ما بعد نو آبادیات :حدود، تعارف، اہمیت


جب سے دنیا بنی ہے زمین پر انسان کبھی حاکم بنتا ہے تو کبھی محکوم۔ انسان کا ایک دوسرے پر غلبہ پانا اس کی اولین ترجیحات میں سے ہے یعنی غلبہ پانے کی تا ریخ نہایت قدیم ہے۔ ابتدا ء میں جب انسان غار میں رہتا تھا تو اس دور میں بھی طاقت ور قبیلے نے ہمیشہ کمزور بنا کر اپنے زیر اثر رکھا۔ اپنی طاقت کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ اس نے کمزور کی حق تلفی کی، اس کی آواز کو دبا کر رکھا۔ طاقتور طبقہ نے نہ صرف کمزور کے وسائل پر قبضہ کیا بلکہ ان کی جانیں تک ضائع کرتا رہا۔ ان کی جائیداد پر قبضہ کر نے کے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر تا اور کمزور دب کر رہ جاتا۔

”کوئی معاشرہ یا انسانی تاریخ کا کوئی عہد کش مکش، غلبہ پسندی اور چھینا جھپٹی کی معروف اور غیر معروف صورتوں سے خالی نہیں رہا ہے۔ ( 1 )

اور طاقتور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے تحت حکومت کر تا نظر آتا۔ خدا تعالی نے اس کائنات کو ہزار ہا نعمتوں سے نوازا ہے زمین کے اندر اپنے بیش قیمتی خزانے پیدا کیے اور اس کو نکالنے کی سعی انسان پر چھوڑ دی۔ اس طرح اس زمین کے ہر حصے میں مختلف قسم کی معدنیات با نٹ دی۔ انسان جو ازل سے آگے بڑھنے کی سعی کر تا چلا آ رہا ہے، ان خزانوں کی تلاش کے لیے نکل پڑا اور زمین کو کھودتا گیا۔ کائنات کا ہر خطہ چونکہ مختلف قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

یہ وسائل کسی خطہ میں کم ہیں اور کسی خطہ میں زیادہ ہیں۔ اس طرح جب اس خطہ میں رہنے والے لوگوں نے ان وسائل کا استعمال کر نا شروع کیا اور آبا دی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ وسائل کم ہوتے گئے تو اس خطے یا ملک کی قوم نے ان سے خطوں ہجرت کی اور پھر جہاں ان کا بس چلا انہوں نے لوٹ مار اور ظلم و ستم شروع کر دیا۔

وسائل کو حاصل کر نے کے لیے طاقتور قوم نے مختلف حکمت عملی استعمال کی اور اپنی طاقت کی دھاک بٹھا دی۔ جب بھی یہ قوم کسی جگہ یا خطہ میں جاتی تو وہاں پر جا کر نئی آبادیاں بنا لیتی اور اپنے اصول و ضوابط قائم کر لیتی۔ ان نئے بسنے والوں کے لیے آباد کار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور ان کی بنائی گئیں آبادیوں کو نو آبا دیاں کہتے ہیں۔ انگریزی میں نو آبادی کے لیے ”کا لونی“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے۔

Colonialism word comes from the Roman ’Colonia‘ which meant farm or settlement and referred to Romans who settled in other lands but still retained their citizenship۔ ( 2 )

اردو میں بھی لفظ کا لو نی ہی استعمال کیا جا تا ہے جس کا مطلب نئی آبادی بنا نا ہے۔ ان آبادیوں کے بنانے والوں کے بارے ہر طرح کا علم نو آبادیات کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں طاقتور ہمیشہ کمزور کو یرغمال بنا کر رکھتا ہے اور ان کے وسائل پر قبضہ کر نے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر تا ہے۔ اس کے لیے وہ قبیلوں کی شکل میں رہتا ہے اور اپنی اس طاقت کو بڑھاتا رہتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام میں عام طور دو اہم کردار ہوتے ہیں ایک مقامی لوگ اور دوسرے نئے آنے والے یعنی آباد کار۔

مقامی لوگوں سے مراد کسی بھی خطہ میں رہنے والے رہائش پذیر لوگ ہیں۔ ان دونوں کرداروں کا آپس میں ایک تعلق ہوتا ہے اور اسی تعلق کی بنا پر ہی اجارہ داری قائم ہوتی ہے اور ایک خطے کا استحصال ہو تا ہے۔ کیو نکہ حکومت کرنے، حق چھیننے اور اپنی طاقت کا سکہ منوانے کے لیے ایک دوسرے وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔ نو آبادیات جو ایک بہت اہم موضوع ہے اور جس پر جتنی بحث کی جائے کم ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل بات سامنے آتی ہے۔

”انسان نے قدیم غیر طبقاتی نظام سے نکل کر خاندان، جائیداد اور ریاست کی تکون میں قدم رکھا تو وہ اعلی اور ادنی طبقات میں تقسیم ہو کر استحصال کا شکار ہو نے لگا وہاں اس نے دیگر انسانی گروہ پر قبضوں اور فتوحات سے ابتدائی نو آبادیات کا آغاز کیا۔ ( 3 )

نو آبادیاتی عہد میں آباد کار محکوم قوموں کی شناخت ختم کرنے اور ان کے شخصی تشخص کو پا مال کر نے کے لیے ایسے طریقے اور ذرائع استعمال کر تا ہے کہ ایک عام فہم و فراست والا انسان یہ سمجھنے سے قا صر ہو تا ہے کہ آیا یہ طریقے اس کی بھلائی کے لیے لاگو کیے جا رہے ہیں، یا اس میں آباد کار کا اپنا مفاد و بھلائی شامل ہے۔ اور پھر آباد کار اس مقامی آبادی کے لوگوں کو جانور کی طرح اپنی لاٹھی (حکمت عملی اور چا لوں ) سے ہانکتا چلا جاتا ہے اور آباد زدہ بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ان کے حکم پر چرتے پھرتے نظر آتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کام بس چارے سے ہے۔ اس حوالے سے ناصر عباس نیر کچھ اس طرح کہتے ہیں کہ۔

”نو آبادیاتی عہد میں محکوم ملکوں کی تاریخ کو مسخ کر نے کے لیے آئیڈیا لوجیکل طریقے اختیار کیے گئے، مگر ان کا اثر وہی ہوا جو نفسی تشدد کے نتیجے میں کسی شخص کے حافظے پر ہو تا ہے اور وہ واقعات کو الگ الگ دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔“ ( 4 )

نو آبادیاتی فضا قدرتی نہیں ہے بلکہ اس کو پیدا کیا جاتا ہے۔ اس عہد، فضا، آب و ہوا کو بنا نے میں ایک دن یا ایک مہینہ نہیں لگتا بلکہ اس کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔ مختلف پالیسیاں اور حکمت عملیاں بنائی جاتی ہیں یہ ایک سو چا سمجھا اور طے شدہ منصوبہ ہوتا ہے۔ پھر ان پالیسیوں کو اپنے سے کم طاقتور لوگوں پر لاگو کیا جاتا ہے۔ ان اصولوں کو لا گوں کر نے کے لیے آباد کار کو کچھ معاون لوگوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور یہ معاون لوگ ان کے اپنے دل چاہے اور من پسند ہوتے ہیں۔

”نو آبادیادتی صورت حال، فطری اور منطقی صورت حال نہیں ہے۔ اسے پیدا کیا جاتا اور تشکیل دیا جاتا ہے اس لیے مخصوص مقاصد کو سامنے رکھا جاتا ہے“ ۔ ( 5 )

برصغیر (ہندوستان ) جس کو خدا نے لا تعداد قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ ابتداء سے ہی مختلف خطوں اور قوموں کے باشندوں کی اس زرخیز خطے پر نظر رہی ہے اور انہوں نے اس خطے کو اپنے اپنے انداز سے لوٹا ہے اور اس پر اپنی طرز حکومت قائم کی ہے۔ اس حسین ملک پر کبھی عربوں نے اجارہ داری قائم کی تو کبھی ترکیوں نے، کبھی ایرانیوں نے اس لوٹا تو کبھی یو نا نیوں نے، الغرض جس قوم کا دل چا ہا، اس نے من ما نی کی اور اصول و ضوابط کو نافذ کرتے چلے گئے۔

نو آباد کار آتے تو تجارت کی غرض سے تھے لیکن یہاں پر ان ایک ہی مقصد تھا اور خام مال کو اپنے خطوں تک پہنچا نا اور اس کے بدلے چند سرمایہ مقامی لوگوں کے سپرد کر دینا۔ مختلف قوموں کی طرح برطانوی حکومت نے بھی اس زرخیز خطے پر راج کیا اور اس راج کے لیے انہیں کئی سال جدوجہد کر نا پڑی اور بالآخر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئے

کبھی تورانیوں نے گھر لوٹا
کبھی درانیوں نے زر لوٹا
کبھی نادر نے قتل عام کیا
کبھی محمود نے غلام کیا
سب سے آخر کو لے گئی بازی
اک شائستہ قوم مغرب کی۔ ( 6 )

اور ایک وقت ایسا آیا جب انہوں نے پورے بر صغیر پر ڈیرے جما لیے اور نہ صرف خام مال حاصل کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کی شناخت کو بھی مسخ کر دیا۔ یہ 1857 ء کا وقت ہے جب انہوں نے ہندوستان پر مکمل قبضہ کر لیا اور اپنے اصول و قوانین کے مطابق حکومت کرنا شروع کر دی۔ سب سے پہلے مقامی آبادی کا اعتبار حاصل کر نے کے لیے انہوں نے تجارت کے لیے ایک کمپنی کو قائم کیا اور پھر آہستہ آہستہ وہ پورے ملک پر حاوی ہوتے گئے۔

انگریز نے اپنی سازشوں سے خانہ جنگی کا آغاز کروایا اور ہندوستان کے بڑے بڑے عظیم اور بہادر لوگوں کو جان کی بازی ہارنا پڑی۔ نو آباد کاروں نے اپنی حکومت کو بہتر طریقے سے چلانے کے لیے سب سے پہلے ہندوستان کی زبانوں پر عبور حاصل کیا اور اس کے بعد مقامی لوگوں کی ثقافت کو سمجھنے کے لیے ان کی کتابوں کے تراجم کروائے اور ان کا بغور مطالعہ کیا۔ کسی ملک کی ثقافت کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو تا ہے کہ اس ملک کی اساس اور پہچان اس کی ثقافت پر مبنی ہوتی ہے۔

”اٹھارہویں صدی سے دوسرے نصف تک ہندوستان میں کمپنی نے قدم جما لیے تھے اہم سیاسی اور تجارتی کامیابیوں کے بعد اپنی اس خواہش کے لیے کوشاں ہوئی جسے ثقافتی غلبے کی کہنا چاہیے۔“ ( 7 )

زبانوں پر عبور حاصل کرنے اور اپنے علم کو اعلی ثابت کر نے کے لیے انہوں نے فورٹ ولیم کالج بنایا۔ یہ کالج بھی ان کی سیاسی اور چالوں میں سے ایک چال تھی ان کا مقصد صرف ہندوستان کی سیا ست اور تعلیم کو ٹھیس پہنچانا تھا۔ ہندوستانیوں نے اس کالج کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھا اور اس کے پس منظر میں چھپا انگریز کا مکروہ چہرہ نہ دیکھ سکے۔ لیکن ایک طرح سے یہ کالج عوام کے لیے فائدہ مند بھی ثابت ہوا کیونکہ اس میں ان کو اس علوم سے آگہی ملی جس سے وہ پہلے نا واقف تھے۔ اور یہ کالج اردو زبان اور اس کی تر ویج کے لیے بھی کافی سود مند ثابت ہوا۔ کیونکہ بہت سی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا

” فورٹ ولیم کالج کے قیام کے محرکات سیاسی تھے۔ لیکن اس کے ثمرات نے بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر ادب کو بھی متاثر کیا۔ اور اردو نثر کی ایک موثر تحریک کو جنم دے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کا مؤرخ فورٹ ولیم کالج کو ہمیشہ تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے“ ۔ ( 8 )

انگریز کا کام عوام کی نگہداشت نہ تھا بلکہ ان کہ کام اس خطے میں زندگی کے ہر پہلو مذہبی، سیاسی، سماجی، اقتصادی اور تعلیمی میدان وغیرہ کا استحصال کر نا تھا۔ اس سب کے لیے انہوں نے مرکز ثقافت کو رکھا اور اپنی حکمت عملیوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا اور متنفر کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی رسوم و رواج کو بھی پامال کیا۔

Many colonial rulers forced their way of life on the people of their colonies. They did so partly, because they considered the culture of the colonial people inferior to their own. Many rulers tried to convert the colonial people to their own religion. They also made their own language, the official of the colonies. In many case, colonial rulers tried to replace the native culture with their culture. (9)

برطانوی حکومت نے علم اور طاقت (فوج ) کی بنا پر نہ صرف ہندوستان میں بلکہ اور بھی مختلف ملکوں پر استعماریت قائم کی اور ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے۔ ان ممالک میں امریکہ، آسٹریا، برما، مشرقی و مغربی افریقہ، ساؤتھ افریقہ، مصر، ویسٹ انڈیز، ایسٹ ایشیاء اور نیوزی لینڈز وغیرہ شا مل ہیں۔ برطانوی حکومت نے افواج کی مدد سے ان ممالک پر چڑھائی کی اور ان پر قبضہ جماتے ہوئے اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ کئی سالوں تک برطانوی حکومت نے ہندوستان پر قبضہ جمائے لیکن مکمل طور پر اقتدار 1857 ء کی جنگ کے بعد ان کے ہاتھ میں آ گیا۔ پھر یہ وسیع سلطنت انگریز کے ہاتھ میں آ گئی۔ اور سامراج نے برصغیر پر مکمل قبضہ کر لیا۔ یوں سامراجیت کا شکار ہونے کے بعد ہندوستان اپنی اصل (ثقافت، سیاست، تعلیم اور مذہب وغیرہ ) گم کر بیٹھا۔ یوں ہندوستان پر سامراج کی حکومت 1947 ء تک قائم رہی اور اس کے بعد ان کو یہ ملک چھوڑ کر جا نا پڑا۔

سامراج تو چلا گیا لیکن اپنے پیدا کردہ اصول و قوانین کو ہندوستانیوں کے گلے کا طوق بنا گیا، جس سے آج تک مقامی باشندے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ اور ابھی تک نو آباد کاروں کے بنائے گئے غلامی کے کانٹوں پر چل رہے ہیں۔ اس دور کو مابعد نو آبادیات کہتے ہے۔ یعنی 1947 ء کے بعد کا وہ دور جب ہندوستانیوں نے بظاہر تو آزادی حاصل کر لی، لیکن ذہنی طور پر وہ محکوم ہی رہے اور آج بھی محکوم قوم ہی سمجھے جاتے ہیں۔ مابعد نوآبادیات ایک ایسا تاریخی عمل ہے جو نوآبادیاتی سیاسی اور ثقافتی غلبے کے ردعمل میں سامنے آیا۔ اور اسی طرح یونگ کے مطابق ؛۔

” مابعد نو آبادیات تب تک موجود رہے گی جب تک معاشرے میں نا انصافی اور جواب دہی کے خوف سے آزاد طاقت کے رشتے موجود ہیں“ ۔

Post colonialism claims the rights of the people on this earth to the same material and cultural well beings. (10)

نو آبادیاتی نظام چونکہ ایک معاشرہ کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور علمی استحصال کی ایک صورت ہے اور اس استحصال میں بنیادی طور پر ثقافت اور علم کو مرکزیت حاصل ہے۔ آباد کاروں کو اپنے مفاد کے لیے اور اپنے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے مقامی باشندوں کے ذہن اور نفسیات کو بھی تسخیر کرنا ہوتا ہے۔ اپنی ثقافت، تہذیب اور علم کا بیانیہ وہ آباد زدہ قوم کے سامنے رکھتا ہے اور ان کو احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔ ہندوستان میں بھی آباد کاروں نے اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ قوم کے طور پر پیش کیا اور ان کو غیر مہذب اور جنگلی کہا۔ سر سید احمد خان نے اپنے مضمون ”نئی تہذیب“ میں اس جانب کچھ اس طرح اشارہ کیا ہے کہ۔

” (یورپین) کہتے ہیں کہ ہندوستانی بندر کے موافق ہیں جو چوتڑوں کے بل زمین پر بیٹھتے ہیں۔ بندر کے موفق کھانے میں ہاتھ سان کر کھانا کھاتے ہیں۔ کوئی تہذیب ان کی معاشرت میں نہیں ہیں ہے۔ وحشیوں سے کسی قدر بہتر ان کا لباس ہے۔ گو قطع اس کے مشابہ ہے جو جنگلی وحشی نا مہذب قومیں اب تک پہنتی ہیں۔“ ( 11 )

برطانوی حکومت نے نو آبادیاتی ممالک میں نہ صرف علوم کے میدان میں اپنی دھاک بٹھائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس نے سیاسی غلبہ بھی حاصل کر لیا۔ کوئی بھی قوم جب کسی ملک میں جاتی ہے تو اس کو وہاں پر اپنے مددگار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مددگار لوگ ان کے اپنے (آباد کار) نہیں بلکہ مقامی ہوتے ہیں جو اپنی ہی قوم ( آباد زدہ ) سے غداری کرتے ہوئے سامراج سے کچھ معاوضے کے تحت وفاداری کرتے ہیں۔ نو آبادیاتی نظام کے بعد ، ما بعد نو آبادیاتی تجزیہ کا مرکز کولونیل ازم ہے۔ کولونیل ازم کیا ہے؟ اور اس کا مابعد نوآبادیاتی نظام سے کیا تعلق ہے؟ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ کون سا نظام حکومت ٹھیک اور کون سا غلط ہے؟ ان سب سوالات کا جواب نوآبادیات میں ملتا ہے۔ ناصر عباس نیر کے مطابق۔

”کولونیل ازم ایک نیا ڈرامہ تھا، جس کا اسکرپٹ یورپ نے لکھا اور جسے کھیلنے کے لیے ایشیا و افریقہ کی سر زمین کو منتخب کیا۔ ڈرامے کے مرکزی کردار یورپی تھے، تاہم کچھ معاون اور ضمنی کردار ایشیائی او افریقی تھے۔“ ( 12 )

نو آبادیات کے ساتھ ایک اور لفظ امپیریل ازم بھی استعمال ہوتا ہے۔ امپیریل ازم اور کولونیل ازم دونوں میں ایک تاریخی رشتہ ہے لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ امپیریل ازم جس کا مقصد صرف سیاسی اطاعت کا ہی خواہش مند ہونا ہے اس اطاعت میں وہ کسی کی ثقافت کو مسخ نہیں کرتا، نہ ہی ظلم، جبر اور تشدد سے کام لیتا ہے اس کا اہم مقصد صرف سیاسی غلبہ پاتے ہوئے اپنے محدود خطے (سر زمین) کو مزید وسیع کر کے اپنی برتری کا پرچم لہرانا ہے۔ نوآبادیاتی نظام (کولونیل ازم ) اس کے بر عکس ہے، اس کہ مقصد نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کرنا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے ظلم و جبر اور تشدد سے مقامی لوگوں کی ثقافت کو مکمل طور پر مسخ کر دیتا ہے۔ ایڈ ورڈ سعید کے مطابق۔

Imperialism means the practice، the theory، and the attitudes of a dominating metropolitan centre ruling a distant territory ’colonialism‘ which is almost always a consequence of imperialism، is implanting of settlements on distant territory۔ ( 13 )

آباد کاروں نے اپنی حکمت عملی کے تحت ہندوستان کے باشندوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر ٹھیس پہنچائی۔ ہندوستان میں اس وقت مغلوں کی سلطنت تھی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ انگریز نے اس زبان کو غیر ترقی یافتہ اور غیر مہذب قرار دے کر انگریزی زبان کو ترقی یافتہ قرار دیا اور اس کو بطور سرکاری زبان لاگو کیا۔ یہ آباد زدہ لوگوں پر پہلا ثقافتی وار تھا، کیونکہ کسی معاشرہ کی زبان ہی اس کی اساس اور اکائی ہوتی ہے۔ زبان کی بنا پر ہی کسی علم کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور وہ علم قابل قبول ہوتا ہے۔

اسی طرح جب ایک زبان کو ہی ختم کر دیا جائے تو اس زبان سے منسلک تمام علوم خود بخود ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح آباد کاروں نے محکوم قوموں پر اپنی زبان لاگو کی اور اس کے ساتھ اپنے تعلیمی نظام کو بھی نافذ کیا، یہ سب انہوں نے اپنے نوآبادیاتی مقاصد کو پورا کرنے اور اس ملک کو مکمل طور پر اپنے قبضہ میں لینے کے لیے کیا۔

برطانوی راج سے باقی نوآباد زدہ لوگوں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی آزاد کر لیا، لیکن ہندوستان (پاک و ہند ) اپنے آپ کو 47 ء میں آزاد کروانے کے بعد بھی محکوم ہی رہے اور آج تک اسی محکومی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور یہی دور مابعد نوآبادیات کہلاتا ہے۔ چونکہ ہندوستان میں انگریز نے بہت عرصے ( 1757 ء سے 1857 ء) تک جنگیں لڑی اور جس میں ہزاروں معصوم افراد کو قتل اور قید کیا گیا۔

اس سب دورانیہ میں انہوں نے طاقت کا استعمال کیا اور یہ طاقت بارود کی نہیں بلکہ حکمت عملی کی طاقت تھی۔ حکمت عملی کی اسی طاقت کی بدولت چند ہزار برطانوی سول ملازمین نے ہندوستان کی 30 کروڑ آبادی کو اپنے اشاروں پر نچا کے رکھ دیا۔ انگریز نے اپنی زبان، تعلیم اور ان حکمت عملیوں کی بدولت ہی اس وسیع سلطنت (برصغیر ) کا انتظامی ڈھانچہ اپنے ہاتھوں سے تشکیل دیا اور تسلط میں پوری طرح کامیاب ہو گئے۔ یہ سب انگریز کی چال اور ان کی پالیسی تھی جو ہمیشہ عوام سے مخفی رہی۔ اس حقیقت کی ایک کلاسیک مثال برطانوی مقالہ نگار اور ہندوستانی سپریم کونسل کے ممبر قانون لارڈ میکالے کی تعلیمی رپورٹ کا یہ حصہ ہے جس کا حوالہ اکثر دیا گیا ہے۔

”فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین، جن پر ہم حکومت کر رہے ہیں، ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز۔“ ( 14 )

نوآبادیات اصل میں اجارہ داری، ظلم و ستم اور جبر کا نام ہے اور ما بعد نو آبادیاتی مطالعہ میں آباد کار کے ظلم و ستم، اجارہ داری اور جبر کی پیدا کردہ تدبیروں کو اور ان سے پیدا کردہ نتائج کا پردہ چاک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آباد کار نے اپنے سیاسی اور انتظامی امور خاص میں مقامی باشندوں کو اہمیت دینا بہتر نہ سمجھا اور اعلی عہدوں پر ملازمت کے لیے کڑی سے کڑی شرائط کو نافذ کیا۔ انگریزی کو بطور سرکاری زبان نافذ کیا۔ اور سرکاری نوکری کے لیے انگریزی زبان کو ہی لازم قرار دیا۔ ان اصول و قوانین کے لاگو ہونے کے بعد انگریز حاکم اور ہندستانی غلام بن گیا۔

یوں اقتدار اور ایک وسیع سلطنت کی باگ سامراج کے ہاتھ میں آ گئی اور اس میں انگریز کا کام آقا بن کر حکم دینا تھا اور مقامی لوگوں کا کام ایک بے نام جانور کی طرح، عزت نفس سے محروم ہو کر اپنے آقا کے حکم کی پیروی کرنا تھا۔ بر صغیر میں انگریز نے حکومت کرتے وقت مقامی حکمرانوں کو برقرار رکھا اور عوام کی نظر میں ان کی ہی حکومت کو سلام کیا لیکن یہ حکمران ان کے لیے ایک آلہ تھے جن کو آباد کار اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ یعنی مقامی حکمران ان کے لیے ایک مہرہ اور تاش کے پتوں کی مانند تھے جن کو وہ جب چاہتے اٹھا لیتے اور جب چاہتے پھینک دیتے۔

برطانوی حکومت جو علم اور اپنے معاشی نظام کی وجہ سے مہذب اور ترقی یافتہ قوم تھی اسی طاقت کی بنا وہ تقریباً دنیا کے ایک چوتھائی حصہ پر قابض رہی۔ اس نے نہ صرف انسانوں بلکہ زمین پر بھی اپنا جبری تسلط قائم رکھا اور خام مال کے ساتھ ساتھ استعمار زدہ لوگوں کو بھی غلام بنا کر ساتھ لے گئے۔ برطانوی سامراج کے پاس ہندوستان کی سر زمین کو نوآبادیات بنانے کی بہت سی وجوہات تھیں مثلا، زمین کی زرخیزی، معدنیات اور خام مال کی فراوانی، سمندری رستوں کی دستیابی، حکمرانوں کی آپس میں ناچاقی، ایک ہی ملک میں دو بڑے مذہب، غیر تربیت یافتہ فوج اور کثیر تعداد میں ان پڑھ عوام وغیرہ۔

یہ تمام ایسی وجوہات تھی کہ جن کی بدولت برطانیہ نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے۔ برطانوی حکومت ہندوستان کے حکمرانوں کے شب و روز سے واقف تھی اور اس بات سے خوب آگاہی رکھتی تھی کہ وزراء اور امراء کو ان (آباد کاروں ) کی سر گرمیوں سے کوئی سرو کار نہیں۔ ہندوستانی سلاطین اپنی آرائش و زیبائش میں مگن رہے اور اس بات سے بے خبر رہے کہ ان کی عیاشی کے دن ختم ہونے والے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے تن تنہا کیسے اس وسیع و عریض سلطنت پر اپنے قدم جما لیے اور اپنا انتظامی اور سیاسی نظام نافذ کیا؟ یہ ایک سیدھا سادا اور آسان سوال ہے، کیونکہ برطانوی حکومت نہ تو خلائی مخلوق تھی اور نہ ماورائی، بلکہ یہ ہم (ہندوستانیوں ) لوگوں کی طرح دو ٹانگوں اور بازوؤں والے انسان تھے فرق صرف اتنا تھا، کہ ان کی چمڑی سفید تھی اور اس کے پیچھے و مکروہ سیاہ چہرہ اور شاطر کھوپڑی۔

ایک اجنبی جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اس کو اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے کچھ معاون کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے، یا اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ایک چور ( آباد کار) ایک گھر میں (ہندوستان ) چوری کرنا چاہتا ہے اور وہ ( آباد کار) اس بات سے بے خبر ہے کہ اس گھر کے لوگ کیسے ہیں؟ کیا وہ اپنی حفاظت کرنا جانتے ہیں؟ اس گھر کا سربراہ (حکمران) کیسا ہے؟ کن کن جگہوں پر مال کو برآمد کیا جاسکتا ہے؟ وغیرہ۔ تو ان تمام سوالوں کے جواب وہ ہی دے سکتا ہے جو اس گھر کا رہنے والا ہو، یعنی (گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ) ، اور پھریا تو وہ اپنے گھر والوں سے متنفر ہو، یا چور سے آدھا حصہ لینے پر گھر کے بارے معلومات فراہم کر دے، یا پھر عقل و شعور سے ہی بیگانہ ہو اور اسے فائدہ اور نقصان سے کوئی سروکار نہ ہو۔

کچھ ایسا ہی ہندوستان کی سرزمین کے ساتھ ہوا جس میں ہندوستان کے مقامی لوگ انگریز کے ساتھ مل گئے اور اس طرح ملک کی طاقت میں کمی آ گئی ان معاون کرداروں کو انگریز کی طرف سے جائیداد ملی۔ یوں وہ اپنے ملک کے لیے غدار اور انگریز کے لیے وفادار ثابت ہوئے۔ ان معاون کرداروں میں بہت سے ایسے افراد تھے جنہوں نے انگریزی طرز حکومت کو بہتر قرار دیا۔ نوآباد کاروں نے ایسی پالیسیاں بنائی جو بظاہر دنیا کے لیے تو ایک ترقی، نیکی، خیر اور بھلائی کا رستہ تھی لیکن عوام ان کے باطن سے بے خبر تھی کیونکہ وہ جس موڑ کو اپنے لیے ترقی سمجھ رہے تھے وہ ہی ان کے لیے باعث تنزلی تھی۔ اور یہ تنزلی بعد میں ان کے لیے ابدی بن گئی جس سے وہ آج تک نہیں نکل سکے۔ یہ سب انہوں نے علم کی بدولت کیا۔ اس علم کو انہوں نے بطور طاقت اور ہتھیار استعمال کیا۔ جیسے۔

”خیال تو کرو، 35 کروڑ انسان اور ایک لاکھ سے بھی کم انگریز ان پر مزے سے حکومت کرتے ہیں۔ اور حکومت بھی کیسی حکومت! ہندوستان میں ذلیل سے ذلیل انگریز کا رتبہ بڑے سے بڑے ہندوستانی سے بڑھ کر ہے۔ یہاں انگلستان میں چاہے انگریز مرد ہمارے جوتے صاف کرے اور انگریز لڑکیاں ہم سے محبت کرے مگر سوئیز کے اس پار تو ہم سب“ کالا لوگ ”نیٹوز“ غلاموں سے بدتر سمجھے جاتے ہیں۔ ”( 15 )

علم وہی ہے جس سے مخلوق خدا کو فائدہ اور آسانی میسر ہو، لیکن آباد کاروں نے اس بات سے انحراف کر کے علوم کو مادی اور افادی سطح پر استعمال کیا۔ اس علم کی تقسیم بھی انہوں نے اپنے من چاہے لوگوں میں کی لیکن ذہین سے ذہین ہندوستانی کو بھی کمتر عہدہ دیا اور انگریز کو اعلی سے اعلی رتبوں پر فائز کیا گویا علم کا بطور طاقت استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے کالوں کو غلامی کے دلدل میں پھنسا دیا اور اس دلدل سے آج تک کالے (ہندوستانی ) نہیں نکل سکے۔ کسی معاشرہ کی پہچان، اس کی زبان اور اس کی ثقافت سے کی جاتی ہے اور ثقافت ہی وہ اہم عنصر ہے جس کو مسخ کرتے ہوئے انگریز نے اپنی ثقافت کی نشوونما کی۔

مقامی لوگ (آباد زدہ) چو نکہ انگریزوں کے لیے ایک پہیلی کی مانند تھے اور اس پہیلی پر گرفت حاصل کرنا ان کے لیے بہت ضروری تھا۔ یہ پہیلی ان کی ثقافت ہی تو تھی جس کا انگریز نے گہرائی سے مطالعہ کیا۔ اس خطے کی معاشرت، علم، سیاست، تاریخ، مذہبی عقائد و رسومات، جغرافیہ غرض زندگی کی ہر اکائی کے بارے میں خوب جانچ پڑتال کی۔ اور پھر اس کے متبادل اپنی ثقافت کو پیش کیا۔ چونکہ انگریز کے آنے سے پہلے ہندو اور مسلمان دونوں میں مذہبی ہم آہنگی تھی۔

وہ دونوں مذہب، رنگ، نسل، زبان اور اپنے اپنے لباس سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ انسانی برادری کے طور پر رہ رہے تھے لیکن انگریز نے اس ثقافتی اتحاد کو نشانہ بنایا اور دونوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوا کہ دونوں الگ الگ قومیں ہیں اور الگ الگ ثقافتی پہچان رکھتی ہے۔ کسی بھی قوم کی ثقافت کو سمجھنے کے لیے اس کی زبان پر عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

آباد کاروں نے بھی اس ثقافتی رکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے ہندوستانیوں کی کلاسیکی اور ورنیکلر زبانیں سیکھی۔ ان پر تحقیق کی اور قواعد و لغات مرتب کیے۔ اور اس طرح زبان کی طاقت کو اپنے استعمال میں لائے۔ سامراج کا طاقت کو ہی حاصل نہیں کرنا تھا بلکہ وہ اس طاقت پر مکمل اجارہ داری چاہتے تھے۔ انگریز کو زبان سیکھنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی 1615 ء میں طامس رو تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا اور جہاں گیر کے دربار میں پیش ہوا۔

تب جلد ہی اسے اس بات کا احساس ہوا کہ اس کی زبان اس مقصد کے لیے ناکافی ہے۔ دربار کی زبان فارسی تھی، اور طامس رو فارسی نہیں جانتا تھا۔ لہذا اس نے اس مرحلے کو بھانپ لیا کہ آئندہ کی حکمت عملی یعنی فارسی زبان پر عبور کیے بغیر نوآبادیاتی منصوبہ چوپٹ ہو سکتا ہے اور ہندوستان ان کے لیے اجنبی اور ناقابل تسخیر ہی رہے گا۔ لہذا طامس رو کو جب یہ مسئلہ ٔ در پیش آیا تو اس نے کمپنی کو ایک خط لکھا کہ۔

”ایک اور سخت تکلیف مجھے سہنی پڑی وہ ترجمان کی کمی تھی، کیو نکہ دلال وہی کچھ کہیں گے جو انھیں پسند ہو گا، بلکہ وہ بادشاہ کے خطوط میں تر میم کر دیں گے۔“ ( 16 )

زبان جو معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے اور ایک علامتی نظام ہے۔ آباد کاروں کے لیے زبان ایک بہت بڑی ثقافتی رکاوٹ تھی لہذا انہوں نے اس رکاوٹ کو ختم کر نے کے لیے زبان پر عبور حاصل کیا۔ اسی طرح ثقافت کی مزید رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے انہوں نے کچھ مقامی لوگوں کو بچولیا بنا لیا اور انہیں عارضی طور دلال، پنڈت، اور وکیل جیسے خطابات سے نوازا تاکہ وہ ان کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت سے سامراج کو مکمل طور پر آگاہ کرے۔

اس طرح کچھ مقامی لوگوں کی مدد اور کچھ اپنی مدد کے تحت انہوں نے یہ ثقافتی عبور کی اور اس طاقت کی بنا پر ہی انہوں نے ہندوستانیوں کے دماغوں اور نفسیات تک رسائی حاصل کی۔ اور ان کی تہذیب تک پہنچنے کے لیے ہندوستانی زبانوں کے انگریزی تراجم کروائے۔ گل کرسٹ ایک اہم نام ہے جس نے ترجمہ کاری کے لیے اپنی خدمات پیش کی۔ ترجمہ کاری کی وضاحت وہ کچھ اس طرح کرتا ہے کہ

”میں نے ہر پیراگراف کا احتیاط سے جائزہ لیا، جانچا، اور اسے درست کیا، یہاں تک کہ ہم (گل کرسٹ اور ہندوستانی ومنشی ) نے وہ اصل ترجمہ حاصل کر لینے پر دو طرفہ اطمینان و محسوس کیا، جس کی اصل متن سے مطابقت اب ایک نئی آزمائش سے مشروط ہے۔ میں اس ترجمے کو لفظ بہ لفظ انگریزی میں ہندوستانی متن اصل ترتیب کے ساتھ پھر منتقل کر تا ہوں اور اگر تقسیم بذریعہ ضرب کے ثبوت کی طرح، یہ ترجمہ آزمائش پر پورا اترتا ہے تو میں مطمئن ہوں اور مجھے اسے اصل دستاویز کے کامل حقیقی عکس کے طور پر پیش کرنے میں عذر نہیں۔“ ( 17 )

زبان ہی آباد کاروں کے لیے ایک رکاوٹ تھی جس پر انہوں نے عبور حاصل کیا اور پھر اس زبان کو ترقی کے لیے ناکافی قرار دے دیا، اور انگریزی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا اور سرکاری نوکری اس لیے اس کو لازم قرار دے دیا اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ ہندوستانی قوم جو کہ ایک غیر تہذیب یافتہ اور جنگلی قوم ہے اس کو مہذب بنانے کے لیے انگریزی ہی ایک ایسی زبان ہے جو تہذیب کے دائرے میں آتی ہے۔ اس زبان کے لاگو کرنے کے بعد انہوں نے ہندوستان کے نظام تعلیم کو ناقص قرار دیا اور بہت سے تعلیم یافتہ لوگ انگریزی کی بدولت ان پڑھ ہو گئے۔ اور پھر یہ انگریزی تعلیم بھی صرف کلرک اور ماتحت ملازم ہی پیدا کر سکی۔ اور اعلی عہدوں پر انگریز ہی فائز رہا۔

زبان کا بدل جانا بھی ایک سماجی اجارہ داری ہے اور یہ ہی ایک قوم پر سب سے زیادہ نفسی تشدد ہوتا ہے جب اس کی زبان کو بدل کر اس کو ان پڑھ قرار دے دیا جائے اور یہ استحصال کی سب سے بڑی شکل ہے۔ اس سے مقامی لوگوں کی ثقافتی شناخت اور ان کا ماضی حتم ہو جاتا ہے۔ پہلے سے موجود علم ناقص اور ضائع ہو جاتا ہے۔ یوں ایک معاشرہ کو شدید ذہنی دھچکہ لگتا ہے اور وہ نفسیاتی طور پر بیمار ہو جا تا ہے۔ اس طرح اس کی قومی شناخت بھی و محرومی اور پسپائی کا شکار ہو جاتی ہے۔

مابعد نوآبادیات کے اثرات کا ایک تنقیدی جائزہ :۔

نوآبادیاتی نظام حکومت نے محکوم لوگوں کو ذہنی غلام بنا دیا۔ ان کی ثقافت، مذہب، اور ان کی تعلیم پر وار کر کے ان سے سو چنے، سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر لیا۔ جائیداد کی ایسی غیر منصفانہ تقسیم کی کہ اس کے آج بھی اثرات نظر آتے ہیں۔ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ برانڈز اور ورائٹی کے پیچھے عوام بھاگ رہی ہے اور اپنی احساس کمتری کو اس انداز سے ختم کرنا چاہتی ہے۔ مادیت پرستی کا دور دورہ ہے۔ رشتوں سے زیادہ پیسہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور یہ سب نوآبادیاتی نظام کا ہی کیا دھرا ہے۔ آج انگریزی تعلیم کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام پر ہی آج کا جاگیردار عمل کر رہا ہے اور اپنے ملازموں سے وہ ہی ناروا سلوک کرتا ہے جو انگریز نے مقامی لوگوں کے ساتھ کیا۔ اپنی ثقافت کو وہ باعث نفرت سمجھتا ہے۔

اپنی تعلیمات اور زبان سے آج کا انسان بھاگتا ہے کیونکہ وہ خود کو مہذب اور ترقی یافتہ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اپنی مادری زبان جو پہلے قابل فخر سمجھی جاتی تھی آج اس سے انسان شرمندگی محسوس کر تا ہے۔ اور جو شخص انگریزی کے دو چار لفظ سیکھ جائے اس کا وقار معاشرہ میں بڑھ جاتا ہے۔ نوآبادیاتی تعلیم کے زیر اثر ماں باپ نے بھی خود کو اس احساس کمتری میں مبتلا کر لیا ہے اپنے بچوں کو وہ فاسٹ فورڈ کی طرف راغب کرتے ہیں اور دیسی چیزیں (لسی، دہی شربت وغیرہ ) اپنے بچوں کے دوستوں کو پیش کرنے سے اجتناب کرتے ہیں کیو نکہ ان کے خیال میں یہ غذائیں غیر ترقی یافتہ اور غیر مہذب لوگوں کی ہے۔ اسی نوآبادیاتی نظام کے زیر اثر انسان ہیلو، ہائے کرنے میں فخر اور سلام کہنے میں اپنی بے توقیری محسوس کرتا ہے۔

اسی نظام کے تحت حکومت یا سرکاری اداروں میں بھی اب انگریزی نظام تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے اور آج بھی قوم اسی احساس کمتری کا شکار ہے جس میں آباد کاروں نے ان کو مبتلا کیا اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بھی برطانوی سامراج ہی حکومت کر رہا ہے۔ اور ہم ان کے جبر اور ان کی اطاعت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمارا اپنا نفس مردہ ہو چکا ہے ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔ ایک آزاد قوم ہوتے ہوئے آج بھی ہم غلام ہی ہیں اور اپنی آزادی رائے سے محروم ہیں۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا اثر ہے۔

حوالہ و حواشی:۔

1۔ نیئر، ناصر عباس، ما بعد نوآبادیات اردو ادب کے تناظر میں، کراچی، اوکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2013 ء، ص: 10

2۔ اقبال نزاکت، لندن کی ایک رات کا نوآبادیاتی اور مابعد نو آبادیاتی مطالعہ، اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، جنوری، 2019 ء، ص: 5

3۔ اقبال نزاکت، متذکرہ با لا، ص: 7
4۔ نئیر، ناصر عباس، متذکرہ بالا، ص : 4
5۔ اقبال نزاکت۔ متذکرہ بالا، ص: 9
6۔ عارف ثاقب، انجمن پنجاب کے مشاعرے، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، 1995 ء، ص : 313
7۔ اقبال نزاکت، متذکرہ بالا، ص: 11
8۔ انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی، انجمن ترقی اردو (پاکستان) ، ص: 239
9۔ The world book of encyclopaedia، U۔ S۔ A۔ 1998۔ p۔ 814
10۔ Robert۔ J۔ C۔ Young، an introduction to post۔ colonialism، p۔ 17
11۔ سر سید احمد خان، مقالات سر سید، جلد سیز دہم، لاہور، مجلس ترقی ادب، 1963 ء، ص: 575
12۔ نیر، ناصر عباس، متذکرہ بالا، ص: 6
13۔ ایڈورڈ سعید، culture and imperialism، ونٹاز، انگلینڈ، 1994 ء، ص: 6
14۔ نیر، ناصر عباس، متذکرہ بالا، ص: 12
15۔ سجاد ظہیر، لندن کی ایک رات، ص: 73
16۔ نیر۔ ناصر عباس، متذکرہ بالا، ص: 81
17۔ it ’s the anti۔ Jargon، کلکتہ، 1800 ء، ص: 247


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments