ترکی، اسرائیل اور دنیا کی سیاست


بائیڈن انتظامیہ اگرچہ بین الاقوامی سطح پر کچھ زیادہ محرک نظر نہیں آ رہی مگر اس کی علاقائی پالیسیوں ان دیکھے انداز میں نظر ثانی جاری ہے جس سے مختلف ممالک اور ریاستوں میں تعلقات اور محرکات کو نئی ​​شکل اور نئی جہتیں دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس سلسلہ میں خلیج فارس کی جغرافیائی سیاسی صورتحال میں نئی صف بندیاں تیزی سے جاری ہیں جن کی مثالیں جنوری میں قطر اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کو از سر نو شروع کر انا، اس مئی کے مہینے میں بغداد میں سعودی عرب اور ایران کے اعلی سکیورٹی حکام کے مابین ہونے والی ڈرامائی ملاقات اور خلیجی ممالک کے حکمرانوں میں اسرائیل کے حق میں جذبہ خیر سگالی کا پیدا ہونا ہیں۔

اماراتی صدر شیخ خلیفہ بن زائد کے مشیر انور گرگش نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ”مشرق وسطی کا بدلتا ہوا چہرہ“ پچھلے اگست کے ابراہیم ایکارڈز (معاہدہ جات) سے منسوب کیا جائے گا، جسے انہوں نے ”متبادل حکمت عملی کے نقطہ نظر“ کے طور پر بیان کیا ہے اس معاہدے کا مقصد اسرائیل کی سیاست کو آگے بڑھانا ہے۔ انہیں معاہدہ جات کے حوالے سے بحرین، مراکش، سوڈان اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی معاہدہ کر چکے ہیں۔

در حقیقت، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین تعلقات کی تاریخی تبدیلی کا مقصد ابھی تک ظاہر نہیں کیا جا رہا مگر لازمی طور پر ترکی اس کا نشانہ ہے۔ خلیجی ممالک میں امن معاہدے اور معاشی معاہدے کرا کر انہیں آپس میں متحد کر کے ترکی کی 2023 کے چیلنج کو روکنا اصل مقصود نظر آتا ہے۔

ابرایم ایکارڈز کے بعد یہ نیا گروہ مشرقی بحیرہ روم، مغربی ایشیاء اور خلیج فارس کے چار ممالک۔ یونان، سائپرس، (قبرص) اسرائیل اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل ہے۔ یہ ترکی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششوں کی ایک بڑی کڑی ہے۔ یہ ایک وارننگ کا اظہار ہے کہ ترکی 2023 کے اقدامات ذرا سوچ سمجھ کر کرے۔

یقینی طور پر، خلیج کی صف بندی میں حالیہ رجحانات میں سے ہر ایک کی اپنی مجبوریاں اور کمزوریاں بھی ہوں گی۔ جس طرح کہ سعودی عرب اور قطر کے مابین تعلقات کا معمول پر آنا زیادہ تر بائیڈن انتظامیہ کی آنے والی اور بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہے۔ سعودی عرب کو خدشات لاحق تھے کہ کہیں امریکہ اس سے ناراض نہ ہو جائے اور واشنگٹن میں جمہوری قانون سازوں کے بہت سارے لوگوں کی نظر میں سعودی عرب اور خاص طور پر اس کے ولی عہد کے بارے رائے کو شدید نقصان نہ پہنچنے۔

اسی طرح ریاض اور دوحہ کے درمیان بہتر تعلقات سے خلیج تعاون کونسل میں کچھ رمق پیدا ہو گی اور مزید سفارت کاری بھی ممکن ہو گی۔ اسی وجہ سے، دھمکیاں اور تشدد کے واقعات بھی کم ہوں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انقرہ نے دوحہ کو سعودی پابندیوں کے مقابلہ میں کھڑے ہونے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، لیکن سعودی قطری تعلقات کے مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا بھی بہت امکان انقرہ کے لئے امید پیدا کرتا ہے کہ یہ ترکی اور قطری اتحاد کو مجروح کیے بغیر ریاض کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی پیدا کر سکتا ہے۔

اس طرح سعودی عرب کی پابندی کو مسترد کرنے کی قطر کی صلاحیت نے بالواسطہ با اثر طاقت کی حیثیت سے ترکی کے علاقائی موقف کو فروغ دیا۔ قطری محاصرے والے خلیجی عرب ملک میں ترک قطری فوجی اڈے اور ترکی کے فوجی جوانوں کی موجودگی نے بلاشبہ قطر کو مدد فراہم کی۔

بحیرہ روم کے جزیرے قبرص پر واقع پافوس میں چار ممالک کے وزیر خارجہ سطح کے اجلاس کو لازمی طور پر اسی نظریے کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔ میزبان، قبرص کے وزیر خارجہ نیکوس کرسٹوڈولائڈس نے بڑے پیمانے پر اس واقعے کو خطے کے لئے ایک نئے دور کی نشاندہی کرتے ہوئے بیان کیا، جو ”وسیع مشرقی بحیرہ روم، مشرق وسطی، اور خلیج کے استحکام، خوشحالی اور امن کے ایک علاقے کے طور پر سامنے آئے گا۔

انہوں نے دعوی کیا کہ یہ نیا دور ہمارے بحرانوں، تنازعات اور بحرانوں کے خطے کی حیثیت سے ہمارے پڑوس (ترکی) کی مروجہ، پابندیوں کی داستان کو ختم کرنے میں مدد دے گا اور ایک مثبت اور جامع ایجنڈے کے ساتھ ایک ”یکسر مختلف“ منظر سامنے آئے گا جو ”تعاون، امن، استحکام اور خوشحالی۔“ پر مشتمل ہو گا۔

یہ الفاظ در اصل ترکی مخالف الفاظ ہیں۔ اسی معاہدہ کے تناظر میں، اسرائیل اور یونان نے اپنے اب تک کے سب سے بڑے دفاعی خریداری معاہدے کا اعلان کیا، جس میں اسرائیل کے دفاعی ٹھیکیدار ایلبٹ سسٹم کے ذریعہ ہیلینک فضائیہ کے لئے ایک تربیتی مرکز کے قیام اور 1.65 بلین امریکی ڈالر کا معاہدہ شامل ہے۔

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے، ”مجھے یقین ہے کہ یہ پروگرام صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرے گا اور اسرائیل اور یونان کی معیشتوں کو تقویت بخشے گا اور اس طرح ہمارے دونوں ممالک کے مابین دفاعی، معاشی اور سیاسی سطح پر شراکت داری مزید گہری ہوگی۔“

دریں اثنا، متحدہ عرب امارات اور یونان میں بھی دفاعی تعاون کا ایک اہم پروگرام ہے۔ یونان نے 40 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہے جس میں فرانسیسی رافیل اور امریکی ساختہ ایف 35 اسٹیلتھ لڑاکا طیارے شامل ہیں جن کی بائیڈن انتظامیہ نے مبینہ فروخت کی منظوری دے دی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اس چار ملکوں کے معاہدے کو امریکی حمایت حاصل ہے۔ تاہم سعودی عرب اور مصر نے خود کو اس گروپ بندی سے تا حال دور رکھا ہے یا انہیں دور رکھا گیا ہے اور وہ ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات میں استحکام کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کے لئے تو 2023 کا انتظار کرنا پڑے گا مگر دنیا میں اس کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل ترکی کو روکنے کی پالیسی پر ابھی سے عمل کر رہے ہیں۔ اور نت نئی دھڑے بندیوں میں مصروف ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی اس کے جواب میں کیا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments