ایک دفعہ پھر قوم کو چاند پر حکومت مبارک ہو!


اس کرہ ارض پر قریب دو سو ممالک میں صرف ایک ملک ایسا ہے جس کی فرماں روائی چاند تک ہے۔ تسخیر ارض و سما کی ایسی عملی مثال دنیا کے کسی اور ملک کے بس کی بات تھی بھی نہیں۔ آپ حیران نہ ہوں، یہ اعزاز صرف اور صرف وطن عزیز یعنی ارض پاکستان کو حاصل ہے۔ اور یہ خوش نصیبی کوئی اس سال سے نہیں ہے، بلکہ مملکت خدا داد کی تخلیق کے ساتھ ہی چندا ماموں پر حکمرانی پاک سر زمین کو ودیعت کر دی گئی تھی۔ اب خدا کے کاموں میں کیا دخل۔

ہم خوش قسمت شہری ہیں کہ چاند پر بھی حکمرانی ہمارے ووٹوں سے بنی ہماری اپنی حکومت کے پاس ہے۔ ہماری مرضی کے بغیر چاند نکلنے سے کتراتا بھی ہے، شرماتا بھی ہے اور معاف کیجئے گا گھبراتا بھی ہے۔ اب چند شرپسند لوگ اگر یہ کہیں کہ ایسی لازوال حکومت چاند کو غائب کر دینے کی دھمکی کے بعد حاصل کی گئی ہے، تو سب سے پہلے آپ نے ان شر پسند عناصر کی باتوں پر ذرا بھی کان نہیں دھرنا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے گوگل بابا فرماتے ہیں کہ جہاں ریاستوں تک کے مذہب ہوں گے، وہاں چاند کو کان سے پکڑ کر آگے پیچھے کرنا عین اسلامی عمل کہلائے گا۔ آخر اپنی خدا داد قوت کے استعمال اور اظہار کا اس سے بہتر وقت بھلا کون سا ہو سکتا ہے۔ بس حکومت وقت کی رٹ سلامت رہنی چاہیے۔

یاد رہے کہ عید کوئی تہوار نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے مذاہب یا دوسری قوموں کے تہوار ہوتے ہیں، بلکہ یہ ایک مذہبی عبادت ہے۔ پتہ نہیں پھر بھی کیوں رویت ہلال جیسے اہم معاملے کو صرف 1974 کی ایک قرارداد سے چلایا جا رہا ہے۔ یہ قرار دار مولانا کوثر نیازی نے 22 دسمبر 1973 کو اسمبلی میں پیش کی تھی جو کہ 23 جنوری 1974 کو تھوڑی سی ترمیم کے بعد منظور ہوئی۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ اب رویت ہلال اور اس کے اعلان کے حوالے سے پارلیمنٹ میں باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے۔ دنیا کے کسی مسلمان ملک میں چاند دیکھنے کے معاملے میں اتنے تنازعات نہیں ہوتے، جتنے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کروائے جاتے ہیں۔ مجھے ایک دفعہ پھر معاف کیجئے گا کیونکہ ہونے اور کروانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یقین نہ آئے تو ایک رکن رویت ہلال کمیٹی کی سوشل میڈیا پر ویڈیو دیکھ لیجیے۔ بہرحال، اس بار بھی جو ہوا، اس کے ذمہ داروں کا تعین اور ان کی سرکاری طور پر مذمت کرنے کے لیے ہم عن قریب ایک اور کمیٹی کا اعلان کریں گے۔

آج نماز پڑھنے کے اوقات کا تعین کرنے کے لئے کوئی مسلمان بھی سورج کی طرف نہیں دیکھتا۔ سائنسی طور پر بنے کیلنڈر اور سائنس کی ایجاد کردہ گھڑیوں کو دیکھ کر جب روزانہ پانچ وقت کی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں، سحری اور افطاری کی جا سکتی ہے تو صرف عید کا چاند دیکھنے کے مسئلے میں اتنا ہنگامہ برپا کیوں کیا جاتا ہے۔

یہ بات کہ موجودہ دور میں ہر ماہ چاند دیکھنا ضروری ہے یا نہیں یا اگلے پچاس سو سال کے چاند کا کیلنڈر بنانے میں کیا قباحت ہے۔ اس پر جدید علمائے دین و دنیا کی کیا رائے ہے، اس پر سنجیدہ گفتگو ہونی چاہیے۔ اور مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔

آخر کب تک ہم رات کے پچھلے پہر ”چن“ چڑھاتے رہیں گے۔ آخر کب تک حکومتیں لوگوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرتی رہے گی۔ آخر کب تک ہماری عیدیں یونہی تنازعات کا شکار ہوتی رہیں گی۔ آخر کب تک حکمران عید کے دن کو اپنی مرضی سے عوام پر مسلط کرتے رہیں گے۔ ایک مذہبی معاملے کو کب تک سیاسی انا کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا۔ آخر عید کے دن کا اپنی مرضی سے تعین کر کے حکومتیں کون سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ آخر رویت ہلال کمیٹی حکومتی دباؤ سے کب آزاد ہو گی۔ یہ وہ گستاخ اور غدار سوالات ہیں جو ہر ”دیس دروہی“ سوچتا ہے۔

آخر یہ زبردستی کی وحدت ہم پر کیوں مسلط کی جا رہی ہے۔ جب ہماری نمازیں پاکستان کے طلوع و غروب آفتاب کے مطابق ہیں تو چاند بھی یہاں کے مطلع کے لحاظ سے دیکھ کر مہینے کا آغاز یا اختتام ہو گا۔ ہماری عید ہمارے افق کے لحاظ سے ہوگی، کسی اور ملک کے ساتھ ممکن ہی نہیں۔

جب وزیرستان میں حکومت سے پہلے ایک دن عید کے چاند کا اعلان کرنے پر ایف آئی آر ہو سکتی ہے تو پوری قوم کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو کیوں عدالت کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکتا؟

ہم سب امید کرتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی جدید ریاست مدینہ اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کی اپنی پوری کوشش کرے گی۔ آپ نے بس گھبرانا نہیں ہے۔ امید پر صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا قائم ہے۔ بہرحال، ایک دفعہ پھر میٹھی عید پر پھیکا چاند سب کو مبارک ہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments