عقلمند بیوروکریٹ



ہمارے ملک میں ایک مرض ہے کہ کوئی بھی کام کرنا ہو تو اس کے لیے اچھے طریقے سے منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ مگر یہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔ ماضی میں صدر ایوب خان کے دور میں اگر ایک سڑک بھی بننی ہوتی تھی تو اس پر باقاعدہ میٹنگ ہوتی تھی کہ جب یہ سڑک بنائی جائے گی تو ٹریفک کا متبادل کیا ہو گا اس سڑک کی تعمیر سے بجلی، پانی اور ٹیلیفون کے محکموں کو کیا کیا کام کرنا پڑیں گے اور ان کے اخراجات کیا ہوں گے۔

اسی طرح ایک دفعہ ریلوے کے پاس بجٹ میں کافی پیسے بچ گئے۔ دو گروپ بن گئے۔ ایک کا خیال تھا کہ کراچی سے لاہور تک ٹریک ڈبل کر دیا جائے اس سے ریلوے کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ دوسرے گروپ کا خیال تھا کہ لاہور سے خانیوال تک بجلی کی گاڑی چلا دی جائے۔ اس طرح ہمیں ڈیزل کی مد میں جو خرچ ہو گا وہ بچ جائے گا اور اس بچت سے ٹریک ڈبل کر دیا جائے۔ کیونکہ ہمارے پاس بجلی سرپلس ہے اور سستی بھی۔ آئندہ تربیلا ڈیم اور کالاباغ ڈیم بھی سروس میں آ جائیں گے ہمارے پاس بجلی کی کمی نہ ہو گی۔

بحث مباحثہ کے بعد دوسرا گروپ کامیاب ہو گیا اور لاہور سے خانیوال برقی ریل گاڑی چلا دی گئی۔ یہ برقی ٹرین کئی سال چلتی رہی۔ (اب تو اس برقی ٹرین کی تاریں بھی غائب ہو چکی ہیں یہ نہ جانے کہاں گئیں۔) اس دور میں بیوروکریٹ بہت قابل اور عقلمند تھے۔ ان کے فیصلے ان کی عقل اور دانش کا مظہر تھے۔ ایسا ہی ایک قصہ میرے والد نے سنایا۔ آپ نے لوہاری دروازے کے باہر ایک شاندار مسجد دیکھی ہو گی۔ یہ مسجد پہلے سرکلر روڈ کے کنارے پر تھی۔

سڑک چوڑی کی جانی تھی اگر مسجد گرائی جاتی تو ایک جھگڑا شروع ہو جاتا اور مذہبی حلقہ مشتعل ہو جاتا۔ اس میٹنگ میں جن صاحب کو یہ کام تفویض کیا گیا انہوں نے کہا “یہ کام بغیر کسی اختلاف کے میں خوش اسلوبی سے کروا دوں گا مگر ایک گزارش ہے کہ ابھی سردست اس کا اعلان نہ کیا جائے۔” یہ صاحب دورہ پر لوہاری دروازہ گئے اور چلتے چلتے مسجد کا بھی معائنہ کیا اور مولانا صاحب سے ملاقات کی کہنے لگے “یہ مسجد نمازیوں کے لیے بہت چھوٹی ہے اسے کشادہ ہونا چاہیے اس کی حالت بھی کافی خستہ ہے کافی کام مرمت طلب ہے۔”

مولانا صاحب نے کہا “یہ تو آپ صحیح فرما رہے ہیں مگر یہ ہو گا کیسے اس کے ساتھ تو سڑک ہے اور مرمت کے لیے پیسہ بھی چاہیے ” صاحب نے اپنے سیکرٹری کو مخاطب کر کے کہا “اس پر اگلے ہفتے ایک میٹنگ رکھ لیتے ہیں یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے ” پھر مولانا صاحب سے کہا “اگلے ہفتے علاقے کے معززین کو بلا لیں اس مسئلے پر بات کے لیے” اگلے ہفتے میٹنگ شروع ہو گئی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ کافی دیر گزر گئی مگر سڑک بھی بند نہ کی جا سکتی تھی اور مسجد کی کشادگی کی کوئی اور صورت نظر نہ آتی تھی۔

آخر جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو ایک مولانا صاحب (پہلے سے منتخب کردہ) بولے “حضور وہ دروازے کے باہر گورنمنٹ کی جگہ خالی پڑی ہے اگر آپ کوشش کریں تو وہ جگہ مسجد کے لیے صحیح رہے گی” صاحب نے کہا “ہے تو مشکل مگر یہاں نمازیوں کی سہولت سب پر مقدم ہے میں پوری کوشش کروں گا کہ یہ کام ہو جائے ” اگلے ہفتے ہی منظوری ہو گئی۔ مسجد کا کام شروع ہو گیا۔ پرانی مسجد کی اینٹیں نکال نکال کر نئی مسجد میں لگائی جانے لگیں۔

لوگ جوش و خروش سے اس کار خیر میں حصہ لے رہے تھے۔ صاحب کی کاوشوں کی وجہ سے لوگ دل کھول کر چندہ بھی دے رہے تھے۔ ادھر مسجد کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا دوسری طرف سڑک کی تعمیر اور توسیع کا کام شروع ہو گیا۔ مسجد کی تعمیر کے بعد صاحب زندہ باد کے نعرے لگنے شروع ہو گئے۔ لوگ بھی خوش سرکار بھی خوش۔ صاحب نے اپنی مختصر تقریر میں فرمایا “آپ بلاوجہ میری تعریف کر رہے ہیں۔ اس کامیابی کے اصل حقدار مولانا صاحب ہیں جن کی کاوشوں سے یہ نیکی کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اگر اس نیکی کے کام میں کوئی میرا بھی ذرہ برابر حصہ ہے تو اللہ قبول فرمائے۔”

یہ تو تھا پرانا قصہ اس کے بعد بیوروکریسی پر سیاسی قبضہ ہو گیا اور ضیاء کے دور کے بعد مذہبی گروپ بھی بہت طاقتور ہو گئے ہیں اور ان کی ڈوریاں بھی باہر سے ہلائی جانے لگی ہیں وہ ہنگامہ کرنے کا کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور کچھ ہمارے حکمران آئے دن ایسے کام کرتے رہتے ہیں کہ لوگ مذہب کے نام پر اشتعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اگر حکمران عقل استعمال کریں لوگوں کی نفسیات کو سمجھیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لوگوں کی کم علمی کی وجہ سے مذہب سے محبت اگر کچھ مقامات پر نقصان کا باعث بنتی ہے تو اسی محبت کو تعمیری کام کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے دماغ کا استعمال ضروری ہے۔ اگر حکمرانوں کا اپنا دماغ ہی منفی سوچ کا حامل ہو تو وہ عوام سے مثبت کام کیسے لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments