیا وگرنہ کپڑے کے بنے پوتڑے دھوتی تھیں۔ مجال ہے کہ چند منٹوں بعد بھی اپنے کپڑے گیلے کر لینے والے بچے کو کبھی ڈانٹا ہو۔ کبھی آپ نے ایسا دیکھا؟ میں نے تو نہیں دیکھا۔ ماں کھانا لے لے کر پیچھے بھاگتی ہے۔ کھیر، کسٹرڈ، دلیہ، چاول، کھچڑی، فیرنی بناتی ہے۔ دودھ میں بادام ڈال کر پلاتی ہے۔ اپنے جسم کے کیلشیم یا آئرن کی فکر نہیں۔ بچوں کے لیے متفکر و پریشان۔

مائیں کب احسانات نہیں کرتی ہیں؟ کتنا لکھوں؟ کتنی بڑی تحریر چھاپوں؟ ابھی تو بچپن شروع بھی نہیں ہوا۔ ہم لکھتے لکھتے تھک جائیں گے۔ ماں کی ذمہ داریوں، احساس و احسانات کا چند فیصد بھی نہ لکھ پاؤیں گے۔ بچوں کو گود میں اٹھائے بس اسٹاپوں پر کھڑی استانیاں، نرسیں، اور متعدد ملازمت پیشہ خواتین کو ہم سب نے دیکھا ہے۔ وہ انہیں اپنے ساتھ سنبھالتی ہیں۔ سینے سے لگاتی ہیں۔ ہاتھ چومتی ہیں۔ بے ساختہ، اردگرد سے بے نیاز بچے کو دیکھتی ہیں۔ مسکراتی ہیں۔

اولاد جواں ہو کر انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ سب پیدا کرنا ان کا حق تھا۔ یہ قانون قدرت ہے۔ درست کہا۔ ٹھیک سوچا مگر اپنی جوانی وار دینے والی وہ لڑکی آج سفید بالوں کو لئے اپنے ارمان، جوانی، خوبصورتی تمہیں گفٹ کر چکی ہے۔ تحفہ محبت دے چکی ہے۔ خواہشات تمہاری جیب میں رکھے اچھے اوقات کی منتظر ہے۔ دنیا کی تمام خوشیاں ایک طرف اور اولاد کا دکھ سب سے جدا۔ شادی شدہ بچوں اور اور ان کے بچوں کے لیے ہلکان۔ آخری وقت تک بیٹوں، بہوؤں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کا خیال رکھتی ہیں۔

ستائیس سال قبل میرے سب سے چھوٹے بھائی ”عامر“ کا عید سے سات روز قبل ایک حادثے میں انتقال ہوا تھا۔ ستائیس سالوں سے ماں کو کبھی عید پر مہندی لگاتے نہیں دیکھا۔ کبھی خوشیاں مناتے نہیں دیکھا۔ باقی بھی تو چھ بچے ہیں مگر ایک کا دکھ سب خوشیوں کو کھا جاتا ہے۔ عید پر سب کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں مگر خود عید برداشت نہیں ہوتی۔ میری بہن کا لاڈلا ”عزیر“ چلا گیا۔ دو سال کا عرصہ ہی انہیں کھا گیا ہے۔ مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ بچوں پر مرتی ہیں، بچوں کو مرتا نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ مائیں ہوتی ہی ایسی ہیں۔ ان کا عالمی دن بھلا کیوں کر؟

یہ عالم ہی ماؤں کے سبب ہے۔ یہ ماؤں کا عالم ہے۔

جری، باکمال اور سچے ہیرو ”ایم ایم عالم“ کی سوانح حیات پر مبنی کتاب لکھتے ہوئے معلوم ہوا کہ ”پی این ایس شفاء کراچی“ کے آئی سی یو میں بیڈ نمبر 1 یا 9 پر دراز جب وہ تکلیف سے نڈھال ہوتے تھے تو ان کے منہ سے دکھ بھری آواز نکلتی تھی۔ اماں!

مجھے یقین کامل ہے کہ یہ آواز ”اماں“ بھی سنتی ہوں گیں۔ وہ اماں جن کا وہ عالم تھا۔ بلاشبہ یہ سب عالم ہی ماؤں کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments