اپنے بچے مغربی یونیورسٹیوں میں اور غریبوں کے بچے جہاد میں


جماعت اسلامی کے نائب امیر جناب لیاقت بلوچ صاحب کے بیٹے نے کینیڈین یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور لیاقت بلوچ صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ردعمل میں لوگوں نے کہا کہ وہ غریبوں کے بچوں کو ورغلا کر جہاد پر بھیجتے ہیں اور اپنے بچوں کو مغربی یونیورسٹیوں میں تعلیم دلاتے ہیں۔

دوہرے معیار کی ایک اور مثال یہ بھی تھی کہ جماعت اسلامی کی لیڈرشپ ایک طرف تو مغربی تہذیب کو گھٹیا اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار سمجھتی ہے لیکن دوسری جانب اپنی اولاد کو وہیں تعلیم کے لیے بھیجتی ہے۔

سوشل میڈیا پر جب شور مچا تو جماعت اسلامی کے لوگ اپنی لیڈرشپ کے دفاع کو نکلے۔ جماعت اسلامی کے ایک فیس بک صارف کا تبصرہ درج ذیل میں جوں کا توں، املا کی غلطیوں سمیت، نقل کیا جا رہا ہے۔

”“ ۔ نیکی بر باد۔
گناہ لازم۔
دوستو!

جناب لیاقت بلوچ صاحب نے امریکہ میں پڑھنے والے اپنے ایک بچے کی کامیابی کی خبر دی ہے۔ اس پر ایک سیکولر نے حسب معمول ”اپنے“ بچوں کو تعلیم دلوانے اور ”دوسروں“ کے بچوں کو افغان جہاد میں مروانے کا طعنہ دیا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طعنے سے زچ ہو کر ہمارے جماعت اسلامی ہی کے ایک محترم دوست نے اسے اپنے وال پر شیئر کر کے درجہ ذیل کمنٹ کیا :
”واللہ کل لیاقت بلوچ صاحب کا ٹویٹ پڑھتے ہوئے پہلا خیال یہی آیا کہ یہ“ آ بیل مجھے مار ”والا عمل ہے۔“

اس کے جواب میں عرض کیا:

گزارش یہ ہے کہ جہاد افغانستان پر پوری دنیا کے مسلمان نوجوانوں میں سے جو کوئی جا چکا ہے، وہ اپنی مرضی سے گیا ہے۔ نہ پاکستانی فوج اور نہ جماعت اسلامی نے کسی کو مجبور کیا ہے۔

ہاں! جذبہ جہاد سے سرشار نوجوانوں کو افغان مسلمانوں اور خود پاکستان کے لیے موت و حیات کے اس موقع پر افغانستان جانے کی سہولت دی گئی تھی۔ اس پر جماعت اسلامی کو کوئی افسوس یا شرمندگی نہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جہاد میں جماعت اسلامی کی اعلی قیادت کے پیارے نوجوانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور شہادتیں پائی تھیں۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر اور سندھ کے امیر جان محمد عباسی رح کا جواں سال بیٹا افغان جہاد میں ہی شہید ہوا ہے۔ ایسی اور بھی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔

جب بھی وطن عزیز یا مسلمانوں پر برا وقت آتا ہے۔ اور روس یا امریکہ جیسی دس گنا طاقت سے اپنے وسائل پر لڑنا ممکن نہ ہو۔ مسلمان نوجوانوں کا جذبہ جہاد ابھارا جائے گا۔ اور یہ کام جماعت اسلامی آئندہ بھی ڈنکے کی چوٹ کرے گی۔ اس پر معذرت خواہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

جماعت اسلامی کی تاریخ میں یہی تو سب سے قابل فخر کارنامہ ہے۔ ”

دوستو!

جماعت اسلامی ہی کے نظریاتی دوستوں میں سے بعض کا قبلہ تبدیل ہونا اور جہاد جیسے فریضے میں افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کی مدد اور خود پاکستان کو بچانے کا کارنامہ انجام دینے پر ان کی یہ پشیمانی اور یہ معذرت خواہی حد درجہ افسوسناک ہے۔

ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان ذہنی معذوروں کی طرف سے جماعت اسلامی کا ”نظریاتی“ کانٹا نکال کر اسے محض ایک ”سیاسی“ پارٹی میں تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگی۔

اس پر ان شا اللہ عنقریب ایک تفصیلی پوسٹ لکھوں گا۔
محمد فاروق
یوکے ”“

محمد فاروق صاحب کا کمنٹ بڑا دلچسپ ہے اور جواب کا حق دار ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں فاروق صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اتنی ایمانداری سے ایسا کمنٹ لکھا اور اس بات کا اقرار کیا کہ جماعت اسلامی نے مختلف جہادوں میں نوجوانوں کو بھیجنے کا کام کیا ہے اور آئندہ بھی کرے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اب بھی افغان جہاد پر فخر کرتی ہے۔ اسے ابھی بھی اس بات کا کوئی پچھتاوا نہیں کہ جس جہاد اور فتح پر وہ اتنا اتراتے ہیں اس کے بدلے میں افغانستان برباد ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے افغان جہاد سے پہلے کا افغانستان دیکھیں اور آج کا افغانستان دیکھیں، ان کی کئی نسلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ یہ بہت خطرناک بات ہے کہ جماعت اسلامی افغانستان کی بربادی میں اپنے رول پر شرمندہ ہونے اور پچھتانے کی بجائے فخر کرتی ہے۔

جماعت اسلامی کو علم ہونا چاہیے کہ یہ 1980 نہیں بلکہ 2021 ہے اور اب تاریخ لکھی جا چکی ہے۔ ان کے قابل فخر افغان جہاد ایڈونچر کے ثمرات دنیا کے سامنے ہیں۔ امریکہ اور روس کو اس جہاد کا کیا نقصان ہوا اور پاکستان اور افغانستان کو کیا ملا۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ بات صرف منطقی طور پر سوچنے سے سمجھ آ سکتی ہے اور جماعت اسلامی نے اس سے انکار کیا ہوا ہے۔

فاروق صاحب کے تبصرے سے ایک اور بڑی دلچسپ بات سامنے آتی ہے۔ موصوف جماعت اسلامی کے ممبر ہیں لیکن رہتے برطانیہ میں ہیں۔ یعنی وہ شریعت چاہتے ہیں مگر ہم بے چارے پاکستانیوں اور افغانیوں کے لیے۔ اپنے لیے تو انہوں نے مغربی سیکولر لبرل ڈیموکریسی کا انتخاب ہی کیا ہے۔ وہی معاشرہ جسے وہ اپنی تقریروں میں اسلام کے دشمن، غیرت اور شرم سے عاری اور اخلاقی طور پر دیوالیہ گردانتے ہیں۔

تو میں فاروق صاحب اور ان جیسے تمام سرگرم عمل جماعت اسلامی کے ممبران کو یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان، افغانستان، ایران اور سعودی عرب جیسے اسلامی ممالک کو چھوڑ کر برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ یقیناً اس لیے کیونکہ وہ نظام ہمارے خوابوں میں بسنے والے بندوبست سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments