ایک کرسی “اقصیٰ” میں


For the Chair in Aqsa

کچھ موضوع کچھ لفظ بھوت بن جاتے ہیں، وہ آپ کے سامنے بار بار آ کے پکارتے ہیں، اصرار کرتے ہیں، کبھی نرمی سے اور کبھی غصہ کر کے کہ مجھے لکھو

یہ بھی ایسا ہی ایک جملہ ہے، جب بھی میں کسی کام سے اپنا بینک اکاؤنٹ کھولتی ہوں یہ میسج ونڈو پہ فوراً سامنے آ جاتا ہے۔

It is for the chair in Masjid e Aqsa

میں نظریں چرا لیتی ہوں کیونکہ میں ابھی اس پہ بات نہیں کرنا چاہتی، ابھی بہت اداسی ہے۔ ابھی ہر طرف بس بری خبریں ہیں۔ کورونا ہے، کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے گزر جانے کی خبر ہے۔ رمضان ختم ہیں، کل عید ہے لیکن لاک ڈاؤن ہے۔ نہ پورے رمضان کسی سے مل سکے نہ عید کو عید کی طرح منا سکتے ہیں۔ عجیب اداسی ہے۔ مجھے آج کے بچے عبداللہ حسین کے ناول کے عنوان کی طرح لگتے ہیں ”اداس نسلیں“ جن کی زندگی، جذبات اور دوستی مشینوں، روبوٹوں اور اسکرینوں کے گرد گھومتی ہے اور رہی سہی کسر اس تنہائی نے پوری کر دی ہے۔ میں سوچتی ہوں ذرا عید گزر جائے اتنے میں بچے اپنی اسکرینوں کو سکرول کرتے ہوئے سوال اٹھا دیتے ہیں ”آپ نے دیکھا کیا ہوا؟“ ”آپ نے کچھ نہیں لکھا؟“ میں پھر چور بن جاتی ہوں، ایک بار قلم اٹھا لو، پھر یہ ذمے داری بن جاتا ہے۔ بچے باخبر ہیں، یہ نسلیں واقعی اداس ہیں۔

پھر دوبارہ وہی جملہ سایہ بن کے ابھر آتا ہے۔
It is for the chair in Masjid e Aqsa

میں تو بھول بھی ہی تھی، پتا نہیں 2 سالہ پہلے کی بات ہے یا تین سال، کسی نے ایک گروپ پہ میسج کیا تھا۔ میں مسجد اقصیٰ میں موجود ہوں یہاں ایک سیکشن میں بیٹھ کے نماز پڑھنے والوں کے لئے کرسیوں کی ضرورت ہے، اگر آپ لوگ مدد کریں تو میں فوری انتظام کر سکتی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ مجھے اب تفصیل یاد ہے اور نہ ان خاتون کا نام۔

بس مجھے ان پہ رشک آیا کہ وہ وہاں موجود ہیں۔

کہا تو یہ گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ایسے دو کہ دوسرے ہاتھ کو نہ پتہ چلے۔ میں اس لیے چاہے تھوڑی سی ہو خواتین کی اپنی کمائی اور اپنے اکاؤنٹ کے حق میں ہوں۔ کچھ معاملے صرف اللہ اور بندے کے درمیان ہوں تو مزا آتا ہے لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے اور پھر اتنے سارے اور میسیجز بھی ہوں گے میری ہسٹری میں مگر یہ جملہ بار بار شاید یاد دھیانی کے لیے نمودار ہو رہا ہے کہ میری بات کرو۔

اس وقت ایک کرسی نے مجھے بیت المقدس سے جوڑ دیا تھا۔ پتہ نہیں میں کبھی جا سکوں گی یا نہیں لیکن قبلہ اول میں میرے نام کی ایک کرسی ہوگی۔ مجھے کچھ رشک آتا ہے بلکہ شاید حسد سے ہوتا ہے میرے ان جاننے والوں سے جو خوش نصیب ٹھہرے، جن کے پاس وقت، پیسہ اور وسائل تھے جو سب دیکھ آئے، محسوس کر آئے۔ شاید میں بھی کبھی قبلہ اول دیکھ سکوں، وہاں کے منظروں کو تصویر میں قید کر سکوں اور اپنی تحریر میں اتار سکوں لیکن پچھلے کئی دنوں سے جو ظلم کا بازار گرم ہے وہ ساری امیدیں توڑ رہا ہے۔

بچپن سے دیکھ رہے ہیں۔ مسئلہ مذہب کا نہیں ہے، فلسطین میں ایک عرصے سے مسلمان، عیسائی اور یہودی آباد ہیں۔ فلسطین کی عیسائی کمیونیٹی دنیا کی قدیم ترین کمیونیٹی ہے۔ یہ جنگ بھی نہیں ہے کہ جنگ میں تو دونوں فریقین کیل کانٹے سے لیس ہوتے ہیں، یہ تو ایک دہشت گرد گروپ کا اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ سے آباد لوگوں کی زمین کو ٹکڑے کرنے اور اپنا تسلط جمانے کی دہشت گردی ہے جن کی پیٹھ تھپکنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتیں موجود ہیں۔ یہ تو نہتوں پہ ظلم کی داستان ہے اور دوسری طرف اس ظلم ناچتے، گاتے خوشیاں مناتے دہشت گردوں کا وہ گروہ ہے جو ان کے گھروں کو لوٹ کے ان پہ قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

شیخ جراح میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں بھی جبری طور پہ اس یہودی گروپ کی آبادکاری کی جا رہی ہے اور لوگوں کو بسے بسائے گھروں سے نکالا جا رہا ہے اور ساتھ ہی مسجد اقصیٰ پہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں کتنے ہی لوگ زخمی، شہید اور بے گھر ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی اس کی مذمت کر رہے ہیں، اس میں وہ یہودی بھی شامل ہیں جو اب بھی اپنی کتاب کو مانتے ہیں اور اس خاص گروہ کے خلاف ہیں جنہیں دنیا زاءنسٹ کے نام سے جانتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
*
اس کو ظلم کے بجائے تصادم کہنے والوں کی مذمت کریں۔
*
اپنے آپ کو صحیح اور مستند معلومات کے ساتھ ایجوکیٹ کریں تاکہ ٹھوس دلیل کے ساتھ بات کر سکیں۔
*
آپ جہاں ہیں وہاں خاموش نہ رہیں، اس پہ بات کریں۔ اپنی والز پہ حقیقت پہ مبنی معلومات شیئر کریں۔
*

ملٹی کلچر ممالک میں رہنے والے لوگوں کو ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنی آواز دوسری قومیتوں تک پہنچا سکتے ہیں جو ان معاملوں سے یکسر بے خبر ہیں یا پھر جھوٹے پروپیگنڈے پہ یقین کرتے ہوئے اسے مذہب یا زمین کی ”جنگ“ سمجھتے ہیں۔

*

اپنے علاقے کے ایم پی یا حکومت سے منسلک دوسرے با اختیار لوگوں اور میڈیا کو ای میل کر کے واقعے کی مذمت کریں اور ان کو خاموشی کا احساس دلائیں۔

*
اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے لیے اپنے مال سے مدد کریں اور ڈونیشن دیں۔
*
دعا کریں، ہے وہ مدد ہے جس کے لیے کسی قسم کی مدد، مال اور اختیار کی ضرورت نہیں۔ بہت دعا کریں۔

اللہ تعالیٰ جہاں جہاں ظلم اور بربریت کا بازار گرم ہے اور ظالم مظلوم پہ حاوی اور حق پہ ہونے والا مجبور اور بے بس وہاں اپنی خاص مدد اور رحمت کے ذریعے معصوم لوگوں کی مدد فرمائیں۔ آمین۔

میں نے لکھ دیا۔ اپنا حصہ ڈال دیا، آپ آگے بڑھا دیں۔ اب شاید میں پھر میں اپنی ونڈو کھولوں تو مجھے پھر نظر آئے

It is for the chair in Masjid e Aqsa

لیکن اب یہ جملہ مجھے کسی آسیب کی طرح بے چین نہیں کرے گا بلکہ شاید مسکرائے گا اور میں سکون سے کچھ اور بھی لکھ سکوں گی کہ میرا قلم اس معاملہ میں چپ نہیں رہا اور قبلہ اول میں ایک کرسی میرے نام کی بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments