اورنگزیب اور سرمد


یہ اس وقت کی کہانی ہے جب بساط ہند پر ایک نئی چال چلی جا رہی تھی۔ سترہویں صدی نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ ہندوستان اس وقت کرہ ارض پر ایک عظیم ملک تھا۔ اس کی سرحدیں کیرالہ سے غزنی تک اور بنگال سے قندھار تک پھیلی ہوئی تھیں۔

تجار پوری دنیا سے سونا اور ہیرے جواہرات اکٹھے کر کے ہندوستان لاتے اور ان کے بدلے اناج اور مصالحہ جات خرید کر لے جاتے۔ لیکن ملک کا عجیب حال تھا۔ حکمران امیر اور عوام بھوکے۔ تمام دولت درباروں کی شان و شوکت قائم رکھنے اور بڑی بڑی فوجوں کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے مختص ہوتی تھی۔ وہ فوجیں جو آپس کی لڑائیوں اور عوام کو دباؤ میں رکھنے کے استعمال ہوتی تھیں۔ لوگ ایسی تکلیف اور مصیبت میں تھے کہ خیال میں نہیں آ سکتی۔

ظالم عمال اور زمیندار اہل حرفہ کی ساری فصل ہی چھین کر لے جاتے۔ ان کے پاس بسر اوقات کے لیے کچھ بھی نہیں بچتا تھا اور وہ حالت افلاس و تنگدستی میں پڑے مرتے رہتے۔ اگر عاملوں اور مستاجروں کی قمچیوں اور کوڑوں کا خوف نہ ہوتا اور ان کو کوئی راستہ سوجھتا ہوتا تو وہ مایوسی کے عالم میں کہیں بھاگ جاتے یا فتور پیدا کر دیتے۔

ہندوستان کا کہن سالہ بادشاہ جو خود بھی اپنے بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگین کر کے تخت نشین ہوا تھا اعضائے اسفل پر ورم اور حبس البول کی وجہ سے صاحب فراش ہو گیا۔ پوری قلمرو میں تہلکہ پڑ گیا۔ تمام دربار درہم برہم ہو گیا۔ بازار بند ہو گئے اور شہزادوں نے علانیہ کھل کھیلنا شروع کر دیا۔ شیریں زبان، حاضر جواب، خوش خلق، فیاض اور دریا دل ولی عہد از روئے ولادت مسلمان لیکن ہندووں میں ہندو اور عیسائیوں میں عیسائی تھا۔ پنڈت اور ہندو سادھو ہمیشہ اس کی صحبت میں موجود رہتے تھے۔

وہ اپنے آبا و اجداد کی طرح بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کا قائل تھا۔ اس کے مقابل تھے تینوں بھائی۔ جن میں سب سے پیش پیش تھا وہ مذہبی انتہا پسند جو مکاری اور ریا کاری کے فن میں کامل استاد تھا۔ بہت سال پہلے جب اسے دکن کی گورنری عطا ہوئی تو اس کا کہنا تھا ”کاش مجھے ترک دنیا اور درویشی کی اجازت مل جاتی۔ میری دلی تمنا تھی کہ محل کا ایک کونا مل جاتا جس میں بیٹھ کر ساری زندگی پارسائی اور عبادت میں صرف کر دیتا۔

” ولی عہد دارا کہتا تھا“ مجھے اپنے سب بھائیوں میں اگر شبہ اور خوف ہے تو اس دیندار اور نمازی صاحب کا جو ترک دنیا اور درویشی کے لیے جنگل نہیں قلعہ مانگتا ہے۔ ”صوفیا کا پیروکار دارا ان زاہدان ریا کار کا خصلت آشنا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ جب بھی رکوع پذیر ہوں تو حور و غلمان کی مسکراہٹ سے لطف اندوز ہو کر ہی سر بسجود ہوتے ہیں۔

اس وقت مرشد چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ شطرنج کے مہروں کی طرح صف بند یہ شہزادے آسمانی صحیفہ بغل میں دبائے فرنگیوں کی نقل میں خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

مصحف بہ بغل دین فرنگی دارند

متقی، ہوس پرست شہزادے نے مراد بخش کو خط لکھا تھا کہ میں جو فقیرانہ زندگی بسر کرنے میں متردد ہوں سلطنت کے حق حقوق اور دعوؤں سے بالکل دستبردار ہوں لیکن یہ بھی نہیں چاہتا کہ دارا جیسا لامذہب اور کافر جو فرمان روائی کے اوصاف سے بالکل خالی ہے ایک ایسے تاج و تخت کا وارث بنے جس پر جلوہ افروز ہونے کا حق صرف آپ کا ہے۔ جب وہ یہ لکھ رہا تھا تو درویش اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔

تو اتنا گناہ گار، پھر اتنا بے باک
ہے دشت ہوس میں تیرا دامن صد چاک

وہ اس کے پھیلائے دام ہوس میں پھنس گیا اور دونوں نے مل کر بوڑھے بادشاہ اور ولی عہد کی فوجوں کو شکست دے دی۔

پھر عیدالفطر کے بنے بنائے حیلے سے عمدہ پوشاک کو چاک کرنے کا وقت آ گیا۔ وہ مراد بخش جو گھمسان کی جنگ میں پہلو میں بیٹھے اپنے سات سالہ بچے کو ڈھال سے بچاتے ہوئے بڑے استقلال سے لڑتے ہوئے فتح یاب ہوا تھا ظاہری اطاعت اور محبت کے فریب میں دعوت پر بلایا گیا۔ حسن و جمال اور لطافت و نزاکت میں بے نظیر حسین و جمیل ارباب نشاط بھی حاضر تھیں۔ پرہیزگار شہزادہ بہانا بنا کر اٹھ گیا ”میں اپنے مذہبی خیالات کی وجہ سے اس صحبت عیش و نشاط میں رہنے سے قاصر ہوں۔

” میزبان لونڈیاں، حیرت افزا نازنین، مغلوب النفس مراد بخش کو شراب کابلی و شیرازی پلا کر مدہوش کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو وہ اندر داخل ہو کر بولا“ بڑے شرم کی بات ہے کہ تم بادشاہ ہو کر ایسے غافل اور بے خبر ہو جاؤ۔ ”باندھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمانے لگا“ اگر یہ مخمور کچھ ہاتھ پاؤں ہلائے تو ابھی قتل کر دو۔ ”

وہ لمبی داڑھی والا پیر وہیں موجود یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ مدہوش خفتہ بخت مراد کو دیکھ کر کہنے لگا

دشمن تیرا کوئی نہیں غفلت کے سوا
یہ خواہش رفعت نہیں ذلت کے سوا
ہوشیار ہو پیری میں کہ اس منزل پر
ملتا نہیں کچھ شرم و ندامت کے سوا

شریعت کے پیروکار، نمازی و پرہیزگار اورنگزیب نے اس کی طرف دیکھا اور طنزیہ مسکراہٹ بکھیرتا ہوا خلوت خانے کی طرف چل پڑا۔

ملک سندھ کی گرمی اور باد سموم کا مارا دارا جب دلی لایا گیا تو اورنگزیب نے اس کی تشہیر کا حکم دیا۔ دارا شکوہ، جس کی شادی کے جشن میں پوری دلی کے بازاروں کو سجایا گیا تھا آج کسی پرزر جھول اور سونے کے ساز سے سجے ہاتھی کی زرق برق عماری میں سوار نہیں تھا۔ ایک نہایت مریل اور میلا کچیلا جانور اس بوجھ کو اٹھائے ہوا تھا۔ دارا قبائے زربفت اوڑھے تھا اور نہ سر پر مکلف اور عمدہ پگڑی تھی بلکہ وہ اور اس کا بیٹا میلے اور موٹے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

سر پر کشمیری اونی کپڑے کا حقیر عمامہ تھا۔ بازار جن میں کھوے سے کھوا چلتا تھا، کٹورا بجتا تھا، دم کے دم میں بند ہونا شروع ہو گئے۔ ہر طرف ہاہا کار مچ گئی، عورتیں، مرد اور بچے اس طرح آہ و بکا کر رہے تھے گویا ان پر کوئی بڑی آفت آن پڑی ہے۔ عوام الناس کے ہر دلعزیز ولی عہد کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں نے سپاہیوں اور ان کے افسر جیون خاں پر گالیوں اور لعن طعن کی بوچھاڑ کر دی۔ کچھ فقیروں اور غریب آدمیوں نے اس پر کنکریاں اور پتھر بھی پھینکے۔

فقیروں کے ساتھ ہی ایک طرف گندے اور لمبے بالوں والا سرمد کھڑا بادشاہ کے محلات کی طرف اشارے کر کے دوہے گا رہا تھا۔

مینائے فلک میں ہے عداوت کی شراب
تاثیر ہے اس کی فقط بد مستی
اورنگزیب یہ دیکھ کر شرمندہ سا ہو گیا۔

شاہ جہاں شکست کے بعد آگرہ قلعہ میں محصور ہو گیا تھا۔ اورنگزیب نے اس قلعے کے دروازوں کو چنوا کر قید خانہ میں تبدیل کر دیا۔ اب اس کی نظر معزول بادشاہ کے خزانے پر تھی۔ اس نے سو حیلے بہانے کیے کہ معزول بادشاہ وہ سارا خزانہ اس کے حوالے کر دے تاکہ ان قیمتی جواہر کو مقدس تخت کی زینت بنا سکے۔ لیکن باپ ان زیادتیوں کی وجہ سے بہت ناراض تھا۔ اس کا جواب تھا ”ان ہیرے جواہرات کو کوٹ کر چور چور کر دوں گا، تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔“

اس طرح وہ مذہب کا دلدادہ شہزادہ اورنگزیب بھائیوں کو قتل کر کے، بہن، بیٹے اور باپ کو قید خانے میں ڈال کر عالمگیر بن گیا۔ وہ بوڑھا اب بھی فقیرانہ زندگی بسر کرنے میں متردد نئے بادشاہ کو یاد دلا رہا تھا

اللہ کی نہیں اے دل کچھ تجھ کو خبر
ہر وقت ہے تجھ کو خواہش سیم و زر
تو موج سراب سے ہے بڑھ کر بے بود
مانند نسیم ہے یہاں تیرا گزر

اپنے ہی بہن بھائیوں اور باپ بیٹے سے نمٹ کر اب اس کا نشانہ تھے دارا کے حواری، دوست اور درباری۔ اب آئی باری اس مرشد کی جو کہ دنیا اور لذت دنیا کی ہر خواہش سے بالا تھا۔ وہ جو دنیا و جہاں کی ہر ضرورت اور آسائش سے بیگانہ تھا۔ وہ مجنوں جس نے پورے ہندوستان کے ریگزاروں میں تلوے گرم کیے تھے۔ وہ جو سینائے مقدس ٹھٹھہ سے لاہور، حیدرآباد دکن اور پھر دہلی کی جھلسانے والی گرمی اور ریتلی ہواؤں میں اڑنے والے ذرات کا مقابلہ دہائیوں سے اپنے جسم پر صرف غبار رہ دشت اوڑھ کر کرتا رہا تھا۔ جس کے ہزاروں پیرو کار چوتھائی صدی سے اس کے ہم رکاب تھے۔ جس کے پاس غریب بے آسرا لوگوں کا مجمع رہتا تھا۔ جس کی کرامات کا دارا شکوہ اور شاہجہان بھی معتقد تھا۔ وہ ملامتی خود تو ایسی کرامات سے منکر تھا۔

بر سرمد برہنہ کرامات تہمت است

پھر وہی صدیوں پرانا الزام جو ہر دور کے منصور پر لگایا جاتا ہے کہ وہ خدا اور احکام دین کے منکر ہے، ہتھیار بن گیا۔

اورنگ زیب کا پیغام آیا کہ اغماض کرنے والے اور تمہاری برہنگی کو ماننے والے اب نہیں رہے، کپڑے پہنو، ہوش پکڑو اور خلاف شریعت سے باز آؤ۔ پوچھا گیا ”اے شخص، باوجودیکہ کمال علم و فضل، تیری برہنگی کا عذر کیا ہے؟“۔ سرمد نے ہنس کر جواب دیا۔ ”میں کیا کر سکتا ہوں، شیطان قوی است“۔

موجب میری پستی کا ہے وہ خوش بالا
مسحور جس نے دیدہ مے گوں سے کیا
وہ بغل میں اور میں اس کی طلب میں
اک دزد نے کر دیا مجھ کو ننگا

عجیب چور ہے کہ میرا لباس تک چرا کر لے گیا ہے۔

پس بادشاہ نے علماء کے اتفاق رائے سے اس کے قتل کا فتویٰ جاری کر دیا۔ جب وہ قتل گاہ کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو اس کے ہزاروں چاہنے والوں کی بارات ساتھ چل رہی تھی۔ جلاد تلوار لے کر سامنے آیا تو سرمد نے مسکراتے ہوئے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت بے غمی اور بے تکلفی سے اسے پکارا

”میرے محبوب آ، آ جا، میں تجھے پہچانتا ہوں۔ تو جس بھی روپ میں آئے گا میں تجھے جان جاؤں گا۔“
مردانہ وار سر تلوار کے نیچے رکھ دیا اور جان دے دی۔
مدت گزری، فرسودہ ہوئی آواز منصور
ہم بخشیں گے ضیا اب دارورسن کو
کہتے ہیں کہ سرمد کا سر مقتول کلمہ طیبہ پڑھتا رہا اور کافی دیر تک مصروف حمد الٰہی بھی رہا۔

اب عالمگیر کے تمام مخالف ختم ہو چکے تھے۔ آج وہ سوچ رہا تھا کہ اب پر سکون سوئے گا۔ لیکن اسی رات وہ ننگم ننگا اس کے سامنے کھڑا دھمال ڈال رہا تھا۔ وہ جس پر الزام تھا کہ صرف لا الہ کہتا ہے اور اللہ کو نہیں مانتا بار بار اس کی طرف اشارہ کر کے گا رہا تھا۔

کرتا ہے عنایت جو تجھے سلطانی
کرتا ہے غم دہر ہمیں ارزانی
جو عیب سے پر ہیں انہیں دیتا ہے لباس
بے عیبوں کو دیتا ہے فقط عریانی

اب یہ روزانہ کا معمول تھا۔ بھیگی رات میں جب آنکھیں بوجھل ہو جاتیں، پوری دنیا سو جاتی، عالم مثال کا صور پھونکا جاتا تو ساری مہمات ایک ایک کر کے اسے یاد آنا شروع ہو جاتیں۔ میدان دوبارہ سج جاتے۔ مہیب توپوں کی دھمک، تلواروں کی کڑک، بے سر ابدان کی پھڑک، قیدی دلوں کی کسک اور زنجیروں کی چھنک اس کی سماعت کو ماؤف کر دیتی تو وہ اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔ اس خوف سے وہ راتوں کو جاگتا رہتا۔ درویش کے قہر سے نمازیں اور منافقانہ نیکیاں بھی نہیں بچا سکتی تھیں۔ وہ راتوں کو بیٹھ کر نمازیوں کے لیے ٹوپیاں سینے لگا۔ ذرا آنکھ لگتی تو وہ سامنے آ کر پھر اودھم مچانا شروع کر دیتا۔ عالمگیر خوف سے جاگ جاتا۔

جو شخص ہوس پرست ہے وہ ہے ناکام
دانے کی ہوس سے ہی ہے، طائر تہ دام
مال تو ہے دراصل ملال و وبال
کم ہو کہ زیادہ، ہے سراسر آلام

بالآخر ایک دن وہ شاہی مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے، جہاں قتل گاہ سجائی گئی تھی، جہاں فقیر کا عروس ہوا تھا، جا پہنچا۔ قبر پر حاضری دی اور وہاں موجود ایک فقیر سے دعا کرنے کی التجا کی۔ فقیر نے نظریں جھکا کر ہاتھ اوپر اٹھائے اور پکارا۔

”سرمد! بہت ہو چکا اب اس ناداں دنیا پرست شہنشاہ کو بخش دے۔“
زاہد کو خبر کیا کہ خدا کیا شے ہے
ناداں تو سمجھے گا نہ یہ راز لطیف

(اس افسانے کی تیاری میں ڈاکٹر برینئر اور ابوالکلام آزاد کی کتابوں سے مدد لی گئی۔ سرمد کی زیادہ تر رباعیوں کا ترجمہ عرش ملسیانی کا ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments