فلسطین: اب ابابیل ہی بھیج یا رب


گزشتہ دو تین دنوں سے اسرائیل کی نہتے فلسطینی بھائیوں پر تازہ دہشت گردی کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے توسط سے دیکھ رہا ہوں۔ یہ دیکھ کر دل خون کے آنسوؤں روتا ہے کہ مسلمانوں پر قبلہ اول میں تراویح پڑھتے ہوئے یلغار کی گئی۔ اللہ پاک فلسطینی بھائیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے، آمین۔ کہ ہم فقط دعا ہی کر سکتے ہیں یا سوشل میڈیا پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکتے ہیں۔ ہم اپنی احتجاجی اور اسرائیل کے لیے بد دعاؤں سے لبریز تحریریں سوشل میڈیا کے سپرد کرتے ہوئے شاید یہ نہیں سوچتے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان ممالک اپنی عددی برتری کے باوجود آج تک اسرائیل سے قبلہ اول کو واگزار نہیں کروا سکے؟ وجہ کیا ہے؟ باہمی ناچاقی اور خلفشار؟ سرمایہ و وسائل کی کمی؟ اخلاقیات کا فقدان؟ یا جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی میں پستی؟ میرا خیال ہے کہ یہ سب عناصر ہماری موجودہ حالت کے ذمہ دار ہیں۔

یہاں حالت یہ ہے کہ کچھ اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہیں، جبکہ پاکستان جیسے مسلمان ممالک بھی موجود ہیں جہاں اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی تعلق باقاعدہ گالی سمجھا جاتا ہے۔ آپس میں مسلمان ممالک آج تک کسی مسئلے پر ایک ہو نہیں سکے۔ ملک شام کے باسی مسلمان ممالک کی آپس کی لڑائیوں کا خمیازہ پچھلے ایک عشرے سے بھگت رہے ہیں۔ وہاں مسلمان پر ظلم مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہو رہا ہے۔ لڑائیاں کسی اور کی ہیں لڑی وہاں جا رہی ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کئی مسلم ممالک اسرائیل سے اسلحہ کے خریدار بھی ہیں۔ یہ اسلحہ ظاہری بات ہے کہ اسرائیل کی خلاف تو استعمال نہیں ہوتا بلکہ دوسرے مسلم ممالک کی سرکوبی کے لیے ہی خریدا جاتا ہے۔ جب مسلمان پر ظلم ڈھانے کے لیے مسلمان کا ہاتھ اور وسائل میسر ہوں تو پھر فلسطینی بھائیوں پر ڈھائے گئے مظالم پر فقط دور سے آنسو بہانے سے کیا حاصل ہوگا؟

تو نا اتفاقی تو درجہ اتم موجود ہے، کیا مسلمانوں کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بیشتر مسلمان ممالک قدرتی معدنیاتی وسائل سے مالامال ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ ٔ ہے۔ وہ یہ کہ ان معدنیاتی وسائل سے مستفید ہونے کے لیے ہمیشہ کسی مغربی غیر اسلامی ملک کی مدد درکار ہوتی ہے۔ کیونکہ ہم نے تو قسم کھائی ہوئی ہے کہ سرمایہ عیاشی، تن آسانی، نمود و نمائش اور اپنے مسلک کی ترویج کرنے کے لیے عسکری و غیر عسکری ادارے بنانے کے لیے تو خرچ کرنا ہے لیکن کسی بڑے تعلیمی ادارے کی بنیاد نہیں رکھنی جو پوری دنیا کے مسلمانوں میں جدید تعلیم کی ترویج کے لیے کام کرسکے۔

کہتے ہیں کہ آج سے کوئی بہتر سال پہلے جب یہودی سرمایہ داروں نے اربوں ڈالرز اپنی دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ بنانے کیے اکٹھے کیے تو کسی سیانے نے چیف ربی کو مشورہ دیا کہ عالی جاہ ان پیسوں سے اتنی بڑی عبادت گاہ کھڑی کرنے کی بجائے ایسا فنڈ بنائیں جو یہودی نسل کی مذہبی و دنیاوی تعلیم کے لیے کام کرے۔ مشورہ دینے والے پر فتویٰ لگانے کی بجائے اس کی یہ بات مان لی گئی اور نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے کہ دنیا میں شاید ہی کوئی یہودی اپنی دینی تعلیمات سے بے بہرہ یا جدید دنیاوی تعلیم سے نابلد ہو۔

دوسری طرف اپنے حال سے ہم واقف ہی ہیں۔ جدید اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والوں میں مسلمان سب سے پیچھے ہیں۔ صدیاں گزر گئی کوئی ایسی سائنسی ایجاد مسلمان نہیں کرسکے جس سے پوری دنیا کو فائدہ ہو۔ آپ کے لیے شاید حیرانی والی بات ہوگی کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اپنی پوری آبادی کو کورونا کی ویکسین لگا کر اس مرض سے محفوظ کر لیا ہے اور وہاں لاک ڈاؤن نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ یہاں ہم ہیں کہ ایسی کوئی ویکسین بنانا تو دور کی بات جو ہمیں دوسرے ممالک سے ملتی ہے اسے بھی لگانے سے انکاری ہیں کہ شاید یہ ہمارے اندر کوئی چپ لگا دے گی۔

سوچیئے جس مشورے پر عمل کر کے یہودیوں نے اپنے وسائل کا رخ تعلیم کی طرف کر دیا ایسا کوئی مشورہ ہمارے یہاں دے تو کیا ہوگا؟ ہمارے اپنے ملک میں جب بھی مدرسہ میں اصلاحات کی بات کی جاتی ہے تو اسے اسلام دشمنی کہہ کر بھرپور احتجاج کر کے روکا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاست نے مدرسہ کو چندہ دینے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ سوائے ایک آدھ حکومت کے کسی نے آج تک اسلامی مدرسوں کے لیے رقوم مختص نہیں کیں۔ پھر انہیں مدارس کے بچوں کو کبھی افغان جہاد کے لیے استعمال کیا گیا تو کبھی اندرونی فرقہ واریت کی آگ میں جھونکا گیا۔

ابھی آج کل میں ہی ایک دینی جماعت کے سرکردہ رہنما کی ایک ٹویٹ بہت گردش کر رہی ہے جس میں انہوں نے یہ نوید سنائی ہے کہ ان کا بیٹا ایک مغربی جامعہ سے پی ایچ ڈی کر کے واپس لوٹا ہے۔ یار دوست تنقید کر رہے ہیں کہ ان کی تنظیم نے غریب والدین کے بچوں کو افغان و کشمیر جہاد میں جھونک دیا جبکہ یہ اپنے بچوں کو مغربی تعلیم دلوا رہے ہیں۔ میرے خیال میں صرف تنقید کرنے کی بجائے ان صاحب سے مطالبہ کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کے ذریعے ایسا تعلیمی ادارہ قائم کریں جس سے غریب والدین کے بچے بھی اعلٰی تعلیم حاصل کر سکیں۔

اب چونکہ وہ صاحب بذات خود مغربی تعلیم کے معترف ہوچکے ہیں تو اپنی جماعت کے ذریعے جدید مغربی تعلیم کی اسلامی مدارس میں ترویج کے لیے تحریک شروع کریں۔ جو بچہ قرآن پاک کو اپنے سینے میں محفوظ کر سکتا ہے وہ کسی بھی دوسرے بچے کی نسبت کوئی بھی علم زیادہ جلدی اور بہتر انداز میں سیکھ سکتا ہے۔ میں ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جنہوں نے قرآن پاک حفظ کر کے اور دینی تعلیم سے آغاز کر کے جدید دنیاوی تعلیم حاصل کی اور اپنے متعلقہ شعبے میں نام کمایا۔ اس کے علاوہ کچھ دینی مدارس اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اداروں میں جدید دنیاوی تعلیم کا اہتمام کر رہے ہیں جو کہ قابل تعریف عمل ہے لیکن بیشتر مدارس ابھی بھی اسے بدعت سمجھ کر جدید دنیاوی تعلیم سے اپنے طلبہ کو دور رکھے ہوئے ہیں۔ جس سے نقصان صرف اور صرف مسلم امہ اور وطن عزیز کا ہو رہا ہے۔

سو جب تک ہم خود اپنے حالات میں بہتری لانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائیں گے تب تک پوری دنیا میں ایسے ہی مار کھاتے رہیں گے جیسے ہمارے فلسطینی و کشمیری بھائی ظلم برداشت کر رہے ہیں۔ ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ پاک سے ایک ہی دعا ہے کہ اے پرورد گار جیسے اپنے کعبے کو بچایا تھا ویسے ہی قبلہ اول کو بچانے کے لیے بھی ابابیل ہی بھیج کہ مجھ جیسے تیرے گناہ گار بندے فقط سوشل میڈیا پر ہی آواز اٹھا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments