جبری عید



ہم سب، جبری گمشدگیوں، جبری مذہبی تبدیلی، جبری شادی، جبری کام کے نام تو سنتے ہی آئے ہیں، پر اس عید پہ ایک نیا نام دریافت ہوا، وہ ہے جبری عید۔ آپ سب سوچنے لگیں گے کہ یہ بھی بھلا کوئی بات ہوئی، عید ہونے یا نہ ہونے پر کسی کا بس نہیں چل سکتا، یہ کام تو خدائی قانون کے سپرد ہے، جب حلال چاند نظر آتا ہے، چاہیے انتیس یا تیس تاریخ ہو، تو عید ہوجاتی ہے۔ پر اس دفعہ ایسا نہیں ہوا، عید کا اعلان روزہ افطاری کے بعد نہیں ہوا، بلکہ گھنٹوں بعد اعلان ہوا کے کل عید منائی جائے گی۔

تب تک تو تراویح پڑھنے والوں نے تراویاں پڑھ لیں تھیں، اور جن کو تیسویں روزے کے لیے دہی جمانی تھی، یا جلد سونا تھا وہ بھی سو چکے تھے۔ پکا ان کو نیند سے اٹھا کر آگاہ کیا گیا ہوگا کے آج رات روزہ نہیں رکھنا، کل صبح عید کا اعلان بارہ بجے کے قریب کر دیا گیا ہے۔ تمام ممالک چاند نظر آنے یا نہ آنے کا اعلان افطاری کے گھنٹے یا ڈیڈ گھنٹے کے بعد کر دیتے ہیں، اور تمام مسلمان با آسانی سے اس حساب سے اپنی تیاری مکمل کر لیتے ہیں۔

پر ہمارا ملک جو ریاست مدینہ کہلانے کا دعویدار ہے، وہاں کوئی کام ڈھنگ سے ہو، یہ بس دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔ بدھ کی رات چاند نظر آنے کے کوئی امکانات نہ تھے، اور صوبہ سندھ اور پنجاب میں سے ایک بھی شہادت نہیں ملی، اس کے باوجود بھی توہم پرستی پہ مبنی دباؤ نے، نہ صرف ایک دن پہلے عید کروائی بلکہ تمام مسلمانوں کا ایک روزہ بھی ضائع کر دیا جو بیشک ایک بڑا گناہ ہے۔ ہم امید لگائے بیٹھے تھے کے اس دفعہ رویت ہلال کمیٹی کا سربراہ ہمیشہ کی طرح مفتی منیب الرحمان کے بجائے مولانا عبد الخبیر ہے، اور ضرور کوئی مثبت تبدیلی آئے گی، اور نماز مغرب کے بعد جلد ہی چاند ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کر دیا جائے گا۔

پر سب کچھ الٹا پڑ گیا، وہ مفتی جو ساڑھے دس تک اعلان کر دیتا تھا، اب نئے آئے ہوئے چیئرمین نے اس کا رکارڈ توڑتے ہوئے ساڑھے گیارہ بجے جا کے اعلان کیا۔ اور ہوا میں یہ سرگوشیاں ہر سو پھیل گئیں کہ، اگر جمعرات کے دن عید کا اعلان نہ کیا گیا تو جمعے کی عید حکمران وقت کے لیے بھاری ہو سکتی ہے، اور اس کے اقتدار کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جمعے کے دن عید اور جمعے نماز کے اکٹھے دو خطبوں سے حاضر وقت کا حکمران مصیبت میں پڑ سکتا ہے۔

ایک ایسا وہم جو ڈکٹیٹر ضیاءالحق کے دور سے چلا آ رہا ہے، اس کو سچ مان کر چاند نہ ہوتے ہوئے بھی عید کا اعلان کر دیا گیا، اور اس سے بڑی منافقت کیا ہوگی کے اتنے بڑے عہدے پہ فائز مولانا اور اس کی ٹیم نے، دباؤ میں آ کر جھوٹ بول دیا۔ حالانکہ دوسری رات جب عید گزر چکی تھی تو اس رات نظر آنے والا چاند کسی بھی طرح سے دوسری تاریخ کا چاند نہیں تھا بلکہ پہلی تاریخ کا تھا۔ پر جھوٹی اور من گھڑت شہادتوں کی بنا پر جو فیصلہ کیا گیا، اس نے تمام پاکستانیوں کے عید کے مزے کو کرکرا کر دیا اور یہ عید جبری عید کھلائی۔

اس اچانک جبری عید نے تو چاند رات کا مزہ بھی چھین لیا، اور جو خواتین اور لڑکیاں مہندی لگواتی ہیں اور اپنے جوڑے استری کر کے رکھ دیتی ہیں، ان سب کو بھی تب پتا چلا، جب چاند رات کا وقت ختم ہو چکا تھا، اور گھڑی کا کانٹا آدھی رات ہونے کو عندیہ دے رہا تھا۔ اب سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب کہتے ہیں کہ پاکستانی ایک روزہ قضا کر کے رکھ لیں، کیوں کہ، ان کا ایک روزہ رہتا ہے جب کہ موجودہ قیادت اس بات کی نفی کر رہی ہے اور چاند نظر آنے کہ بات پر اٹل ہے۔

وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی پختہ دلائل اور حقائق کے ساتھ یہ بات سوشل میڈیا پر 9 بجے تک شیئر کر دی تھی کہ، ابھی چاند کی عمر تیرہ گھنٹے ہیں، اور جب تک چاند کی عمر بیس گھنٹے کی نہیں ہوجاتی وہ پہلی کا چاند نہیں مانا جا سکتا، پر اس کی بھلا کون سنے گا؟ اس سے تو پہلے ہی مولوی صاحبان ناراض ہیں کیونکہ وہ ایک رات میں آنے والے اخراج کو روکنے کے لیے اس بات پہ بضد تھا کہ، قمری کیلینڈر جاری کر دیا جائے، جس سے پتا لگ جائے گا کہ چاند کب نظر آئے گا۔

دیگر مسلم ممالک بھی اس کیلنڈر کو فالو کرتے ہیں، پر ہمارے یہاں کچھ زیادہ ہی مذہبی لوگ پائے جاتے ہیں، جو بس اپنے سوا کسی کی سننا نہیں چاہتے۔ وہ بچے جو عید کا چاند نظر آتے ہی، اپنے دوستوں اور بھائی بہنوں میں عید کے تحائف تقسیم کرنا شروع ہو جاتے ہیں، وہ بھی بیچارے ٹی وی دیکھ دیکھ کر سو گئے، اور ان کو عید کا پتا تب جا کے چلا جب، سورج طلوع ہو چکا تھا۔ ان سب باتوں نے عید کو اس دفعہ ادھورا کر دیا۔ ہر گھر کا اپنا الگ قصہ ہے، ہر کسی کے پاس اپنا ماجرا ہے، پر شاید ہی کوئی ہو جو پونے بارہ بجے کے عید اعلان پہ خوش ہوا ہو۔ اخر کون چاہے گا کہ میں سحری کی تیاری کر کے پھر صبح عید مناؤں، پر ریاستی مفادات نے اس قدر مجبور کر دیا ہے کہ، ہم اب عید بھی جبری طور منانے پر مجبور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments