حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات


پاکستان میں اسرائیل فلسطین قضیے پر جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس میں سمجھتا ہوں کچھ چیزیں اہم ہیں جنہیں اپنے اردو دان دوستوں کے نوٹس میں لانا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں۔
ایک: شیخ جراح کے واقعے کے ردعمل میں راکٹ حملوں کی ابتداء حماس کی طرف سے ہوئی۔ مگر اب اسرائیل اپنی فضائیہ بحریہ اور بری فوج تینوں استعمال کر رہا ہے۔
دوم: حماس کے پاس کل راکٹ تین ہزار ہیں جن میں سے تقریباً چوبیس سو چل چکے ہیں اور صرف چھ سو باقی ہیں
سوم: اب تک فلسطین کے دو سو بارہ اور اسرائیل کے بیس لوگ اس جنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔
چہارم : مارچ 2021 میں اسرائیل میں الیکشن ہوئے ہیں جن کے سبب نیتن یاہو کی Likud پارٹی کو صرف تیس سیٹس ملیں اور اتحادی جماعت Blue and White کو آٹھ۔ یاد رہے کہ یہ الیکشن ایک سو بیس سیٹوں پر تھا اور باقی سیٹیں دیگر جماعتوں کو ملیں۔ حالیہ تصادم سے پہلے اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لا رہی تھی اور قوی امکان تھا کہ نیتن یاہو اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کہ یہ تصادم برپا ہو گیا جس کے سبب اب نیتن یاہو اسرائیل میں قوم پرست جذبات پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے عندیہ دیا ہے کہ ہم ایسی نازک صورتحال میں حکمران قیادت کو ہٹانا نہیں چاہتے اور اس کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔
پنجم : فلسطین کے صدر محمود عباس ہیں جن کی پارٹی کا نام فتح ہے۔ حماس فلسطین کی سرکاری فوج نہیں اور نہ ہی وہ فلسطینی ریاست کی اجازت سے لڑ رہے ہیں۔ اس سارے معاملے میں محمود عباس کی پوزیشن صفر ہے۔ محمود عباس دو ہزار پانچ میں اقتدار میں آئے، دو ہزار نو میں ان کا اقتدار ختم ہوتا ہے مگر انہوں نے کوئی الیکشن تب سے نہیں کرایا اور اپنی کرسی پر جم کر بیٹھے ہیں۔ اب اس سال 29 اپریل کو الیکشن ہونا تھے مگر انہوں نے انہیں مؤخر کر دیا ہے کہ جب تک یروشلم کے لوگ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے وہ الیکشن نہیں کرائیں گے۔
ششم : حماس کو صرف دو ممالک کا تعاون حاصل ہے قطر اور ایران۔ اور فتح کو سعودی عرب مصر اور دیگر مسلمان ممالک کا۔ غالباً دو ہزار آٹھ میں سعودی عرب نے کوشش کی تھی کہ حماس اور فتح مل کر حکومت بنائیں اور آگے بڑھیں مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ یاد رہے کہ حماس کو سب سے زیادہ مالی تعاون قطر سے ملتا ہے اور قطر خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اور اس کے فارن پالیسی مقاصد کا اہم پارٹنر ہے مثال کے طور پر امریکہ طالبان مذاکرات کو دیکھ لیں جو قطر کی ضمانت اور بطور سہولت کنندہ کردار کے بغیر ناممکن تھے۔ دوسری طرف اسرائیل امریکہ سے سب زیادہ امداد لینے والا ملک ہے پھر مصر اور پاکستان آتے ہیں۔
ہشتم : اس وقت اسرائیل میں سول وار قسم کی صورتحال ہے۔ عرب موقع دیکھ کر کسی یہودی پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تو یہودی کسی عرب پر۔ رات بی بی سی کا نامہ نگار بتا رہا تھا کہ صورتحال نہ صرف زیادہ پرتشدد ہو رہی ہے بلکہ گزشتہ بیس برس میں ایسا سول تصادم مشاہدہ میں نہیں آیا جو سب سے زیادہ اسرائیل میں قوم پرستوں اور مذہبی رجعت پسندوں کو فائدہ دے رہا ہے۔ اور یہی صورتحال فلسطین میں ہے ہر نیا تصادم محمود عباس کی جماعت فتح کو کمزور اور حماس کو طاقتور کر دیتا ہے۔

امید ہے یہ چند نکات اس سارے تصادم کے فہم میں کچھ مددگار ہوں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments