جدا ہو دیں سیاست سے…


کیا سیاست کو مذہب کے تابع ہونا چاہیے؟ کیا مذہب اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے؟ کیا صرف مذہب ہی ریاست کو وہ سنہری اصول فراہم کر سکتا ہے جس کی بنیاد پر ایک مثالی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا ریاست کو درپیش مسائل کا حل مذہب کے پاس موجود ہے؟ یہ وہ تاریخی سوالات ہیں جنھیں میری عمر کے لوگ بچپن سے سنتے آئے ہیں اور اگر پاکستان کی موجودہ صورت حال کو دیکھا جائے تو ان سوالات کی اہمیت جوں کی توں ہے کیونکہ آج بھی ہمارے پاس ایسی مذہبی و نیم مذہبی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو سیاست پر مذہب کو غالب لانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔

آج بھی آپ کو ہاسٹل کے کمروں میں، چائے کے ڈھابے پر، یونیورسٹی کی کینٹین پر یا سوشل میڈیا پر نوجوان اس طرح کے سوالوں پر بحث کرتے نظر آئیں گے یہ الگ بات ہے کہ اگر آپ ”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی چنگیزی“ کے حامی ہیں تو آپ برملا اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں اور اپنے دلائل کو مضبوط بنائے کے لئے ببانگ دہل اس سے ملتے جلتے جملے داغ سکتے ہیں اور بعض اوقات جذبات کی رو میں بہتے ہوئے مخالف رائے پر دل کھول کر پھبتیاں بھی کس سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ کا نکتۂ نظر صرف ”جدا ہو دیں سیاست سے“ تک محدود ہے تو آپ کو سوچ سمجھ کر اپنے دلائل دینا پڑیں گے تا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

سیکولر نظریات کے حامیوں کا یہ خیال ہے کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست میں تمام شہری برابر ہیں کوئی بھی مذہب کی بنیاد پر کسی سے بر تر نہیں ہے اور تمام شہریوں پر آئین و قانون کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں مغربی ممالک کی مثالیں دی جاتیں ہیں کہ وہاں مذہب اور سیاست کو دو الگ شعبے مانا جاتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی جاتی جس وجہ سے ان معاشروں میں رواداری اور سیاسی استحکام کا فقدان نہیں ہے۔

دوسری طرف ایسے لوگ جو مذہب اور سیاست کو ایک ہی دائرہ کار میں رکھنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ مذہب ہی ہے جو کسی بھی معاشرے کو اخلاقی اقدار مہیا کرتا ہے۔ مغربی ممالک کے حوالے سے ان کا یہ نکتۂ نظر ہوتا ہے کہ کیا ہوا اگر مغرب مادی ترقی میں ہم سے آگے ہے اخلاقی طور پر ہم ان سے بہتر ہیں۔ وہاں بے حیائی اور اخلاقی بے راہ روی موجود ہے۔

کیا واقعی سیاست مذہب کے تابع آ سکتی ہے؟ اگر ہم تاریخی طور پر مذہب اور سیاست کے تعلق کا جائزہ لیں تو ایسا بہت کم ہوا کہ سیاست مذہب کے تابع رہی ہو بلکہ تاریخ میں آپ کو کئی ایسے کردار مل جائیں گے جنھوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے غرض سے مذہب کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا اور اس طرح اقتدار کے ایوانوں اور مذہب کے پروانوں نے باہم مل کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔

برصغیر کے تناظر میں آپ کو جا بجا ایسی مثالیں مل جائیں گی جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح حکمران طبقے نے مذہب کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کیا اور مذہب کی آڑ میں اپنے ہر عمل کو جائز بنایا۔ اکبر کو جب چار شادیوں سے زائد شادیوں کا مسئلہ درپیش آیا تو اس نے اپنے ہی مقرر کردہ مفتی سے یہ فتویٰ لیا کہ بادشاہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چار سے زائد شادیاں کر سکتا ہے۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائیوں کے سفاکانہ قتل کا جواز بھی مذہب سے ہی پیش کیا۔ یہ تیمور لنگ کا ہندوستان پر حملہ ہو شاہ احمد شاہ ابدالی کا دلی میں خون کی ہولی کھیلنا ہو دونوں ہی اپنے حملوں کو جہاد قرار دیتے ہیں۔

کچھ مخصوص حالات میں حکمران اس بات کا بھی تعین کر لیتے ہیں کہ مذہب کے نام پر کیا جانے والا قدم اور ایک مخصوص وضع قطع انہیں کس طرح عوام میں مقبول بناتا ہے۔ جناح کیپ سے لے کر کپتان کی تسبیح اس کی جیتی جاگتی مثالیں۔ اسی طرح تحریک پاکستان میں مسلم لیگی رہنماؤں کی اکثریت سیکولر نظریات کی حامل تھی مگر انہوں نے بھی اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے مذہب کا بھرپور استعمال کیا اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہ سلسلہ ہنوز اپنی پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔

اس میں قائد عوام بھٹو نے بھی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالا اور ان کے بعد ”امیر المومنین“ تو اس ہنر میں سب پر سبقت لے گئے۔ میاں صاحب نے بھی پندرہویں ترمیم کی آڑ میں اپنے آپ کو داعی اسلام منوایا۔ مشرف صاحب کے زمانے میں ان کے مفادات لبرل طاقتوں سے بندھے ہوئے تھے لہذا وہ اس سعادت سے کسی حد تک محروم رہے۔ باقی رہ گئے ہمارے کپتان۔ تو ان کے طرز عمل پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے وہ سب کے سامنے ہی ہے۔

تاریخی شہادتوں سے یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ مذہب اور سیاست کے تعلق میں زیادہ تر مذہب سیاست کے تابع رہا ہے اور مذہب کے سیاسی استعمال میں سب سے زیادہ فائدہ حکمران طبقے کو ہوا ہے۔ حکمرانوں نے اپنے مقاصد مذہب کی آڑ میں پورے کیے جس کا عوام کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا الٹا عوام میں موجود کچھ تنقیدی ذہن ”چند اہم وجوہات“ کی بنا پر اس ساری صورت حال پر تنقید کرنے سے بھی قاصر رہے۔ ایک ایسی ریاست جہاں مذہب اور سیاست جدا جدا ہوں وہاں مذہب بھی اپنی آزاد حیثیت سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے کیونکہ مذہب کا سیاست کے تابع ہونا اس کی اپنی ترقی اور بڑھوتری کے منافی ہے۔ لہذا یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ ہم ”جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“ سے چنگیزی جیسی سفاکیت اور بربریت کو حذف کر دیں اور جدا ہو دیں سیاست سے تک ہی اکتفا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments