ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کا نو آبادیاتی تجزیہ


یہ شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ان کے افسانوں میں معاشرہ کے ہر پہلو نظر آتے ہیں انہوں نے قریہ قریہ گھوم کر کہانیاں یک جا کی ہیں اور ہر کہانی میں ایک پرزور مزاحمت ہے آج میرا ٹاپک ان کے افسانوں کا نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی مطالعہ ہے

مسلسل جبر کے خلاف پیدا ہونے والی مزاحمت لیکن احساس بے بسی سے، بقول حسن منظر: معاشرے۔ ریزہ ریزہ ہونے لگتے ہیں ”۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نو آبادیات کے نام سے ایک نئی سامراجی اصطلاح وجود میں آئی۔ نو آبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی رویہ ہوتا ہے جس کے تحت طاقتور ممالک چھوٹے اور کمزور علاقوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ ان کا سیاسی، معاشی و ثقافتی، ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی تنقید اور فکر کو عام انسان تک پہنچانے میں مؤرخین اور خاص طور پر ادیبوں کا بہت بڑا اور اہم کردار ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہی کی وجہ سے نو آبادیاتی نظریات، ان کی باقیات اور ان کے ثقافتی اور سازشی ہتھکنڈوں سے عام قاری کو شناسائی ہوئی

نو آبادیاتی قوتوں اور مقامی لوگوں کے تصادم سے جو نظریہ پیدا ہوا اسے آئیڈیالوجی کا نام دیا گیا۔ اور اسی تصادم کے نتیجے میں تقریباً 50 کی دہائی میں ”تیسری دنیا“ کی ایک نئی اصطلاح وجود میں آئی۔

نو آبادیات اور استعماریت لازم و ملزوم ہیں، کیونکہ استعماریت وہ تصور ہے جسے نو آبادیاتی نظام کے ذریعے روبہ عمل لایا جاتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام کی ابتدا مصر اور یونان سے ہوئی۔ پھر ایک وقت میں روس، برطانیہ، فرانس اور ڈچ نو آبادیاتی قوتیں تھیں۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں انگریزوں نے اس کا آغاز کیا۔

جب انگریز اس خطے میں آئے تو اپنے مفادات کے لیے انہوں نے تین چیزوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا: روپیہ، مذہب اور جنس۔

تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان نے جب بھی مار کھائی ہے، ان ہی تینوں کی وجہ سے کھائی ہے۔ یہ سوچ نسل در نسل سفر کرتی رہی۔ تقسیم کے بعد ایک نوزائیدہ ملک جو مذہب کی بنیاد ہی پر وجود میں آیا تھا، وہاں یہ سوچ ختم ہو جانی چاہیے تھی، لیکن بالادست طبقے میں یہ ختم نہیں ہوئی۔ ہم اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ ہم آزاد ہو گئے ہیں لیکن انگریز یا نو آبادیاتی قوتیں یہاں سے بظاہر جانے کے باوجود یہیں موجود اور ہم پر قابض ہیں۔

یہ چیز ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر حسن منظر، جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، برصغیر کی تقسیم کے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے اس پر آشوب دور میں انسان سے روا رکھی جانے والی نا انصافی اور اسی کی مجبوری کا بہت گہری نظر سے مشاہدہ کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ ہیں : ”کسی بھی رست خیز کے کریہہ مناظر اور تلخ سوانح کو فنی تشکیل دے کر ہر تخلیقی صلاحیت رکھنے والا باشعور ادیب اپنے احتجاج کا مظاہرہ کرتا ہے۔ کم تر درجے کے ادیب کے حصے میں ان واقعات میں صرف لذت، دہشت سے الفت اور نفرت کے الاؤ کو بھڑکانے والا ایندھن آتا ہے۔ ویت نام کی لامتناہی جنگ عظیم سے جو امریکی فکشن رائٹرز اور فلم سازوں کو یافت ہوئی، وہ مؤخر الذکر صنف میں آتی ہے۔“

اب اگر اسی کو کسوٹی جان کر تجزیہ کیا جائے تو ڈاکٹر صاحب اپنے کردار اور شعور کی بلندیوں پر اس نو آبادیاتی نظام کے آکٹوپس کی طرح پھیلے ہوئے منحوس پنجوں کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں بالادست طبقے کے خلاف ایک مزاحمت کی لہر موجود ہے لیکن زیر دست طبقے کی سکت بھی ان سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لہذا نا انصافی اور جبر کے خلاف مزاحمت کے باوجود ان کے کردار اس جبر کا خاتمہ نہیں کر سکتے، بلکہ اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

’زیادہ دن نہیں ہوئے،‘ ’چھٹکارا‘ اور ’ناشکرے‘ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

ان کا افسانہ ”زیادہ دن نہیں ہوئے“ ایک ایسی کہانی ہے جو جنسی وحشت کے گرد گھومتی ہے۔ ایک ایسا پولیس افسر جس کے لیے یہ بہیمیت ایک معمول کی بات تھی۔ جو ان وارداتوں کو متاثرہ فریق کی عزت کے نام پر، ہمدردی کی آڑ میں دبا دینے کا عادی تھا اور شرافت کا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔ برائی کی سرپرستی کرنے والا کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ انسان اپنی پستی میں اس حد تک گر سکتا ہے۔ اس کے اعصاب چٹخنے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب اس میں ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ صدیوں سے اس خطے میں نسل در نسل استعماریت کے باوجود کوئی ایک لمحہ ایسا بھی آ سکتا ہے جب مضبوط سے مضبوط شخص بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور وہیں سے محکوم طبقے کی بحالی شروع ہو سکتی ہے۔

نو آبادیاتی پسے ہوؤں کو اٹھایا جا سکتا ہے، اگر کوئی اٹھانے والا ہو

”چھٹکارا“ ایک شاہکار افسانہ ہے ڈاکٹر صاحب کا۔ ”یاسو“ کے مالکان استبدادی اور نو آبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو محکوموں کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کے قائل نہیں۔ دوسری طرف ”یاسو“ کا کردار انسانیت کی بلندی کا مظہر ہے۔ اور جب وہ مالکان کے کھانے کا سامان لانے کے بجائے ایک پلے کی جان بچانے کے لیے اسے اٹھا لاتا ہے، تو اسے بہت مار پڑتی ہے۔

اور نو آبادیاتی نظام میں ہر ممکن کوشش یہی ہوتی ہے بقول فیض
”چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے“

لیکن اپنی تکلیف سے زیادہ اسے اس بات کی فکر ہے کہ وہ ننھا سا پلا کیا کھائے گا اور رات کہاں گزارے گا، کیونکہ اسے گھر کے اندر آنے کی اجازت نہیں ملی۔

ڈاکٹر صاحب کے فن کی معراج یہ ہے کہ جیسے محکوم قوموں کے حاکم بدلتے رہتے ہیں، اسی طرح ”یاسو“ کے سابقہ مالکان بھی کئی تھے جن میں صرف ایک قدر مشترک تھی کہ وہ حاکم تھے اور ”یاسو“ کو ان کے مفادات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑا تھا حتیٰ کہ اب وہ اپنا آپ بھی بھول جانے کو تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب نو آبادیاتی قوتوں کے زیر اثر کوئی قوم اپنے آپ کو بھول جانے پر مجبور کر دی جائے تو اس وقت اس میں بیداری کی لہر پیدا ہونے کے واضح امکانات ہوتے ہیں۔ کوئی ایک واقعہ بھی صورتحال کو طرفین میں سے کسی کے بھی حق میں پلٹ سکتا ہے۔

نو آبادیاتی حکومت اور زیر استحصال طبقے کی طرح ”یاسو“ اور اس کے مالکان کے درمیان کھچاؤ نے نفرت کو جنم دے دیا تھا۔ یہ نفرت اس حد تک بڑھ جاتی ہے جب انسان نتائج سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ اور ایک دن ”یاسو“ مالک کے لڑکے کی طرف سے دی جانے والی گالی برداشت نہیں کر پاتا اور جوابی گالی دے کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اس کا کندھا لگائی جانے والی ضربوں سے دکھ رہا ہوتا ہے۔ \

اب یہاں پر اصولاً اس کے مصائب ختم ہو جانے چاہئیں اور اسے آزاد ہو جانا چاہیے۔ لیکن جب نو آبادیاتی دور نے آپ کی منزل کو دھندلا دیا ہو تو آپ کا ہر قدم آپ کو منزل کے قریب کرنے کے بجائے دور بھی کر سکتا ہے۔

اور یہی ”یاسو“ کے ساتھ بھی ہوا۔ اسے اپنی منزل یعنی نانی کے گھر کا پتا نہیں تھا کہ مالکان نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اسے اس قابل ہی نہیں رہنے دیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اور اس کا غمگسار کتے کا پلا، دونوں بھوکے پیاسے دریا کے کنارے زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی ایک کامیابی نو آبادیاتی نظام کے خلاف نوجوان نسل میں ایک سوچ پروان چڑھانا ہے۔ گو انفرادی طور پر ہم اس نظام کے خلاف کچھ کر سکنے کے بجائے اس کا ایک حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن، اس کے باوجود، کچھ ذہن اس پر سوال اٹھاتے ہیں اور اگر انہیں مناسب رہنمائی مل جائے تو کچھ بعید نہیں کہ معاشرہ میں سدھار کے آثار نظر آنے لگیں۔ لیکن بات وہی ہے کہ یہ انفرادیت نہیں بلکہ اجتماعیت کا تقاضا کرتا ہے۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو وہی جاگتا ذہن خلجان میں مبتلا ہو کر غلط راہ پر بھی جا سکتا ہے۔

”یاں تو کوئی فریاد نہیں سنتا کسو کی“ کا افتخار اسی چیز کا شکار ہے۔ اور جب کسی جبر کو مسلسل سہتے سہتے ذہن میں اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے لگے لیکن اپنی بے بسی کا احساس اس سے شدید تر ہو جائے تو ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں : ”معاشرے ٹوٹنے لگتے ہیں، ریزہ ریزہ ہونے لگتے ہیں۔“ ڈاکٹر حسن منظر کے افسانے ان کی حساسیت اور اخلاقی اقدار سے محبت کو واضح کرتے ہیں ؛ کہ وہ ہمارے گرد و پیش رونما ہونے والے واقعات کو کس گہرائی میں جا کر دیکھتے ہیں اور کہیں بھی ہونے والی زیادتی کا ازالہ چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ انسانیت کی سربلندی کے قائل ہیں اور اس کی راہ میں پیدا ہونے والی ہر رکاوٹ کے خلاف لکھنا، بولنا ان کا نصب العین نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments