بیت المقدس پر حکومت کرنے والی طاقتور ملکائیں

کیتھرین پنگونس - بی بی سی ہسٹری ایکسٹرا


 

صلیبی جنگ

پہلی صلیبی جنگ میں بطور انعام ملنے اور چار نسلوں تک مسیحیوں کے زیر قبضہ رہنے کے بعد دو اکتوبر 1187 کو بیت المقدس ایک مختصر سے محاصرے کے بعد سلطان صلاح الدین کی جھولی میں آن گِرا۔

یہاں آبادی کا تناسب کچھ اس طرح ہوا کہ ہر دس شہریوں میں سے ایک شہری مسیحی تھا لیکن اس کے باوجود سازگار شرائط پر بات چیت کے لیے یہ شہر کافی وقت تک ڈٹا رہا۔

بیت المقدس کا دفاع ایک غیر متوقع مگر تین طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے باعث ممکن ہوا تھا جن میں پیٹریارک ہرکلیئس (ایک اعلیٰ مذہبی عہدیدار)، ایک معزز شخص بالیئن اور بیت المقدس کی ملکہ سبیلا شامل تھے۔

سبیلا کو صرف ایک برس قبل ہی اپنے مرد رشتے داروں کی موت کے بعد تاج پہنایا گیا تھا۔

ان تینوں افراد نے تمام مشکلات کے خلاف شہر کا ایک مضبوط دفاع تشکیل دیا۔

شہر میں کھانے پینے کے گوداموں اور صفائی ستھرائی کی صورتحال سخت دباؤ کا شکار تھی کیونکہ ان کاموں کو کرنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں تھا، لگ بھگ تین ماہ قبل ہوئی ایک جنگ میں شہر کی فوج تباہ ہو چکی تھی اور اسی جنگ میں سبیلا کے شوہر گرفتار ہو چکے تھے۔

اگرچہ مؤرخین نے اس کے شہر کی حکمت عملی اور دفاع میں ملکہ سبیلا کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں اور بہت سے مؤرخ اس سارے عمل میں ملکہ سبیلا کو کوئی کریڈٹ دینے سے ہچکچاتے ہیں مگر اس خاتون کے کردار کو وسط لاطینی تاریخ میں محفوظ کیا گیا ہے۔

صلاح الدین کی فوج

سلطان صلاح الدین کے پاس مسیحوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ فوج تھی

تین طاقتوں پر مشتمل حکومت

یہ فطری بات ہے تخت و تاج ملنے کے بعد سبیلا کے پاس شہر کا سب سے اعلیٰ عہدہ تھا اور اسی سبب انھوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ طاقت کی یہ تکون کچھ اس طرح کام کرتی تھی:

  • سبیلا کو کمانڈ کرنے اور حکم دینے کا اختیار تھا
  • بالیئن فوج کی حکمت عملی ترتیب دیتے
  • پیٹریارک ہرکلیئس شہر کے فنڈز کو کنٹرول کرتے تھے

جب شہر تاراج ہونے لگا اور فصیلیں گرنے لگیں اور مزید مزاحمت کرنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو ان افراد نے ہتھیار ڈالنے کی شرائط پر مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں وہ بہتر سے بہتر امید یہ کر سکتے تھے کہ بیت المقدس میں موجود مسیحیوں کی زندگی اور آزادی کی گارنٹی لی جائے اور سبیلا کی ذاتی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔

شکست کے دہانے پر موجود یہ افراد مضبوط سودے بازی کی پوزیشن میں نہیں تھے۔

اس سب کے باوجود سلطان صلاح الدین نے ہتھیار ڈالنے کی اُن کی پیشکش قبول کر لی۔ سلطان صلاح الدین کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ ابتدا میں جب اس نے مذاکرات سے منع کیا تھا تو بیت المقدس کی فوجی حکمت عملی ترتیب دینے والے بالیئن نے مذاکرات کی عدم موجودگی میں ناصرف خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا عہد کیا تھا بلکہ یہ دھمکی بھی دی تھی کہ وہ اس شہر میں موجود اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کو ملیا میٹ کر دے گا۔

سبیلا سمیت شہر میں بسنے والے مسیحیوں کی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ اس سب کے باوجود بیت المقدس اب بھی صلاح الدین کا نہ تھا اور مذاکرات کے نتیجے میں تمام تر مراعات لینے کے باوجود سبیلا بنا کسی مملکت کے بھی شہزادی تھیں۔

صلیبی جنگ

کراس سٹیٹس

  • بیت المقدس پر مسیحیوں کا قبضہ لگ بھگ برس 88 تک رہا
  • یروشلم میں بادشاہت کی بنیاد پہلی صلیبی جنگ میں بہنے والے خون اور راکھ پر رکھی گئی تھی
  • یہ بادشاہت پہلی صلیبی جنگ کے دوران، بحیرہ روم کے لیونٹ میں قائم کی جانے والی پہلی چار صلیبی ریاستوں میں سے ایک تھی
  • اس سلطنت میں متعدد بادشاہتیں تھیں، جن میں پرنسپلٹی آف گلیلی، کاؤنٹی آف جفا اور اشکلون اور لارڈشپ آف ٹرانس جورڈن شامل تھے۔
  • یہ صلیبی ریاستیں جاگیردارانہ نوعیت کی سیاسی اکائیاں تھیں جو 11ویں صدی کے آخر میں مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے متعدد علاقوں میں صلیبی جنگ کے دوران عیسائی، کیتھولک یورپی باشندوں کے قبضوں کے نتیجے میں سامنے آئیں تھیں۔

یروشلم کی سلطنت بھی مشرق کی لاطینی ریاستوں میں سے ایک تھی جسے قرون وسطیٰ تک آؤٹریمر کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

طاقتور ورثہ

صلیبی ریاستوں کی سب سے اہم حکمران سبیلا کی دادی تھیں جو بیت المقدس کی پہلی خاتون بادشاہ اور ‘غیر معمولی طور پر دانشمند خاتون’ تھیں۔ ان کا نام میلیسنڈا تھا، جو یروشلم کے بادشاہ بوڈون دوم اور آرمینیائی شہزادی مورفیا ڈی میلیتین کی بیٹی تھیں۔ چار بیٹیوں میں سب سے بڑی ہونے کے ناطے وہ اپنے والد کی وارث نامزد ہوئی تھیں۔

سنہ1152 میں، سبیلا کے سلطان صلاح الدین سے مقابلہ کرنے سے 35 سال قبل، میلیسنڈا نے بھی محاصرہ کرنے والی ایک فوج کے خلاف اس شہر کا دفاع کیا۔ وہ حملہ بے حد شدید نوعیت کا تھا۔

اس دور کے معاصر مؤرخ گلرمو ڈی ٹیرو لکھتے ہیں کہ ‘یہ محاصرہ بہت شدید تھا جس کے دوران آرام کرنے کا وقت بالکل بھی نہیں تھا۔ مگر انھوں (میلیسنڈا کی فوج نے) پوری طاقت کے ساتھ مزاحمت کی اور طاقت کا مقابلہ بھرپور طاقت سے کیا۔۔۔ انھوں نے اپنے دشمنوں کو کاری وار لگانے سے گریز نہیں کیا اور ان کو ایسی ہی تباہی سے دوچار کیا جیسا کہ وہ کرنا چاہتے تھے۔’

لیکن یہ کسی اسلامی سپہ سالار کی فوج نہیں تھی جس کا مقابلہ میلیسینڈا کو کرنا تھا بلکہ یہ ان کے اپنے بیٹے بدوئن سوم کی فوج تھی جسے انھیں پسپا کرنا تھا۔

47 سالہ ملکہ میلیسنڈا کو اپنے ہی بیٹے کو روکنا اور پسپا کرنا تھا جو انھیں اس تخت و تاج سے محروم کرنے کے درپے تھا جسے انھوں نے 20 سال قبل حاصل کیا تھا۔ مگر جس طرح میلیسینڈا نے اقتدار سے دستبردار نہ ہونے کا عزم کر رہا تھا اسی طرح ان کے بیٹے بدوئن بھی تاج حاصل کرنے کے اپنے دعوے میں اتنے ہی پُرعزم تھے۔

جیسا کہ یہ منظر حیرت زدہ کرنے والا تھا یعنی ایک مسیحی ماں اور بیٹا، عیسائیوں کے سب سے مقدس شہر کے حصول کے لیے کھلی جنگ میں مصروف تھے۔ مگر اصل حیرت کی بات یہ تھی کہ اس تنازع کی پھوٹ پڑنے میں اتنا وقت کیوں لگا تھا۔

اختلاف کا عہد نامہ

میلیسنڈا کے والد نے بستر مرگ پر اپنی وصیت میں ایک ترمیم کی تھی جو اس کے موروثی حق حکمرانی کی حفاظت کرتی تھی۔

اس وقت یہ متوقع تھا کہ اب حق حکمرانی کسی خاتون کے بجائے میلیسینڈا کے شوہر فلکو کو تفویض کیا جائے گا۔

مگر توقعات کے برعکس میلیسنڈا کے والد نے اقتدار کی طاقت کا ایک ایسا اتحاد ثلاثہ ( تین افراد میں اقتدار کی تقسیم) تشکیل دیا تھا جو سلطنت کے اقتدار کو اس کی بیٹی (میلیسنڈا)، داماد اور اپنے چھوٹے نواسے یعنی میلیسنڈا کے بیٹے میں برابر تقسیم کرتا تھا۔ اس ہی بیٹے بدوئن سوم نے 20 برس بعد نیزوں، تلواروں اور تیر کمانوں سے لیس اپنی والدہ کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا تھا۔

میلیسنڈا کے والد نے یہ فیصلہ اپنے بستر مرگ پر مختلف سیاسی اور شاہی وجوہات کی بنا پر کیا تھا۔

وہ یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اس کا داماد، فلکو ، بادشاہ کی حیثیت سے میلیسینڈا کو طلاق دینے کا جواز نہ پیدا کر لے اور کسی اور خاتون سے شادی کر کے میلیسنڈا اور بدؤین سوم کو تخت سے بے دخل نہ کر سکے۔ بوڑھا بادشاہ چاہتا تھا کہ تخت اس کی نسل سے جڑا رہے۔

مزید یہ کہ فلکو، فرانسیسی ہونے کے ناطے یروشلم میں ایک غیر ملکی تھا اور اس کا امکان نہیں تھا کہ وہ مقامی شرفا کے نظر میں عزت حاصل کر سکتا، جبکہ اس کے برعکس میلسینڈا جو اپنی ماں کی طرف سے آدھی آرمینائی تھی اور جس نے مشرق میں جنم لیا تھا اور یہیں پرورش پانے کے ساتھ ساتھ وہ صلیبی بادشاہت کا حصہ بھی تھی کو مقامی شرفا میں زیادہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

جب بیت المقدس کے حکمران بدوئن دوم کی موت ہوئی تو اس کی بیٹی اور داماد کو بنا کسی شک و شبے کی بادشاہ اور ملکہ بنا دیا گیا۔ لیکن ابتدا میں میلیسنڈا کے لیے تخت تک رسائی آسان تھی لیکن اختیارات کا استعمال مشکل تھا۔

اپنی حکمرانی کے ابتدائی چند برسوں میں، فلکو نے حکومتی معاملات میں ملکہ کے اختیار کو دور رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن اختیار کے استعمال کے ایک بہت بڑے سکینڈل اور کھلے عام بغاوت کے بعد ہی میلیسنڈا بیت المقدس کے حکومت میں اپنا اختیار استعمال کرنے کے قابل ہوئی تھی۔

اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ طاقت اور اختیار میں کیا فرق ہوتا ہے، اختیار کا مطلب حکمرانی کرنے کا حق جبکہ طاقت کا مطلب ایسا کرنے کی صلاحیت ہے۔

قرون وسطی کے دور کی ملکاؤں کو ایک قدامت پسند مرد حاکمیت کی دنیا میں پہلے اختیار حاصل کرنے اور پھر اسے مستحکم طاقت میں تبدیل کرنے کے دوہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس میں پہلی مشکل سیاست کے گرد گھومتی تھی جبکہ دوسرا چیلنج شخصیت کا تھا۔

بادشاہوں، ملکاؤں کی غیر موجودگی

یروشلم کی سلطنت (آوٹریمر) میں مخصوص عدم استحکام اور بحران نے ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا جس میں شاہی خاندان کی خواتین کو آگے بڑھنے اور شاہی اختیارات کا استعمال کرنے کا موقع ملا۔

صلیبی ریاستوں میں جنگجو مردوں کی اوسط عمر کم تھی، مثال کے طور پر 12ویں صدی میں یروشلم کے بادشاہ جو اس خطے میں پیدا ہوئے تھے 26 برس کی اوسط عمر میں مر گئے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں فرانس کے بادشاہوں کی اوسط عمر 57 برس تھی۔

یروشلم کی سلطنت کے مرد حکمرانوں کی ہلاکت میدان جنگ یا کسی غیر متوقع حملے میں نہ ہوتی تو وہ کسی ناگہانی آفت یا بیماری کا شکار ہو جاتے۔

مثال کے طور پر ملکہ سبیلا کے بھائی بوڈون چہارم بنا اولاد کے جذام کے مرض کا شکار ہو کر مر گئے اور ان کے جوان بھانجے کی موت کے بعد تخت ان کی بہن کو چلا گیا تھا۔

یروشلم کی صلیبی ریاستوں میں خواتین عموماً اپنے مرد رشتہ داروں سے زیادہ لمبی عمریں پاتی تھیں جو عام طور پر انھیں کنٹرول کرتے تھے اور اپنے طور پر اقتدار اور سیاسی وفاداری کے علم بن جاتے تھے۔

اس کے علاوہ قدرتی طور پر یروشلم کے بادشاہوں کے ہاں بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی پیدائش زیادہ ہوتی تھی۔ اس نے بیت المقدس کے معاشرے کو خواتین یا ملکاؤں کی حکمرانی کے نظریہ کو قبول کرنے پر مجبور کیا تھا۔

صلیبی جنگ

خاتون میں مرد کی جھلک

میلیسنڈا نہ صرف اپنے اختیار کو طاقت میں بدلنے میں کامیاب ہوئی تھی بلکہ اس نے اپنے اختیار کے ختم ہونے کے دس برس بعد تک بھی اپنی طاقت کو قائم رکھا۔

اس کا شوہر فلکو، ایک شکار کے دوران حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا اور میلیسنڈا اکیلی رہ گئی تھی اور اس نے آزادانہ طور پر حکمرانی کی تھی۔ اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد اس کو اس دور کی بااثر ترین شخصیت میں سے ایک ابیٹ آف کلایئرویکس، برنارڈو کا ایک خط موصول ہوا۔

اس نے خط میں لکھا تھا، ’سب کی نگاہیں آپ پر مرکوز ہیں، اور سلطنت کی ساری ذمہ داری آپ پر آن گری ہے۔ آپ حکمرانی کے معاملات کو سنبھالیں اور ایک عورت کے اندر چھپے مضبوط مرد کو ظاہر کریں۔‘

تاہم برنارڈو نے میلیسنڈا سے جو کہا تھا وہ اس کے لیے نیا نہیں تھا، کیونکہ وہ کئی برسوں سے اپنے شوہر کے ساتھ حکومت کے معاملات دیکھ رہی تھی۔ البتہ یہ خط ایک شاندار دستاویز تھا جسے ایک مسیحی مذہب کے اہم مذہبی عہدے کے جانب سے ایک عورت کی خود مختار حکمرانی کے لیے ایک دعا کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

لیکن برنارڈ نے اپنے خط میں اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ میلسینڈا بطور حکمران صرف اس وقت تک رہیں جب تک کہ ان کا بیٹا حکومت سنبھالنے کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔

یقیناً بوڈون دوم کی کبھی یہ نیت نہیں تھی کہ ان کی نواسے کے جوان ہونے کے بعد بھی ان کی بیٹی تخت کی حکمرانی جاری رکھیں لیکن جب یہ وقت آیا تو میلیسنڈا نے اس سے انکار کر دیا۔

چھ برسوں تک وہ بوڈون سوئم کے سلطنت کی حکمرانی کے دعوؤں کو جھٹلاتی رہیں اور صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ بیٹے نے ماں کے خلاف یروشلم کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔

بالآخر میلسینڈا تخت حکمرانی سے سبکدوش ہو گئی اور بوڈون سوئم نے سلطنت سنبھال لی، البتہ میلسینڈا کا شاہی دربار میں اعلیٰ مقام قائم رہا۔

خواتین ملکائیں

اپنے نقش چھوڑنا

اس وقت میلسینڈا کا شمار ان دو خواتین شاہی حکمرانوں میں ہوتا تھا جو یورپ میں مقبول تھیں، جن میں سے پہلی اوریکا ڈی لیون کسٹیلا تھیں جن کی طاقت اور خود مختاری مشرق و مغرب کی شاہی خاندانوں کی خواتین کے لیے ایک مثال تھی۔

تاہم میلسینڈا وہ واحد خاتون حکمران نہیں تھی جس نے آوٹریمر ( یروشلم کی شاہی سلطنت) پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی ہو۔

ان کی بہن الیشیا بھی صلیبی ریاست آنٹیوش (موجودہ خطہ شام و ترکی) کی شہزادی بنی تھی۔ ایک خاتون حکمران جو اپنی نوعمری میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں۔ انھوں نے بیت المقدس کے دو بادشاہوں پہلے اپنے والد اور پھر اپنے بہنوئی کی حکمرانی کو چیلنج کیا تھا اور آنٹوشیا کی حکومت اپنے انداز میں ایک خودمختار خاتون حکمران کے طور پر سنبھالی تھی۔

شاہی سلطنت سے سبکدوش ہونے سے قبل انھوں نے تین مرتبہ شاہی تخت کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کیے تھے چاہے وہ اپنے والد کے خلاف ترک بادشاہ عماد الدین زنگی سے اتحاد کرنا ہو یا طرابلس اور قدیم میسوپوٹامیہ کے شہر اڈیسا میں اضطراب اور غصے کا شکار حکام کے ساتھ مل کر فلکو بادشاہ کے خلاف عوام کو اکسانا ہو۔

آلیشیا کی بعد اس کی بیٹی کونسٹانزا نے تخت سنبھالا، جو خود بھی ایک جوان بیوہ تھیں اور ان کی عزائم بھی اپنی والدہ کی طرح آزادانہ حکمرانی کے تھے۔ تاہم کونسٹانزا اپنی والدہ کے مقابلے میں اپنے عزائم کی زیادہ پکی اور ضدی تھی اور اسی لیے وہ اپنی والدہ سے زیادہ کامیاب بھی رہی۔ اس نے ایک کرائے کے جنگو رینلڈ ڈی چیٹلین کی محبت میں گرفتار ہونے اور اس سے شادی کرنے سے قبل متعدد برسوں تک خودمختار حیثیت سے آنٹوشیا پر حکمرانی کی۔

میلسینڈا اور آلشیا کی چھوٹی بہن اور طرابلس کی ملکہ ہوڈیرنا بھی تخت کی جنگ لڑنے کے دوران دو قاتلانہ حملے جن میں سے ایک طرابلس کے مخالف حریف اور دوسرا اپنے ہی شوہر پر کروانے میں ملوث تھی۔ جو اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی کے بعد پرسرار طور پر ہلاک ہو گیا تھا۔

اس بڑی لڑائی کے بعد ہوڈیرنا نے اپنی بہن کے ساتھ بیت المقدس جانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ عام خیال یہ تھا کہ اس کے شوہر کو مسلمانوں کے ایک فرقے کے ارکان نے مارا تھا ، لیکن یہ اس اسلامی گروہ کے لیے ایک بہت ہی غیر معمولی ہدف تھا۔ ریمونڈ کی موت کے بعد ہوڈیرنا جو اکیلی رہنے اور اپنے دو بیٹوں کی جگہ طرابلس کی حکمرانی کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔

اچھی یا بری لیکن بیت المقدس کی طاقتور ملکاؤں نے قرون وسطیٰ کے دور کی تاریخ کے صفحوں پر اپنے نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ شاہی سلطنت خواتین حکمرانوں کے ایک منفرد سلسلے کا بتاتی ہے جنھوں نے اپنی کامیابوں اور تجربات سے دنیا بھر کی توجہ سمیٹی۔

کیتھرین پنگونس قرون وسطی کے دور میں مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کی دنیا میں مہارت رکھنے والی ایک مورخ ہیں اور ‘کوئینز آف یروشلم: دی وویمن ہو ڈیر ٹو رول’ کی مصنفہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp