لاپتہ افراد: ’عید کے دن لوگ ایک دوسرے کی غلطیاں معاف کرتے ہیں‘

محمد کاظم - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ


لاپتہ افراد کوئٹہ مظاہرہ

رمضان کے مہینے میں جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 20 سے زائد لاپتہ افراد بازیاب ہوئے تو کوئٹہ شہر سے تعلق رکھنے والی خاتون گل سیمہ کو بھی امید پیدا ہو گئی کہ ان کا بیٹا جہانزیب بلوچ بھی بازیاب ہوکر گھر پہنچے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔

گل سیمہ نے بتایا کہ عید سے انھوں نے بیٹے کے لیے کپڑے سلوانے کے علاوہ نئے جوتے بھی خریدے مگر بیٹا اس عید پر بھی گھر نہیں پہنچا۔

تاہم گزشتہ کئی برسوں کے مقابلے میں رواں سال عید الفطر قدرے مختلف ثابت ہوئی ہے کیونکہ عید سے پہلے متعدد افراد کی بازیابی سے ان کے گھروں میں خوشیاں لوٹ آئیں۔

گل سیمہ کی شرکت اس حوالے سے منفرد تھی کہ ان کے ہاتھوں میں نئے جوتے اور کپڑوں کا ایک نیا جوڑا بھی تھا، جبکہ ان کی پوتی بھی ان کے ساتھ تھی۔

جہانزیب بلوچ کون ہیں؟

ان کی والدہ کے مطابق گزشتہ چھ سال سے لاپتہ جہانزیب بلوچ کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے کے رہائشی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کی ساڑھے پانچ سال کی بیٹی بھی ہے۔

لاپتہ افراد کوئٹہ مظاہرہ

ان کی والدہ گل سیمہ نے بتایا کہ 6 سال قبل رات کو ان کے گھر پر چھاپہ پڑا تھا اور سیکورٹی اہلکار ان کے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے تھے جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں۔

اپنی پوتی معصومہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ معصومہ ان کے بیٹے کی اکلوتی اولاد ہے، جس وقت جہانزیب کو لاپتہ کیا گیا تو اس وقت معصومہ کی عمر صرف چھ ماہ تھی۔

گل سیمہ نے بتایا کہ گزشتہ چھ سال سے نہ صرف وہ بلکہ ان کے خاندان کے تمام افراد ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔

’ہم سے نیند چھن گئی ہے ۔ ہم مریض بن گئے ہیں اور اب ادویات کے سہارے جی رہے ہیں۔‘

بیٹے کا انتظار کرتے کرتے ماں انتقال کر گئی

مظاہرے میں ایک اور عمر رسیدہ خاتون بھی شریک تھیں جن کے ہاتھ میں ان کے بھتیجے غلام فاروق کی تصویر تھی۔

خاتون کا کہنا تھا کہ غلام فاروق کا تعلق کوئٹہ سے ہے لیکن ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازمت کے باعث وہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں رہتے تھے جہاں سے ان کو تین دیگر افراد کے ہمراہ دو جولائی 2015 کو لاپتہ کیا گیا۔

لاپتہ افراد کوئٹہ مظاہرہ

انھوں نے بتایا کہ باقی تین افراد کو چھوڑ دیا گیا لیکن ان کا بھتیجا تاحال لاپتہ ہے۔

’ پہلے اس طرح کے مظاہروں میں بھتیجے کی بازیابی کے لیے میری بہن شریک ہوتی تھیں۔ بیٹے کی بازیابی کا انتظار کرتے کرتے میری بہن گزشتہ سال فوت ہوگئی جس کے باعث اس سال عید پر بھتیجے کی تصویر لے کر میں آگئی ہوں۔‘

’لاپتہ افراد سے آخر ایسی کونسی غلطی سرزد ہو گئی‘

اس مظاہرے میں بانڑی بلوچ بھی شامل تھی جنھوں نے بتایا کہ ان کے چچا ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 28 جون 2009 کو ضلع خضدار کے علاقے اورناچ سے لاپتہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 12سال سے ہم ڈاکٹر دین محمد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ان کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا ہے۔

لاپتہ افراد کوئٹہ مظاہرہ

انھوں نے کہا کہ لوگ عید پر گھروں میں خوشیاں مناتے ہیں لیکن ہم آج اس روز بھی سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔

’کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک اسلامی ریاست ہے۔ اسلامی تہوار عید کا دن ایک ایسا دن ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کی غلطیاں معاف کرتے ہیں ۔لیکن لاپتہ افراد سے آخر ایسی کونسی غلطی سرزد ہو گئی کہ ان کے لیے ملک کے آئین اور قانون میں سزا نہیں بلکہ ان کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔‘

مظاہرے میں شریک ایک نوجوان بلخ قمبرانی کا کہنا تھا کہ ان کے کزن جمیل احمد سرپرہ کو 25جولائی 2015 کو کوئٹہ کے علاقے گرین ٹاﺅن سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ عید پر خوشیاں مناتے ہیں ۔ ’یہ پہلی عید نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی سال سے ہم ہر عید پر یہاں آکر احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ ہماری خوشیاں ہمارے پیارے ہیں جن کے ہم منتظر ہیں۔‘

اس مظاہرے کے شرکاءکا مطالبہ تھا کہ جتنے بھی لوگ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں ان کو بازیاب کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔

’کسی کا پیارا لاپتہ ہو تو خوشیاں منانا ممکن نہیں‘

بلوچستان میں اگرچہ جبری گمشدگیوں کا سلسہ 2000ء کے بعد شروع ہوا تھا لیکن لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق گزشتہ 14سال سے ہر عید کے موقع پر لاپتہ افراد کے رشتہ دار مظاہرے کرتے ہیں۔

لاپتہ افراد کوئٹہ مظاہرہ

ماما قدیر کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا پیارا لاپتہ ہو تو اس کے لیے خوشیان منانا مکمن نہیں ہوتا، جس کے باعث وہ عید پر بھی احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گزشتہ 20 سال کے دوران بلوچستان سے ہزاروں افراد کو لاپتہ کیا گیا ہے۔

رواں سال کا عیدالفطر قدرے مختلف؟

رواں سال عید الفطر سے چند روز قبل بعض لاپتہ افراد کی بازیابی عمل میں آئی جن کا تعلق کوئٹہ شہر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بتایا رواں ماہ کے دوران مجموعی طور پر 23 افراد بازیاب ہوئے جس کی وجہ سے عید پر ان کے گھروں میں خوشیاں لوٹ آئیں۔

ان بازیاب ہونے والوں میں دو چچازاد بھائی حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی بھی شامل تھے جن کو فروری 2020کو سریاب کے علاقے سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

حسان قمبرانی کی والدہ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ بیٹے کی واپسی سے ہم بوڑھے والدین کو نئی زندگی ملی۔ ’ہم اللہ کے شکرگزار ہیں کہ اس عید پر ہمارے گھر کی خوشیاں لوٹ آئیں۔ جبری گمشدگی کا دکھ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس دکھ کے تجربے کے بعد میری بس یہی دعا ہے کہ جتنے بھی لوگ لاپتہ ہیں وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹیں۔‘

حزب اللہ قمبرانی کی بہن اسماء قمبرانی نے بتایا کہ ہمیں پہلے سے بالکل معلوم نہیں تھا کہ حزب اللہ عید پر گھر پہنچیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ گھر میں صبح سحری کے بعد ہماری والدہ جاگ رہی تھیں اور جب بھائی صبح دس بجے پہنچے تھے تو انھوں نے ہی ان کے لیے دروازہ کھولا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھائی گھر میں داخل ہوئے تو والدہ نے پہلے ان کا استقبال کیا اور پھر ہم گھروں والوں کو جلدی جلدی سے جگا کر کہا دیکھو بھائی آگئے ہیں۔

اسماء قمبرانی نے بتایا کہ ہمیں جگانے کے بعد والدہ پھر حسان سے لپٹ گئیں اور ان کو چھومتی رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا کوئی پیارا لاپتہ ہو تو اس کا دکھ دیگر غم اور دکھوں کے مقابلے میں زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی کا کوئی رشتہ دار یا خاندان کا کتنا ہی لاڈلا کیوں نہ ہو اگر وہ طبعی موت مرجاتا ہے تو کچھ دن بعد اس کے رشتہ دار اس کو بھول جاتے ہیں، لیکن اگر کوئی لاپتہ ہو تو اس کے رشتہ دار اور خاندان کے لوگ ہر روز مرتے ہیں۔ ’ہر وقت اس کے بارے میں یہ خیال آتا رہتا ہے کہ وہ کس اذیت میں ہو گا۔ اس خیال کے ساتھ کوئی بھی سکون کے ساتھ جی نہیں سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس درد اور تکلیف کو صرف وہ لوگ شدت کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں جن کے پیارے لا پتہ ہیں۔ اس لیے ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ تمام لاپتہ لوگ خیریت کے ساتھ بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔

جبری گمشدگیاں اور بھوک ہڑتالی کیمپ

2000ء کے بعد بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے بعد سے ہی ان کی بازیابی کے لیے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

ان کی بازیابی کے لیے طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کے علاوہ کوئٹہ، کراچی اور اسلام آباد میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔

لاپتہ افراد کوئٹہ مظاہرہ

رواں سال لاپتہ افراد کے رشتہ دار فروری میں احتجاج کے لیے اسلام آباد گئے تھے جہاں احتجاج کے دوران وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید سمیت دیگر وفاقی حکام نے ان سے ملاقات کی تھی۔

اس احتجاج کے بعد رواں سال مارچ میں نصراللہ بلوچ اور بعض دیگر لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے وزیر اعظم عمران خان سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی۔

’تین سو سے زیادہ افراد بازیاب‘

نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ جن تیرہ لاپتہ افراد کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی ان کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے لاپتہ رشتہ داروں کے علاوہ دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے عید سے پہلے بڑی پیش رفت ہو گی، لیکن رواں ماہ عید سے قبل مجموعی طور پر جو 23 افراد بازیاب ہوئے ان میں سے صرف دو افراد کا تعلق ان خاندانوں سے تھا جن کی وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل تنظیم کی جانب سے بلوچستان حکومت کو مختلف اوقات میں چھ سو لاپتہ افراد کی فہرست فراہم کی گئی تھی جن میں سے موجودہ حکومت کے ڈھائی سال کے دوران تین سو سے زیادہ افراد بازیاب ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ بازیاب ہوئے وہ گزشتہ چار پانچ سال کے دوران لاپتہ کیے گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ وفاقی حکام کے علاوہ بلوچستان حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جو لوگ دس پندرہ سال سے زائد کے عرصے سے لاپتہ ہیں ان کی بازیابی کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوگی لیکن تاحال ایسا نہیں ہو سکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp