خدا یا میرے القدس کی آبرو رکھنا


ہم ہلاک کیے جا رہے ہیں
اس کے بعد بھی ہلاک کیے جاتے رہیں گے
اور اس کے بعد بھی
جب تک بارودی دھند کے سناٹوں میں
انسانیت کی جنبش پیدا نہیں ہوتی۔

ایک مقدس مقام، جسے قبلہ اول بھی کہا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ صدیوں سے مقدس کے ساتھ متنازع بھی رہا ہے۔ اب ڈر ہے کہ کہیں اس کا بھی وہی حال نہ ہو جائے جو اندلس میں قرطبہ کے ساتھ ہوا اور جو بھارت میں بابری کے ساتھ ہوا۔

عہد فاروقی میں ہی ایک معاہدے کے تحت یہ مقدس مقام مسلمانوں کے قبضے میں آیا تھا اور پہلی صلیبی جنگ میں یورپی صلیبیوں نے ستر ہزار مسلمانوں کو ہلاک کر کے اس پر اپنا قبضہ جما لیا۔ پھر صلاح الدین ایوبی نے اسے آزاد کرایا۔ پھر جب دنیا پر پہلی جنگ عظیم کا بادل چھایا اور یہ وہ بادل تھا جس کی رتھ پہ بیٹھ کر دنیا خوف اور وحشت کا سفر کر رہی تھی تو اس وقت یروشلم اور القدس پر بھی حملے ہوئے۔ جب جنگ عظیم کا سیاہ بادل چھٹ گیا تو اقوام متحدہ نے فسطائیت سے مرعوب ہو کر ہر معاہدے کے طلسمی جال کو کترتے ہوئے یروشلم اور مقدس مقام کی زمین کو فسطائی قوتوں کے حق میں ہمیشہ کے لیے کشادہ کر دیا۔

مقدس مقام کے حصار میں اقصی ہے اور ابھی کل کی ہی بات ہے کہ اقصی کی صحن میں کچھ مسلمان نماز ادا کر رہے تھے۔ مگر یہ کیا کہ وہ نماز پڑھتے پڑھتے دنیا سے غائب کر دیے گئے۔ وہ سجدے میں تھے اور ان پر فائرنگ کردی گئی۔ وہ رکوع میں تھے اور انہیں قتل کر دیا گیا۔

ہلاک ہوئے لوگوں کے درمیان ایک عورت دوڑتی ہوئی آئی میں نے دیکھا کہ اچانک اس عورت کا نقاب اس کے چہرے سے ہٹ گیا اور اس کے گندھے ہوئے بال کھل کر یخ بستہ ہواؤں میں لہرانے کے بجائے ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگے۔ بال جب ٹوٹے تو اس کے بھورے رنگ بالوں میں سرخی آ چکی تھی اور بالوں کے کچھ حصے جو ابھی بھی اپنے گچھے سے لگے ہوئے تھے، ان سے مترشح ہو کر خون کے کچھ قطرے زمین پر گرنے لگے تھے۔ اس نے خود کو زخمی حالت میں دیکھا اور اس پر دھیرے دھیرے غشی طاری ہونے لگی اور یہ کہہ کر وہ بے ہوش ہو گئی۔

’خدا یا میرے القدس کی آبرو رکھنا۔‘

پھر میں نے کہ ایک مسلم نوجوان کو مسکراتے دیکھا۔ اس کی شکل مسلمانوں جیسی نہیں تھی۔ اس کے چہرے پر داڑھی بھی نہیں تھی۔ سر پر ٹوپی بھی نہیں۔ مگر اس کی گردن کو دو اسرائیلی فوجیوں نے اپنے مسلح بازوؤں میں دبوچے ہوا تھا اور وہ کہہ رہا تھا۔

’القدس کے لیے تو میں اپنی ایسی ہزاروں جانیں قربان کر سکتا ہوں۔‘

اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کہاں کی آواز ہے۔ یہ آواز القدس کی صحن کے خوفناک منظر سے باہر آئی یا فسطائیت کے دروازے پر سسکتی انسانیت کی موت سے اس کی مردار روح پرواز ہوتے وقت مجھ سے ٹکرا گئی، مجھے نہیں معلوم۔ مگر مجھے یہ احساس ضرور ہوا کہ اس عورت اور اس نوجوان کی آواز میں ایک میری بہن اور دوسرا میرا بھائی ہے اور القدس ان کی مقدس ماں ہے۔ وہ لڑ رہے ہیں اپنی ماں کے لیے، القدس کے لیے جس پر سیاسی گدھ کا سایہ ہے۔

عورت تو خون سے غسل کر کے لڑکھڑا گئی مگر نوجوان مسکرا رہا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں بے خودی اور جنون کی کیفیت تھی۔ اور میں خوف میں تھا کہ یہ نوجوان اب اس دنیا سے جانے والا ہے۔

سنجیدہ فلسفوں کا کاروبار کرنے والے سنجیدہ فلسفی اور دنیا کی خوبصورتی کو قریب سے دیکھنے والے دانشور تو یہ بھی نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ انہیں تو اس بات پر بھی یقین نہیں کہ مرنے کے بعد کوئی اس سے بھی زیادہ ہنستی اور مسکراتی دنیا کا سراغ لگنے والا ہے۔

وہ نوجوان اس دنیا کو جانتا تھا جس کا خدا نے اس سے وعدہ کیا ہے۔ وہ کوئی عظیم فلسفی یا دانشور نہیں تھا۔ صحافی اور تجزیہ نگار بھی نہیں۔ مفاد پرستی کے کچے گھڑے پہ بیٹھ کر مذہبی راگ الاپنے والا ملا یا مفتی بھی نہیں۔ وہ بس ایک نوجوان تھا جو شاید کچھ لوگوں کی زبان میں مسلمان بھی نہیں اور کچھ کی زبان میں نوجوان بھی نہیں، بس ایک بچہ، مگر اس کی مسکراہٹ سے فوجی کے چہرے کا زاویہ بدل گیا تھا۔ اسے اس کی مسکراہٹ سے وحشت کی چنگھاڑ سنائی پڑ رہی تھی۔

فوجی ڈرا اور اپنی ڈر کو ختم کرنے کے لیے اس نے بندوق تان کر ٹریگر دبایا۔ بندوق سے ایک گولی نکلی اور گولی اس نوجوان کی کھوپڑی کے اندر گھس کر اس کے سر کے ایک سرے کو چیرتی ہوئی دوسرے سرے سے باہر نکل گئی۔ نوجوان مر چکا تھا اور اس کی زبان پر پھر یہی الفاظ تھے۔

’القدس کے لیے تو ایسی ہزاروں جانیں قربان کر سکتا ہوں۔‘

قدیم زمانے کی تہذیب و ثقافت میں قدیم عمارتوں کی شاہکار اور فنکاریوں کی عظمت کی نشان کہلانے والی عبادت گاہوں کو دیکھنا چاہتا ہوں تو وہاں بھی مجھے قرطبہ اور قرطبہ جیسی کئی شاندار اور عظیم عبادت گاہیں ملبے میں تبدیل دکھائی دیتی ہیں۔ قدیم زمانے سے نکل کر کچھ سال پیچھے جاتا ہوں تو بھارت کی بابری کا ہولناک منظر میری آنکھوں میں اتر آتا ہے۔ کچھ اور پیچھے جاتا ہوں تو مجھے ایک حادثہ گھیر لیتا ہے کہ معبد اپنے گھر میں ہی کب محفوظ رہا تھا کہ اسلامی جمہوریہ میں ایک لال مسجد ہے اور وہاں بھی بارودی لہر میں مسلمانوں کی ہلاکت کا تصدیق نامہ خون کے حوض میں تیرتا دکھائی دیتا ہے۔

معبد، اسکول اور کالجوں میں گھس کر خون کا یہ بارودی گیم کھیلنے والے جنگ عظیم سے لے کر آج تک کوئی عوام یا کوئی تحریک چلانے والی تنظیم یا اس کا سرغنہ نہیں بلکہ ہٹلر، راسپوتین، نپولین، بشار الاسد، بش، زرداری، نتن یاہو اور نریندر مودی جیسے خیالات رکھنے والے لوگ ہیں، جو ہماری امن بھری دنیا کی سیاست حصہ بنتے آئے ہیں اور اگر عوام ایسی ہی رہی تو ہماری دنیا پر راج کرنے کے لیے آگے اس سے بھی برے لوگ آتے رہیں گے۔

اسرائیل کے فوجیوں کا فلسطینی بچے اور بچیوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنانا، یہ سیاسی دہشت گردی بھی ہے اور زمین کو فساد سے بھرنے اور پوری دنیا کے امن و امان کو بھنگ کرنے کی ناکام کوشش بھی۔ اور جب پوری دنیا فلسطین کے حق میں کھڑی ہوتی ہے اور دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں تو کچھ شدت پسندوں کو ناگواری محسوس ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کے زخم پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہتے ہیں

’آئی لو اسرائیل۔‘

یہ انہی لوگوں کی آواز ہے جو اپنے ماں باپ کی لاش کو شمشان تک لے جانے سے ڈرتے تھے۔ اور اس وقت مسلمانوں نے ان کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا تھا۔ فرض کیجیے کہ جو فلسطین میں ہوا وہ ہندؤوں کے ساتھ ہوتا تو مسلمان ہر طرف سے ان کے حق میں کھڑے ہو جاتے۔

جب کرونا کی دوسری لہر چلی تو دنیا کے کسی خطے سے کسی بھی مسلمان نے ان لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر آئی لو کرونا نہیں کہا۔ جب کہ وہ خوش ہوسکتے تھے، قہقہے لگا سکتے تھے کہ شمشان میں جلنے والے مردوں کی لاش میں ہمارا کوئی مسلمان بھائی نہیں، مگر دنیا بھر سے انہوں نے آکسیجن وغیرہ بھیج کر ثابت کر دیا کہ مذہب تو بعد کی چیز ہوتی ہے پہلے تو ہم انسان ثابت ہوئے ہیں۔

مذہبی سیاست کرنے والے مذہب اور قومیت کی تشکیل کے لئے ہٹلر کے ہر ایجنڈے سے گزر گئے۔ مظلوم اپنی بچاؤ کے لیے پولیس پر حملہ آور ہوا تو اسے دہشت گردی کہا گیا اور پولیس اور فوجیوں نے ڈھائی سو لوگوں کو ہلاک کر دیا تو اخبار کی سرخی نے اسے محض ایک آپسی جھڑپ بتا کر ایک لمبی کہانی بننے والی فلم کا دی اینڈ کر دیا۔

بھارتی میڈیا نے صحافت کے اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ یہ سیاست اب اخباروں اور میڈیا سے ختم ہونی چاہیے۔ سیاست کے سیاہ چہرے سے دو رنگی کا یہ سفید نقاب اب اٹھ جانا چاہیے، ورنہ سیاست کی گود میں بیٹھ کر مذہب کا افیم پینے والے کچھ تشدد پرست اسرائیل کے بھائی اور یروشلم پر اقتداری کا خواب دیکھنے والے اسرائیلی کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ فلسطین کو بھی اندلس کی طرح ختم کردیں اور یروشلم کا وہ مقدس خطہ بھی قرطبہ اور بابری کی طرح بس ملبے کا ایک ڈھیر بن کر رہ جائے۔ اور ہمیں سنائی دینے والی آواز کا لہجہ ’آئی لو اسرائیل‘ کے بجائے ’آئی لو مائی ڈیئر اسرائیل۔‘ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments