اسرائیلی جارحیت اور مسلم امہ کا کردار؟


یروشلم کا پرانا شہر چار حصوں میں تقسیم ہے اس شہر میں عیسائی ’یہودی‘ آرمینیائی اور مسلمان آباد ہیں اسرائیل یروشلم کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اسرائیل بننے کے بعد سات لاکھ فلسطینی رفیوجی ہو گئے جن کی تعداد اب تقریباً ستر لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ جب اسرائیل کا قیام ہوا تو اس وقت بیت المقدس مشترکہ اثاثہ قرار پایا گنبد صغریٰ ’مسجد اقصیٰ‘ دیوار گریہ اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت اہم متبرکات اور مقدسات مشرقی جانب دیوار سے ایک مربع کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں جنہیں بلدۃ القدیم یا Old Cityکہا جاتا ہے اولڈ سٹی اور مضافات پر مشتمل علاقہ مشرقی یروشلم یا القدس الشرقیہ کہلاتا ہے مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کی اکثریت ہے جب کہ مغربی بیت المقدس میں یہودی آباد ہیں۔

پہلی عرب اسرائیل جنگ 15 مئی 1948 ء کو ہوئی جس میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کو اسرائیلی خونخوار پنجے سے آزاد کروایا لیکن مغربی بیت المقدس بد ستور اسرائیل کے قبضہ میں رہا۔ جون 1967 ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے شام سے گولان کی پہاڑیاں ’اردن سے مشرقی بیت المقدس سمیت غرب اردن اور مصر سے صحرائے سینائی کا علاقہ چھین لیا جنوبی لبنان کے کچھ علاقوں پر بھی غاصب اسرائیل قابض ہو گیا اور اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کرتے ہی مشرقی و مغربی حصوں کو باہم ملا کر یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دے دیا جب یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھا تو امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کرتے ہوئے قرار داد کو غیر موثر کر دیا اور صرف عربوں کی اشک شوئی کے لئے اتنا کہا گیا کہ عالمی برادری مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا حصہ تصور کرتی ہے۔

عالمی ادارہ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے 27 اپریل 2021 ء کو 213 صفحات پر ایک مشتمل رپورٹ جاری کی گئی کہ اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں اور اپنے عرب شہریوں کے خلاف ریاستی جبر و استبداد ’ظلم و بربریت اور نسلی امتیاز کے جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔ رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں سات مئی 2021 ء کو اسرائیل کی صیہونی و دجالی دہشت گرد فوج نے مسجد اقصیٰ میں روزہ داروں اور نمازیوں پر حملہ کر کے اپنی بربریت‘ درندگی اور جبر و استبداد کا جو ثبوت دیا ہے اس سے اسرائیل کا دہشت گردانہ مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے اب تک سو سے زیادہ فلسطینی مسلمان اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہو چکے ہیں اس بار اسرائیلی دہشتگردی کی ابتداء مشرقی بیت المقدس کا علاقہ ”شیخ الجراح ’سے ہوئی۔

اسرائیل مقبوضہ علاقوں کو یہودی بستیوں میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش لئے ظلم و بربریت کی ننگی مثالیں کئی بار پیش کر چکا ہے جمہوریت کی علمبردار عالمی برادری اور اسرائیل کی عدالتوں میں بیٹھے انصاف کے منصب پر فائز ججز کے لئے نہایت شرم کا مقام ہے کہ جو اسرائیل کی فلسطینی مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ننگی جارحیت کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ مشرقی بیت المقدس پر اسرائیلی غیر قانونی قبضہ کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے بیت المقدس پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضہ کے خلاف صرف بیانات ریکارڈ کا حصہ ضرور ہیں لیکن اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے تاحال اپنے اس کردار کا تعین نہیں کیا کہ وہ جارح اور ظالم اسرائیل کے اس دہشگردانہ اقدام کو روک سکے کہ وہاں فلسطینی مسلمانوں کو بے گھر کر کے یہودی بستیاں تعمیر کرنا غیر قانونی اور جرم ہے۔

مشرقی بیت المقدس کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے اس مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لئے قبلہ اول ہے یہ شہر فلسطین کا حصہ ہے اور اس مقام کو فلسطینی مسلمان مستقبل میں قائم ہونے والی ریاست فلسطین کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینی مسلمانوں کے خلاف جو ظلم و استبداد کی شب و روز دہشت زدہ مثالیں رقم کر رہی ہے وہ صاف طور پر کھلی عالمی دہشت گردی ہے ایک غاصب ریاست اپنی صیہونی و دجالی فوجی قوت کے بل بوتے پر بار بار مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کر رہی ہے اور نہتے فلسطینی مسلمان مردو خواتین ’بوڑھے اور بچوں کو بے دریغ شہید اور زخمی کیا جا رہا ہے اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر آگ اور بارود برسا رہا ہے فلسطین مسلمانوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سے سسک رہا ہے لیکن افسوس مسلمانوں کے قبلہ اول کے محافظ فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے سفاک مظالم کو روکنے کے لئے مسلم ممالک اور مسلم امہ کا کردار شرمناک حدوں کو چھو رہا ہے۔

57 مسلم ممالک قبلہ اول کے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہ مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات کی بساط بچھائے صرف اپنے مفادات کو عزیز تر جانتے ہوئے اسرائیل کی ناپاک حرکتوں پر قدغن لگانے سے قاصر ہیں۔ یہ امت مسلمہ کا وہی قبلہ اول ہے جس کی طرف نبی کریم ﷺ اور صحابہ نے تقریباً سولہ یا اٹھارہ نمازیں ادا فرمائی مسجد اقصیٰ جس کی زیارت کے لئے آپﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دی اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپﷺ کو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا اور وہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرما کر نماز پڑھائی پھر بعد میں اسی سرزمین سے آپﷺ کو آسمانوں کی طرف لے جایا گیا ’اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی اور اس سفر کے دوران جنت و جہنم کے مناظر دکھائے گئے‘ اور سات آسمانوں پر نبی کریم ﷺ کی مختلف انبیاء کرام سے ملاقات کروائی گئی یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا ’مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے اس سفر مبارک کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضری کو سفر معراج کہا جاتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس مبارک شہر (بیت المقدس) کو فتح کر کے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا ’خلیفہ عبدالملک کے عہد میں مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخراء کی تعمیر کی گئی‘ یہ وہ سرزمین مقدس ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ اسلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی ’حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ اسلام اور ان کے بعد تمام آنے والے انبیاء کرام (حضرت یعقوب‘ حضرت سلیمان ’حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ اسلام ) کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔

مسلم ممالک اور امت مسلمہ کے لئے یہ لمحات بڑے کربناک ہونے چاہیے ہمیں اپنے ایمانی درجہ حرارت کو ماپنے کی ضرورت ہے کہ فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے کے لئے اور قبلہ اول کی بقاء کے لئے ہمارا کردار کیا ہے۔ اگر مسلم ممالک قبلہ اول کی حرمت و فضیلت کو مقدم رکھ کر ایک صفحہ پر متحد ہو جائیں تو مضبوطی اور طاقت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر جانے میں بھی قباحت نہیں لیکن یاد رکھیں اگر اتحاد کے بغیر صلح کی میز پر بیٹھے تو دنیا اسے آپ کی کمزوری اور مجبوری سمجھے گی مسلم دنیا کے حکمرانوں کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر اس بات کا اندازہ لگا لینا چاہیے کہ اتحاد کے بغیر اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو فلسطین سے اٹھنے والی چیخیں ایک دن آپ کے در تک بھی پہنچ جائیں گی ’امریکہ اور اس کے حلیف ممالک مسلم ممالک اور مسلم امہ کی طاقت کو پاش پاش کرنے کے لئے ایک صفحہ پر ہیں نتائج مسلم حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں عراق کی تباہی‘ ایران پر پابندیاں اور ترکوں کے خلاف عالمی سازش صیہونی و دجالی قوتوں کے ایجنڈا کا ہی حصہ ہے۔

قرآن کریم نے پوری استطاعت کے ساتھ قوت کی فراہمی پر زور دیا ہے یہ قوت اس قدر ہو کہ مخالفین کے دل میں ڈر سما جائے۔ برسوں سے جاری فلسطین پر ظلم و ستم جاری سیریل کے خاتمے کی یہی ایک شکل ہے صرف صلاح الدین ایوبی کی آمد اور انتظار اور الہی بھیج دے کوئی محمود کی دعا اور کلینڈر پر چھاپ دینا کافی نہیں دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں دعاؤں کے ساتھ پر عزم ہو کر تدبیریں اختیار کرنے کی ضرورت ہے ’ورنہ ہم ظلم سہتے رہیں گے اور ہماری داستاں نہ ہو گی داستانوں میں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments